کابل میں ہزارہ کمیونٹی پہ ظالمانہ حملے کرکے دولت اسلامیہ نے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کا مقصد آسان اہداف کو نشانہ بناکر عالمی دنیا کی توجہ حاصل کرنا ہے. اس کام میں مغربی میڈیا ان کی بھرپور مدد کر رہا ہے، دولت اسلامیہ کی فکری دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ اس کے ہمنوا طالبان و القاعدہ تک کی تکفیر کرتے ہیں، دیو بندی بریلوی اہل حدیث و شیعہ تو بہت دور کا قصہ ہیں. دولت اسلامیہ عالمی جہاد کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنا چاہتی ہے اور اس کام میں کسی نا کسی درجے کی رکاوٹ القائدہ و طالبان ہیں.
افغانستان میں اس قسم کے دہشت گرد حملوں کا مقصد طالبان کو پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش ہے. فطری بات ہے کہ لشکر جھنگوی و پاکستانی طالبان ان حملوں کو پسند کرتے ہیں اور شاید اس کا ہدف یہ بھی ہو کہ ان کی ہمدردی سمیٹی جائے. یہ بات پیش نظر رہے کہ جب عراق میں ابو مصعب الزرقاوی نے اہل تشیع پہ منظم حملے کیے تو اسامہ بن لادن نے اس پہ سخت گرفت کی اور اسے جہاد کو ڈی ٹریک کرنے کی کوشش قرار دیا لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی. القاعدہ کے بطن سے نکلنے والی دولت اسلامیہ نے اپنے لیے راستہ تبھی منتخب اور الگ کرلیا تھا. شیعہ سنی فساد کا کہیں فائدہ نہیں ہوا تقسیم و اختلافات کی خلیج ہی گہری ہوئی ہے. یہ سلسلہ شام و عراق کی صورتحال کی وجہ سے مزید گھمبیر ہوچکا، اور فی الحال اس کا کوئی ٹھوس تدارک نظر نہیں آرہا.
اسلام کسی بھی بے گناہ پر حملوں کی اجازت نہیں دیتا، لیکن ہر فریق کے مسلح دہشت گرد گروہوں نے یہ تفریق ختم کردی ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے. عراق و شام میں داعش، حزب اللہ اور الحشد الشعبی بھی یہی کچھ کر رہے ہیں. اسلامی ممالک اگر پرخلوص ہوں تو اس کا سدباب مہنیوں کی بات ہے، ورنہ خون بہتا رہے گا اور ہم مذمتیں کرتے رہیں گے
تبصرہ لکھیے