دعا بندے اور رب کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو کسی ضابطے کا پابند نہیں ہے، نہ نماز کی طرح اس میں عربی زبان کا التزام ہے، الغرض بندے کی زبان کوئی بھی ہوحتیٰ کہ گونگا بھی ہو، وہ اپنے رب سے براہِ راست التجا کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دعا کی ترغیب بھی دی ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کی دعائیں بھی بیان فرمائی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ دعا کرناہمیشہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا شعار رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں سے دعا کی قبولیت کا وعدہ بھی فرمایا ہے ، ارشاد ہوا: ’’اور(اے رسولِ مکرم!)جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (بتادیجیے )میں یقینا قریب ہوں، دعا کرنے والا جب بھی مجھ سے دعا کرے ، میں اُسے قبول کرتا ہوں، پس اُنہیں چاہیے کہ میرے احکام کو مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ وہ ہدایت پائیں، (البقرہ: 186)‘‘۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بھلا وہ کون ہے جو پریشاں حال کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جب وہ اُس سے دعا کرے اور اس کی تکلیف کو دور فرماتا ہے ، (النمل:62)‘‘۔ بندگی اپنے رب کے حضور انتہائی عَجز، بے بسی اور انکسار کا نام ہے اور دعا اس کا بہت بڑا مَظہر ہے کہ انسان مصیبت میں صرف اُسی کو پکارتا ہے ، گویا یہ حقیقت اُس کے لاشعور میں ثبت ہے کہ اس کا کارساز اور چارہ ساز صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور تمہارے رب نے فرمایا: تم مجھ سے دعا کرو ، میں تمہاری دعا کو قبول فرمائوں گا، بے شک جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، وہ عنقریب ذلیل ورسوا ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے، (المومن:60)‘‘۔
مفسرینِ کرام نے اس آیت میں دعا سے نفسِ دعا ، اخلاص ولِلّٰہیت اور عبادت بھی مراد لی ہے اور اس کی تائید اسی آیت کے اگلے حصے سے ہوتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دعا اور عبادت لازم وملزوم ہیں، اس کی تائید اس حدیثِ پاک سے ہوتی ہے: ’’حضرت انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعا عبادت کا مغز ہے، (ترمذی:3371)‘‘۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں: مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں نبی ﷺ نے فرمایا: دعاعبادت ہی ہے، (سنن ترمذی:2969)‘‘۔ بعض اوقات دعا میں عبادت سے بھی بڑھ کر بندے کو حضوریِ قلب نصیب ہوتی ہے، کیونکہ وہ اپنے رب کو براہِ راست پکار رہاہوتا ہے اوربراہِ راست تخاطُب کالطف ہی کچھ اور ہوتا ہے،سو اگر اس کا انگ انگ اور رُواں رُواں مجسّم دعا بن جائے تو اس کی قبولیت یقینی ہے، اسی لیے حدیث پاک میں فرمایا: ’’تم اللہ سے اس حال میں دعا کرو کہ تمہیں اپنی دعا کی قبولیت کا پورا پورا یقین ہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور بے پروا دل کی دعا کو قبول نہیں فرماتا، (سنن ترمذی:3479)‘‘۔حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندے کی دعا اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور نہ دعا میں جلد بازی کرے ،عرض کیا گیا: یارسول اللہ! دعا میں جلد بازی کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: بندہ کہتا ہے:’’میں مانگتا رہا ، مانگتا رہا، لیکن لگتا نہیں کہ میری دعا قبول ہوگی، سو وہ ہمت ہارجاتا ہے اور دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے، (صحیح مسلم:2735)‘‘۔ نیز فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے بچو، کیونکہ اُس کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے ، (بخاری:2448)‘‘۔ دوسری حدیث میں فرمایا: ’’تین دعائیں (ہر حال میں )قبول ہوتی ہیں :والد کی دعا اولاد کے حق میں، مسافر کی دعا اورمظلوم کی دعا، (ترمذی:1905)‘‘۔
پس معلوم ہوا کہ جب تک آدمی مَن میں ڈوب کر دعا نہ کرے، مارے باندھے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ دعا مانگنا شعارِ نبوت ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ سے مختلف اوقات اور مختلف مواقع کے لیے دعائیں مذکور ہیں، حدیث پاک میں ہے: ’’ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے ہر نبی سے ایک دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا، سو ہر نبی نے جلدی سے دعا مانگ لی اور میں نے قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کی خاطراپنے لیے قبولیتِ دعا کے اس وعدۂ ربانی کو محفوظ کر رکھا ہے، پس جو کوئی میری امت میں سے شرک سے محفوظ رہ کر مرا ، تو اُس کو ان شاء اللہ یہ دعا(حسبِ مرتبہ وحسبِ حال) نصیب ہوگی،(صحیح مسلم:199)‘‘۔
یہ تمہیدی کلمات میں نے اس لیے لکھے ہیں کہ ہمارے دانشور وقتاً فوقتاً ہمیں باور کراتے رہتے ہیں کہ کائنات طبعی قوانین (Laws of Nature) کے تحت چل رہی ہے، اسی کوقدرت کا تکوینی نظام یا قانونِ فطرت بھی کہتے ہیں۔جنابِ سرسید احمد خاں ، جناب غلام احمد پرویز اور آج کل جنابِ یاسر پیر زادہ اسی فکر کے داعی اور مُبلِّغ ہیں۔یہ قدیم یونانی فلسفے کی جدید تعبیر ہے، وہ بھی کہتے تھے کہ عقلِ اول یعنی خالق ، کائنات کی تخلیق کر کے معاذ اللہ معطّل (Suspended)ہوگیا ہے، اب کائنات اپنے طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہے اورخالق کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
جنابِ سرسید احمد خاں نے رسول اللہ ﷺ کے جسمانی معراج کے معجزے کاردّ کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ اگر حدیث صحیح بھی ہو ،لیکن وہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے تو صحیح ہونے کے باوجود اُسے ردّ کردیا جائے گا اور یہ قرار دیا جائے گا کہ راوی کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ، ذیل میں ہم ان تینوں مفکرین کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ کوان کی وحدتِ فکر کا اندازہ ہوجائے. سرسید احمد خاں لکھتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ کا جسمانی طورپر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور عقلاً محال ہے ۔اگر معراج النبی ﷺ کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیاجائے ،تویہی کہاجائے گا کہ اُنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دیناکہ اللہ اِس پر قادر ہے ،یہ جاہلوں اور مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے ،یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں ،سچے مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتے ۔قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہے۔ایسی تمام دلیلوں کو اُنہوں نے راوی کے سَہواور خطا ، دوراَزکار تاویلات ،فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا ،(تفسیرالقرآن ، جلد2،ص: 122-123)‘‘۔یہ سرسید احمدخان کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے ۔الغرض سرسید معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں ،ہمیں وحیِ ربانی کے مقابل کھڑی ہونے والی عقل کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طعن قبول ہے ،کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی عشقِ مصطفی ﷺ کا تقاضا ہے۔سرسید احمد خاں صاحب توگویا قانونِ فطرت کو ’’فَاطِر‘‘یعنی خالق پر بھی حاکم سمجھتے ہیں کہ جس نے اس عالَمِ اسباب کو پیدا کیااور جو سبب اور مُسبَّب اور علّت ومعلول یعنی Cause & Effectکے تحت چل رہا ہے، خود خالق بھی معاذ اللہ !اس کے خلاف نہیں کرسکتا۔
سورۂ بقرہ آیت:186 اور سورۂ مومن آیت:60کا ترجمہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں، اس کے تحت غلام احمد پرویز لکھتے ہیں:’’اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے میں مجھے دشواری تھی ، کیونکہ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر ایک کی دعا مِن و عَن قبول ہو جائے ، لیکن تجربہ یہ بتاتا ہے کہ عملاً ایسانہیں ہوتا، اگر بعض کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں تو بہت سو ں کی رَد بھی ہو جاتی ہیں ،اس کی یہ تاویل کہ دعا کس صورت میں قبول ہو، اللہ تعالیٰ کی حکمت پر منحصر ہے ۔ اگر اس کی دعا بعینہٖ قبول نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کا مصیبت میں مبتلا رہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کے حق میں بہتر ہے اور یہ آیت بھی اس مفہوم کی تائید نہیں کرتی : ’’ بھلا وہ کون ہے جو مصیبت زدہ کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے ، (النمل : 62)‘‘۔یعنی اس آیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر مصیبت زدہ کی دعا قبول ہو او ر کسی پریشاں حال و درماندہ کی دعا رد نہ ہو، جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ ایک مفہوم میرے ذہن میں یہ آیا کہ زندگی کے کسی مشکل موڑ پر جب بندہ اپنی عقل سے فیصلہ نہ کر سکے تو رہنمائی کے لیے قرآن سے رجوع کرے ، لیکن پھر یہ آیت میرے سامنے آئی : ’’اور (اے مسلمانو !) تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے حالانکہ بعض کمزور مرد ، عورتیں اور بچے یہ دعاکررہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا اور اپنی طرف سے کوئی مدد گار بنا ، (النساء : 36)‘‘۔
اس آیت سے جناب غلام احمد پرویز کے ذہن میں ایک اور مفہوم آیا کہ اللہ تعالیٰ براہ ِ راست مظلوموں اور پریشاں حال لوگوں کی دادرسی اور نصرت نہیں فرما تا، بلکہ وہ اپنے بندوں کے ذریعے ان کی مدد کرتا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح آفاق یعنی اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں اس کا قانونِ فطرت کار فرما ہے ، اسی طرح انسانوں کی دنیا میں بھی اسی کی کارفرمائی ہے ۔ پھر انہوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دیا : (۱)’’وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے، پھر وہ کام اس کی طرف اس دن میں چڑھے گا جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال ہے ،(السجدہ:5)‘‘۔(۲)’’وہ عذاب اس دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، (المعارج:4)‘‘۔ لیکن جب اللہ کے بندوں کی کوئی جماعت میدانِ عمل میں آتی ہے تو جو انقلاب پچاس ہزار سال میں برپا ہونا ہے ، وہ چند دنوں میں برپا ہو جاتا ہے ۔غزوۂ بدر کے تناظر میں سورۂ انفال آیت 17 کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے یہ معنیٰ اخذ کیا کہ کمان رسول اللہ ﷺ کی تھی اور تیر اللہ تعالیٰ کے تھے اور یہ شعر لکھا :
تیر قضا ہر آئینہ در ترکَش ِ حق است
اما کشادِ آں زِ کمانِ محمد است
یعنی قضائے الٰہی کا تیر بہر حال حق کے ترکش سے نکلتا ہے ، لیکن اسے محمد رسول اللہ ﷺ کی کمان سے چلا یا جاتا ہے۔ کمان سے تیر چلایا جاتا ہے، جیسے آج کل راکٹ لانچر ہوتا ہے اور تَرکش، جو دراصل تیر کَش ہے ،اس آلے کو کہتے ہیں جس میں تیر رکھے جاتے ہیں ، ایک ایک تیر نکال کرکمان کے ذریعے چلایا جاتا ہے، اردو لغت میں اس کے لیے متبادل لفظ’’ تیردان‘‘ لکھاگیا ہے ۔
جنابِ غلام احمد پرویز علامہ اقبال کا یہ شعر نقل کرتے ہیں :
چوں فنا اندر رضائے حق شود
بندۂ مومن قضائے حق شود
ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کارآفریں ، کار کُشا ، کارساز
جنابِ یاسر پیر زادہ لکھتے ہیں:’’دراصل دنیاوی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، دنیا کے معاملات دنیا کے اصولوں پر چلتے ہیں ، یورپ نے اتحاد کے لیے کلیسائوں میں دعائیں مانگیں اور نہ اسرائیل نے عربوں کو شکست دینے کے لیے فقط دعائوں پر انحصار کیا، آج امریکا اس وجہ سے سپر پاور نہیں کہ وہاں پادری ہر اتوار کو چرچ میں جاکر امریکا کی سربلندی کے لیے دعائیں کرتے ہیں، بلکہ امریکا کی طاقت انہی اصولوں کو اپنانے کی وجہ سے ہے جو دنیا میں طاقت کے حصول کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔ یہ دنیا جن اصولوں کے تحت چلتی ہے ، اگر وہ مذہب کے تابع ہوتے تو کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوتی، کوئی بچہ اپاہج پیدا نہ ہوتا، کوئی شخص بھوکا نہ سوتا، کوئی بے گناہ جنگ میں نہ مارا جاتا، کسی کمزور کی عزت نیلام نہ ہوتی، کسی زلزلے میں دودھ پیتے بچے ہلاک نہ ہوتے، یہ دنیا طبعی اور غیر طبعی قوانین کا مجموعہ ہے، جب ہم بے بس ہوکر خدا سے دعا کرتے ہیں تو دراصل اس سے ان قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں ، جو ممکن نہیں ، کیونکہ اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو پھر سردرد کی گولی تو ایمان والوں پر اثر کرے گی مگر پستول کی گولی ایمان والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ دعائوں سے دنیاوی مسائل حل ہوسکتے ہیں، پیغمبروں کی فضیلت اور اُن کی دعا کی بات الگ ہے، جسے ہم گناہگار نہیں پاسکتے، جبکہ مذہب کا یہ موضوع ہی نہیں‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ کائنات کچھ آفاقی قوانین کے تحت چل رہی ہے، ان قوانین کے مجموعے کو ہم طبعی قوانین کہتے ہیں، آج سے ساڑھے تیرہ ارب سال پہلے جب یہ کائنات وجود میں آئی تو ساتھ ہی یہ طبعی قوانین بھی وجود میں آگئے، یہ قوانین کائنات میں یکساں انداز میں لاگو ہیں‘‘۔
ہمیں جنابِ یاسر پیر زادہ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا اور اس کے تکوینی نظام کے لیے قوانینِ فطرت بھی مقرر فرمائے ، لیکن کیا خالق کا اس کے بعد کائنات سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے، کیا خالق کی مشیت اب بھی کائنات میں کارفرما نہیں ہے یا معاذ اللہ! وہ معطّل ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ’’اور سورج مقررہ راستے پر چل رہا ہے، یہ بہت غالب، بے حد علم والے کا بنایا ہوا نظام ہے اور ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کی ہیں حتیٰ کہ وہ لوٹ کر کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے، نہ سورج کی مجال کہ وہ (چلتے چلتے )چاند کو پالے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور ہر ایک(سیارہ) اپنے اپنے مدار میں تیر رہاہے، (یٰس: 38-40)‘‘اورفرمایا: ’’سورج اور چاند ایک حساب سے چل رہے ہیں، (الرحمن:5)‘‘۔
جنابِ یاسر پیر زادہ نے عاجز مسلمانوں پر طنز فرمایا ہے کہ وہ دعا کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں، جبکہ قوانینِ فطرت میں دعا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ دعا کی تاثیر ہے، پھر انہوں نے قوموں کے عروج وزوال کے حوالے دیے اور آج کل مغربی قوتوں کو جو غلبہ حاصل ہے، وہ کسی دعا کے نتیجے میں نہیں ہے ، بلکہ ان کی اپنی محنت، صلاحیت ، اہلیت اور قابلیت کے نتیجے میں ہے،اس کا توڑ دعائوں سے نہیں ہوسکتا، کیونکہ قوانینِ فطرت اٹل ہیں۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ قوانینِ فطرت فاطِر پر حاکم نہیں ہیں کہ وہ قادرِ مطلق ہے، جب چاہے ان کو معطّل فرماسکتا ہے، ان سے ماورا اپنی قدرت ظاہر فرماتا ہے، جیسے آگ کا کام جلانا ہے، مگر جب اس کا حکم ہو ا تو وہی آگ ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی بن گئی تو اُس وقت قانونِ فطرت کی کارفرمائی کہاں گئی۔ پھر انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے خلطِ مبحث سے کام لیا اورمثالیں دیتے وقت قانونِ فطرت یا طبعی قانون اورتشریعی قوانین کو خلط ملط کردیا۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ قوموں کے عروج وزوال کا تعلق قوانینِ فطرت سے نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے تشریعی نظام سے ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ کسی استحقاق کے بغیر کلمہ پڑھنے والوں کو ساری ملتِ کفر پر غالب کردے گا، ایسا ہرگز نہیں ہے ،اُس نے غلبے کے لیے ’’مومنِ کامل ‘‘ہونے کی شرط رکھی ہے اور اس کا ایک جامع مفہوم ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’کتنے ہی چھوٹے گروہ ایسے ہیں جو اللہ کے اذن سے بڑے گروہوں پر غالب آگئے، (البقرہ:249)‘‘، جیساکہ آپ نے اسرائیل کی مثال دی ہے اورکسی حد تک طالبانِ افغانستان کی مثال بھی دی جاسکتی ہے کہ مادّی طاقت اورجدید اسلحے کی اہمیت مسلّم ہے ، لیکن عزیمت واستقامت اور قوتِ ایمانی بھی اپنا اثر دکھاتی ہے۔
جنابِ پیر زادہ صاحب !کس نے کہا ہے کہ دعا پر اکتفا کرو اور علم وعمل کے میدان میں اپنی اہلیت ثابت نہ کرو، ضرور کرو ، اس کے بغیر چارۂ کار نہیں ہے ، لیکن اس سے دعا کی نفی یا دعا کی بے وقعتی کیسے ثابت ہوگئی ، حدیث پاک میں ہے: ’’حضرت سعد نے عرض کی: یارسول اللہ! یہ بتائیے کہ ایک شخص اپنی قوم کی حمایت کرتا ہے اور دشمن کے حملے سے اپنے لوگوں کا دفاع کرتا ہے، کیا اس کا بھی اس مالِ غنیمت سے اتنا ہی حصہ ہوتا ہے، تو نبی ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے ! اے سعد کی ماں کے بیٹے! تمہاری جو مدد کی جاتی ہے اور تمہیں جو رزق دیا جاتا ہے، وہ صرف تمہارے ضعفاء کی وجہ سے دیا جاتا ہے، (مصنف عبدالرزاق:9752)‘‘۔
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص جو سمجھتے تھے کہ ان کے لیے فضیلت ہے، اس سے ان کی یہ مراد نہیں تھی کہ ان کا مرتبہ اور شرف دوسروں سے افضل ہے، بلکہ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ جو مسلمان( میدانِ جنگ میں)دوسرے مسلمانوں سے زیادہ بہادری کے جوہر دکھائیں اور زیادہ دادِ شَجاعت دیں، آیا ان کا حصہ کمزور مسلمانوں سے زیادہ ہوگا یا نہیں، تو نبی ﷺ نے اس کے جواب میں یہ فرمایا کہ کمزور مسلمانوں کی دعائوں کے سبب سے ہی تم کو فتوحات حاصل ہوتی ہیں، (فتح الباری،ج:4،ص:296)‘‘۔
اب اس کا کوئی گیج یا پیمانہ ہمارے پاس نہیں ہے کہ آپ کو یہ ثابت کرسکیں کہ کسی قومی مہم میں عاجز اور کمزور لوگوں کی دعائوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت شاملِ حال ہوگئی ۔ جس طرح دوائیں اور طبیب اسباب میں سے ہیں اور یہ اسباب کسی کے حق میں مؤثر ہوجاتے ہیں اور کسی کے حق میں نہیں ہوپاتے، کوئی اسپتال سے صحت مند ہوکر گھر جاتا ہے اور کسی کی میت تابوت میں جاتی ہے، اگر شفا بالذات دوا اور طبیب میں ہوتی تو سب کے سب صحت یاب ہوتے اور کوئی بھی موت سے ہمکنار نہ ہوتا، لیکن اس کے سبب نہ کسی نے علاج چھوڑا ہے اور نہ کوئی اس کا مشورہ دیتا ہے، اسی طرح دعائیں بھی اسباب میں سے ہیں اور جب اللہ کی مشیّت شاملِ حال ہوتی ہے تو دعا کا فیض بھی شامل ہوجاتا ہے۔ دعا اور دوا میں فرق یہ ہے کہ اگر دوا نے فائدہ نہ پہنچایا تو پیسے ضائع ہوئے ، لیکن دعا چونکہ بجائے خود ایک نیکی اور عبادت ہے، اس لیے وہ ضائع نہیں ہوتی، اس کا اجر کسی نہ کسی صورت میں دنیا یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جاتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، بشرطیکہ مومن کو اس کے وعدے پر یقین ہواور اگر کسی کے نزدیک اُس کی عقل ودانش ہی حتمی معیار ہے، تو ہم اس کے لیے ہدایت وخیر کی دعا کرسکتے ہیں ۔ پس مادّی اسباب کو اختیار کرنا شریعت کا حکم ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اور اُن (دشمنوں ) کے لیے جتنا تمہارے بس میں ہے،طاقت تیاررکھو اور (سرحدوں پر جنگ میں کام آنے والے)گھوڑوں کو باندھے رکھوتاکہ اللہ اور تمہارے دشمن پر تمہاری دھاک بیٹھی رہی، (الانفال:60)‘‘۔
آج کل گھوڑے جدید آلاتِ حرب سے استعارہ ہیں اور اس آیت میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہر وقت دشمن کے مقابلے میں ریڈ الرٹ اور ہائی الرٹ رہو، یعنی حملہ کرنے اور دشمن کے حملے کے دفاع کے لیے بالکل تیار حالت میں رہو، عہدِ رسالت مآب ﷺ میں ریاستیں اور ریاستی ادارے منظم نہیں تھے، لہٰذا جو بھی لڑنے کے قابل ہوتے تھے، انہیں اپنے گھوڑے، تلوار اور تیرکمانوں کے ساتھ ریڈ الرٹ رہنا پڑتا تھا کہ جب بھی اچانک بلاوا آئے تو وہ چل پڑیں، آج کل یہ ذمے داری مسلّح افواج پر ہے اور قوم کی ذمے داری ہے کہ جو مدد انہیں عوام سے درکار ہو، وہ دل وجان سے فراہم کریں اور اللہ سے اُن کی کامیابی اور سرخروئی کے لیے دعائیں کرتے رہیں، آپ دانشور لوگ ہیں، آپ کی سوچ بہت بلند ہے، ہم عاجز لوگوں کے پاس یہی چارۂ کار ہے، لیکن انسانوں پر قوانینِ فطرت حاکم نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے تشریعی قوانین حاکم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت میں نجات کا فیصلہ کسی کی صورت پر نہیں ہوگا، یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ وہ لنگڑا تھا، لُنجا تھا، بینائی سے محروم تھا یا کسی اور جسمانی ضُعف کا شکار تھا، یہ دیکھا جائے گا کہ اُس نے اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم کے احکام کی پابندی کی یا نہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے تشریعی قوانین کے معیار پر مسلمانوں کو پرکھیںاوراپنی یونیورسٹیوں کوعالمی معیار پرعلم وتحقیق کا مرکز بنائیں، یہ چھوڑیں کہ چرچ میں دعائیں ہوتی ہیں یا نہیں یا یہ کہ دعا ہو یا نہ ہو، گولی بہر حال نشانے پر جاتی ہے، لیکن حضور! کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نشانہ خطا ہوجاتا ہے اور کبھی دشمن کا آتشیں اسلحہ فضا میں پھٹ جاتا ہے،ہماری خبر لیتے رہیں، کوئی حرج نہیںہے۔
تبصرہ لکھیے