میں ہمیشہ اس جگہ پر سوچتی تھی کہ وہ کیا ماحول ہوگا کہ عزیز مصر نے صاف صاف بیوی کو خطاکار دیکھ کر بھی بس اتنی بات پر اکتفا کیا کہ بیوی معافی مانگ لے اور یوسف علیہ السلام اس بات سے اعراض برتیں اور سب لوگ مٹی پاؤ فلسفے پر ہی عملدرآمد کریں- دوسری طرف بات باہر نکلتی ہے تو ایسی باتوں میں دلچسپی لیتی خواتین کا مؤقف بھی سامنے آتا ہے کہ["ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے"]
ایک بہت بڑی خطا جو عزیز مصر سے ہوئی ،اس طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا ،حتی کہ جس شخص نے قرینے کی گواہی دی وہ بھی یہ نہیں کہتا کہ بھائی عزیز مصر ،دیکھو ! نوجوان لڑکا کتنا ہی نیک سیرت اور ہونہار پاکباز تھا،اگر آپ کو بیٹا بنانا تھانا ! تو اپنی بیگم کے سر پر اتنی بڑی آزمائش کیونکر ڈال دی تھی؟
[ مصر کے جس شخص نے اسے (یوسفؑ کو)خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا "اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں"]21 سورہ یوسف -آگے کا قصہ تو سبھی کو پتہ ہے لیکن کتنے ہیں ہم میں سے جو سبق لیں ؟ حالانکہ یہ تو نہ جانے کتنی صدی پہلے کا قصہ ہے۔ یہی نہیں پردے کی آیات کے ساتھ ساتھ ،قران نے تو والدین کے کمرے میں سگی اولادوں تک کے جانے کے اصول وضع کر دیے ہیں ،کیا اسی پر عمل کر پاتے ہیں؟ -
رضاعت کے معاملات تک سمجھ کر نہیں دیتے کہ رضاعت واقع کب ہوتی ہے ؟ بچہ اگر گود لیا ہے تو اس کے ٹین ایج میں داخل ہونے پر کتنی احتیاط کرنی ہے۔ اگر ہم صرف اتنی سی بات پلو سے باندھ لیں کہ
جو سگا بھائی نہیں وہ بھائی نہیں -
جو سگا باپ نہیں وہ باپ نہیں -
جو سگی ماں نہیں وہ ماں نہیں -
اور اسی طرح بیٹا یا بیٹی بھی سگے نہیں تو بس نہیں۔
ایک عورت ،دوسرا مرد تیسرا شیطان - خواہ کمرہ ہو یا انٹرنیٹ سے منسلک کوئی ونڈو -
تو خالہ زاد بھائی ہو ،یا پھوپھو یا پڑوسن یا انکل کا بیٹا یا آنٹی کی بیٹی، ارے یہ تو بچپن کے دوست ہیں، ارے یہ تو عمر میں اتنے بڑے یا چھوٹے ہیں، ارے گروپ کی پالیسی ہے سب مل جل کر بات کرتے ہیں، ارے آجکل تو یہی ہوتا ہے ،ارے ہمارے دروازے تو ہمیشہ سے کھلے ہیں،والی سوچ سے نکل کر ہی بچت ممکن ہے ؛یہ تنگ نظری ہرگز نہیں بلکہ اس دور اندیشی کی ترغیب ہمارا دین ہمیں دیتا ہے - اسی دور اندیشی میں مزید دو باتیں یہ بھی ہیں کہ کہیں بھی دو لوگوں کو بات کرتے دیکھتے ہی ان پر شک اور الزام یا بہتان سے اپنا دامن بچایا جائے ؛جبکہ دو محبت کرنے والوں کا تعلق جان لینے پر کبوتر کی طرح آنکھ میچ لینے کے بجاۓ،فوری طور پر نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے - ابا کی ریٹائرمنٹ،اماں کی کمیٹی کے پیسوں کے انتظار میں پڑے بغیر اور رخنے اٹکاۓ بغیر کہ یہ سید نہیں ،وہ شیخ نہیں ،نوکری ڈھنگ کی نہیں،اب ان باتوں سےمعاملہ خراب کرنے یا طول دینے کا فائدہ نہیں،بلکہ نقصان ہی ہوگا -مزید یہ کہ لوگ کیا کہیں گے کا خوف کرنے کے بجاۓ اللہ تعالیٰ کیا کہتے ہیں ،کیا کر سکتے ہیں پر توجہ دینا ہی عاقبت اندیشی ہے کہ تقدیر کے خیر و شر پر رضا مندی بھی ایمان ہی کا حصہ ہے -
عین ممکن ہے کہ یہ شادی ناکام بھی ہو جاۓ ،مگر آخرت میں ناکامی سے تو یہی بہتر ہے نا ؟ اور کیا بہت سی "پرفیکٹ کپل " سمجھی جانے والی شادیاں ٹوٹتی نہیں؟ یا وہاں بعد میں بے وفائیاں اور دغابازی نہیں ہوتی؟
اتنے بے باک بے حیا ماحول میں کہ جہاں آئٹم نمبرز دیکھنا تک گناہ نہیں سمجھا جاتا، اس سے آگے کی خرافات بھی بہت عام ہیں،کوئی کتنا پاک دل اور پاک نظریں ،اور پاک دامن رکھ سکتا ہے بھلا ؟ اور غور طلب بات یہ کہ ایسے ماحول میں جائنٹ فیملی سسٹم میں کتنا زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کچھ گھر الگ منزلوں پر ہوتے ہیں خواہ رشتہ داروں کے ہوں یا محلے داروں کے، کچن میں "آزادانہ ماحول " میں کام کرتی خواتین کو احتیاط لازم پکڑنی چاہیے - اب تو بات صرف آنکھوں کی نہیں بلکہ تصویر اور ویڈیوز بھی فوری بنتی اور نشر ہو جاتی ہیں.
دنیا بن چکی ہے گلوبل ویلج ،اب کثرت سے لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ملکوں میں آتے جاتے ہیں. مہنگائی کے اس دور میں جب کپڑے کم سے کم اور بہت ہی چھوٹے ہوتے جارہے ہیں ؛دل کو اتنا بڑا کرنا دانشمندی ہرگز نہیں کہ غیر محرم تعلق داروں کو گھروں میں ٹھہرایا جائے ،البتہ مدد کرنا مقصود ہو تو اپنے پاس سے کسی ہوٹل موٹل یا ،کرائے پر رہائش کا انتظام کروایا جا سکتا ہے۔
بھائی بہن کے بچے یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آئیں یا نوکری کی تلاش میں ،ان کا اپنے گھر میں طویل قیام کا، فطری محبت میں تن تنہا فیصلہ کر لینا اور ازواج کا ایک دوسرے پر زور ڈالنا کہ اس سے کیا ہوتا ہے یہ انتہائی تشویشناک اور افسوسناک رویہ ہے۔ ایک ہی تو ہم کام کر سکتے ہیں ؛احتیاط،اگر یہ بھی نہ کر سکے تو کل کو پچھتاوے،چرچے اور بلیم گیم کے سوا کیا رہ جائے گا۔
تبصرہ لکھیے