ہوم << شیطان کی خصوصیات میں انسانوں کےلیے اسباق- نیر تاباں

شیطان کی خصوصیات میں انسانوں کےلیے اسباق- نیر تاباں

نعمان علی خان نے رمضان کے اردو لیکچرز میں سوال جواب کا خوبصورت سلسلہ اپنایا، اور سورۃ الاعراف سے آدم علیہ السلام کی تخلیق؛ اور اس پورے قصے میں شیطان کے کیریکٹر کو بڑے خاص انداز میں سمجھایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ شیطان کے کردار کو اچھی طرح سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ ان خصوصیات سے بچا جا سکے۔

سورة الاعراف کی آیت ۱۱ سے حوالہ لے کر بتاتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو مٹی سے تخلیق کیا، اسے بہترین طور پر بیلینس میں بنایا (یعنی صرف جسم ہی نہیں، روح، ذہن، جذبات۔۔۔) اور اس میں اپنی روح پھونکی۔ یعنی انسان کی تخلیق میں یہ تین چیزیں شامل ہیں۔
۱۔ مٹی سے تخلیق (یہاں تک وہ جانوروں جیسا ہی ہے۔ ہڈیاں، خون۔۔۔میڈیکل ساینس میں بھی انسانی سسٹم سمجھانےکے لئے جانور ڈائسیکٹ کیے جاتے ہیں۔)
۲۔ توازن (یعنی غصہ ہے تو صبر بھی دیا، اداسی ہے تو خوشی بھی۔ باقی بھی ہر اعتبار سے توازن، ذہنی، جسمانی، روحانی، جذباتی)
۳۔ روح

شیطان آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے۔ کہتا ہے یہ تو مٹی کا بنا ہوا ہے۔ حالانکہ اللہ نے انسان کو مٹی، توازن، روح ان تین کا مرکب بنایا۔ تو پتہ چلا کہ جب جیلسی ہو تو انسان ایک بات پکڑ کر دوسرے کو اس پر رگڑ دیتا ہے۔ اسکا کہنا تھا کہ مٹی کا بنا ہے، یعنی یہ تو جانوروں جیسی ہئ بات ہوئی۔ اصلی بات کو بیچ میں سے گول کر دیا۔ تو یہ شیطان کی خصوصیت ہے کہ کسی کی دشمنی میں اتنا بڑھنا کہ ایک بات پکڑ لینا، باقی اچھی اور اہم تر باتیں حذف کر دینا۔

جب اللہ نے بتایا کہ خلیفہ تخلیق کرنے والا ہوں۔ فرشتوں نے سوال اٹھایا۔ شیطان وہیں موجود تھا لیکن چپ کر کے بیٹھا رہا۔ تو یہ دوسری خصوصیت ہے کہ کوئی مسئلہ ذہن میں کھٹکے تو اندر ہی اندر چھپاتے رہو، اس کو سوچ سوچ کر رائی کا پہاڑ بناؤ، اور پھر جو الٹا سیدھا سوچا ہو، اس کے مطابق اگلے پر چڑھ دوڑو۔ شیطان نے کہا میں آگ کا ہوں اور یہ مٹی کا۔ اس بات یہ ایک طرف تو تکبر جھلکتا ہے، ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنا موازنہ کر رہا تھا۔ اپنے آپ کو دوسروں سے کمپیریزن میں ڈالنا سکھایا ہے شیطان نے۔ جب کہ ہر انسان کے پاس اس کے اپنے حساب سے جو مواقع ہوں گے اور جتنی اس نے محنت کی ہو گی، اس پر سوال ہے۔ موازنہ کسی کا کسی سے بنتا ہی نہیں۔ اس بات کو سوشل میڈیا کے تناظر میں بھی دیکھیے۔ بظاہر پرفیکٹ نظر آنے والے انسان اپنے خلا اور flaw سوشل میڈیا پر پوسٹ نہیں کرتے۔ اچھا کرتے ہیں۔ لیکن دیکھنے پڑھنے والوں کو لگتا ہے کہ دوسروں کی زندگی پرفیکٹ ہے، ایک ہم ہی مشکل میں پڑے ہوئے ہیں۔

یہاں ایک بات یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ شیطان نے کہا میں آگ سے بنا ہوا ہوں۔ یعنی کہیں نہ کہیں یہ مطلب کہ آپ نے ہی بنایا ہے آگ سے۔ یہ غصہ آپ نے ہی مجھ میں ڈالا ہے، تو پھر میں کیا کروں۔ تو جو جو لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں مجھے غصے پر کنٹرول نہیں، وہ اس بات کو سمجھیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اللہ نے انسان کو بیلینسڈ یعنی متوازن بنایا ہے۔ خود بھی اعتدال کا خیال رکھیے۔

شیطان کو جنوں سے پروموٹ کر کے فرشتوں کی صف میں بٹھا دیا گیا تھا۔ کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن اس سے دوسرے کی ترقی دیکھی نہ گئی۔ حالانکہ اس سے تو کچھ نہیں واپس لیا گیا۔ اس پر تو اس کی نعمتیں موجود تھیں۔ تو دوسرے کی ترقی دیکھ کر جلنے کڑھنے والا کام بھی شیطان کی صفت ہے۔

اچھا، اپنی غلطی پر اللہ پر الزام ڈالنے والا کام بھی کیا شیطان نے۔ تو غلطی قبول نہ کرنا، اکڑنا، اگر مگر اور اب تو یقین جانیے قرآن و حدیث سے حوالے تک نکال لائے جاتے ہیں اپنی غلط بات کو ثابت کرنے کے لئے۔ یہاں بھی احتیاط لازم ہے۔

شیطان نے آدم کو جنت سے نکلوانے کا کام کیا لیکن پھر بھی قیامت تک کی مہلت مانگی صراطِ مستقیم سے ابنِ آدم کو بھٹکانے کی۔ یعنی نقصان پہنچا کر بھی تسلی نہ ہوئی۔ یہ خصوصیت بھی شیطان کی ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانا، گرانا لیکن اس پر راضی نہ ہونا بلکہ مزید ہر ممکن طریقے پر ذلیل کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا۔

حسد کے بارے میں اس طرح سے دیکھیے کہ وہ اللہ کی عبادت تو کرتا تھا لیکن اللہ کی مخلوق سے بیر ڈال بیٹھا۔ یہاں عبادت گزار طبقہ خود کو غور سے دیکھے۔ شیطان اپنی عبادت کی وجہ سے جنوں سے اٹھا کر فرشتوں میں بھیج دیا گیا لیکن اللہ کی مخلوق سے حسد۔ اپنے آپ کو دیکھیے کہ روزے، تلاوت، نمازیں اپنی جگہ لیکن اللہ کی مخلوق سے ہمارے معاملات کیسے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment