پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خاں کی پروڈکشن سے قبل کی گئی آف دی ریکارڈ باتوں کےکئی وائرل ویڈیوز دیکھنے کا موقع ملا جس کے ذریعے ان کی کردار کشی کی کوشش کی گئی ہے۔ دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں ایسے لوگوں پر یقینا کارروائی ہونی چاہیے ۔ یہ اخلاقیات اور پروفیشن دونوں کے خلاف ہے۔
آج میں نے جب یہ کلپس دیکھی تو مجھے ای ٹی وی میں ملازمت کے دنوں کا ایک واقعہ یاد آگیا، اتفاق سے اس دن پروڈکشن کے لئے مجھے کہہ دیا گیا، جبکہ عموما ایڈیٹر کو یہ ذمہ داری نہیں دی جاتی، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہمارے ماس کام سینٹر کی اچھی بات یہ ہے کہ کریٹیو رائٹنگ سے لیکر کیمرا ، لائٹنگ، ایڈیٹنگ، ڈائریکشن طلبہ کو وہ ہر چیز ہی سکھاتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے فارغین مواد کی تیاری سے لے کرپروڈکشن اور اسے ریلیز کرنے تک سبھی کچھ ہنسی خوشی کر لیتے ہیں۔
بہرحال تو اس دن تاریک جتح (بدلا ہوا نام) کا انٹرویو تھا، انٹرویو بس ٹھیک ٹھاک رہا، اینکر نے تاریک جتح سے ایک دو چبھتے ہوئے سوال پوچھ لیے، جب تک کیمرا آن تھا اور انٹرویو چل رہا تھا تب تک تو تاریک جتح نے بڑے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ انٹرویو ختم ہوا تو اس نے پوچھا: "کمیرا وغیرہ آف ہوگیا؟"۔
کسی نے کہا: "جی سر ہو گیا۔۔۔ "
میں نے کیمرا مین کو ٹہوکہ دیا اور چپکے سے کان میں کہا: " کیمرا بند نہیں کرنا یہ کچھ حرامی پن کرے گا، بس ناٹک یہ کرو کہ کیمرا آف ہے لیکن کیمرا آن رکھنا ہے "۔
میرا اندیشہ بالکل درست نکلا، جیسے ہی "تاریک" کو یہ احساس ہوا کہ کیمرا آف ہے، اس نے اپنی اوقات دکھا دی اور وہ ماں بہن کی جتنی بھدی اور گندی گالیاں دے سکتا تھا، ہم سب کو دینے لگا۔ ایسی ایسی گندی گالیاں کہ آج تک نہ ہمارے کانوں نے ایسی گالیاں سنی تھیں، نہ تصور کیا تھا، یعنی جو شخص اسٹوڈیو میں بیٹھ کر دانشوری جھاڑ رہا تھا ، بالکل پاجامے سے باہر آچکا تھا۔
یقین جانیں اگر ہم اس دن اسے چلا دیتے یا محض وہ حصہ وائرل کر دیتے تو تاریک جتح کی ساری عزت خاک میں مل جاتی، حالانکہ وہ تو اب بھی وہیں ہے، میرا جی بہت چاہتا تھا کہ اتنا حصہ کاٹ کے وائرل کر دیا جائے، لیکن ہم نے اپنے پروفیشن کی مریادہ رکھتے ہوئے، اسے وہیں ڈیسک تک ہی محدود رکھا اور کہیں آگے تک جانے نہیں دیا۔ یہاں تک کہ ڈیسک میں بھی شاید ہی کسی دوسرے کلیگ کو ہم نے واقعہ بتایا ہو۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر بحیثیت صحافی آپ کو صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ ہر چیز خبر یا مواد ہی نہیں ہوتی، ہاں اس کی وجہ سے مفاد عامہ یا بڑے طبقہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو الگ بات ہے ۔ مگر کچھ صحافی راتوں رات شہرت حاصل کرنے کے چکر میں ایسی بہت سی اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں، کئی مرتبہ آف دی ریکارڈ کی گئی باتوں کو بھی افشا کر دیتے ہیں۔
یاد رکھیے اگر آپ نے کچھ باتیں آف دی ریکارڈ کی ہیں یا سامنے والے نے آپ پر بھروسہ کرکے کچھ چیزیں ساجھا کر دی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے آپ اس کو عام کرکے اس کی رسوائی کا سبب بنیں ، آپ کے اندر اتنی ہمت ہونی چاہئے کہ آپ اسے شائع نہ کریں۔ آپ کی اس حرکت سے آپ خود اپنے پروفیشن سے کھلواڑ تو کرتے ہی ہیں۔ سامنے والے کی نظروں سے بھی گر جاتے ہیں، پھر لوگ آپ کے ساتھ کبھی بھی تعاون نہیں کرتے ، وہ آپ سے خوف کھاتے ہیں اور آپ کی ساکھ بھی مجروح ہوتی ہے۔
روزنامہ صحافت میں کام کرنے کے دوران چونکہ زیادہ تر میں اقلیتی مسائل کو ہی دیکھتا تھا تو خصوصی طور پر ملی قائدین کے تعلق سے میرے پاس اتنا مواد موجود ہوتا تھا کہ میں جب چاہتا ان کے خلاف بہت کچھ لکھ سکتا تھا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا، بہت ساری معلومات تو خود چل کر آتی تھیں لیکن کسی کے ساتھ بے جا زیادتی کا کبھی خیال بھی نہیں آیا۔ ہاں انھیں یہ بتا ضرور دیتا تھا کہ میرے پاس یہ معلومات ہیں، لیکن میں یہ چھاپوں گا نہیں ، یہی وجہ ہے کہ صحافت سے باضابطہ تعلق نہ ہونے کے باوجود اب بھی مجھے ہر کوئی عزیز رکھتا ہے، اور بہت سے ضرورت مندوں کے چھوٹے موٹے کام ان سے نکلوا ہی لیتا ہوں۔ پیسے والے قائدین سے تو میں نے باضابطہ دھمکی دیکے کتنے ہی غریب طلباء کی فیس کا انتظام کروایا ہے۔ میرے بہت سے صحافی ساتھی اس کے گواہ ہیں۔
میں سمجھتا ہوں اگر آپ کی ذات سے کچھ ایسے چھوٹے موٹے کام ہوجایا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن سر عام کسی کو رسوا کرنا مناسب نہیں۔
تبصرہ لکھیے