اس موضوع پر گزشتہ تحریرمیں یہ واضح کیا گیا تھا کہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی دینی فکرمیں جہاں اسلامی ریاست کے قیام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، وہاں معاصر تناظر میں زمینی حقائق کا بھرپور ادراک بھی موجود ہے اور انھوں نے بالکل ابتدا میں ہی ان سوالات کو گہری فکری سطح پر موضوع بنا لیا تھا جو جذباتیت، بے صبری اور غیرمعروضی زاویہ نظر سے ذہنوں میں پیدا ہو رہے تھے. ہم نے دیکھا کہ آگے چل کر بعینہ وہی سوالات ہمارے ہاں انھی فکری بنیادوں پر پیدا ہوئے جن کی واضح نفی مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں کی تھی اور خود جماعت اسلامی کے حلقہ فکر سے وابستہ نوجوان نسل اس انتہا پسندانہ فکر سے شدید طور پر متاثر ہوئی. اس کے اسباب و وجوہ ایک مستقل تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں، تاہم اتنا واضح ہے کہ مولانا کی پیش کردہ صریح اور واضح فکر حالات کے اتار چڑھاﺅ میں رفتہ رفتہ نظروں سے اوجھل ہوتی گئی اور شدت پسندی کے بیانیے نے وسیع پیمانے پر ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا.
ان سطور میں ہم چاہیں گے کہ مولانا کی دینی و اجتہادی بصیرت کے اسی نوعیت کے ایک اور پہلو کی طرف اہل فکر کو دوبارہ متوجہ کریں. ہمیں معلوم ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور عسکریت کے جس عفریت کا ہمیں سامنا ہے، اس کے اسباب میں سے اہم ترین سبب نجی سطح پر جہادی سرگرمیوں کی تنظیم ہے. پوری اسلامی روایت اس پر متفق رہی ہے کہ اگر مسلمان کسی جگہ ایک نظم اجتماعی کے تحت رہ رہے ہوں تو ان کی طرف سے کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کا فیصلہ ان کا نظم اجتماعی ہی کر سکتا ہے اور یہ کہ اگر مسلمان مختلف علاقوں میں ایک سے زیادہ نظام ہائے اجتماعی کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو ان میں سے ہر نظم اجتماعی اپنی ذمہ داریوں کا تعین اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھتا ہے. کسی نجی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نظم اجتماعی کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں لے اور قوم کی طرف سے فیصلے کا حق تفویض کیے جانے کے بغیر ازخود کوئی فیصلہ کر کے اس کے نتائج وعواقب کی ذمہ داری پوری قوم پر ڈال دے. مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں اس حوالے سے درج ذیل تین بنیادی نکات کی وضاحت کی ہے:
ایک یہ کہ مسلمانوں کا لازمی طور پر کسی ایک ہی نظم اجتماعی کے تحت سیاسی طور پر متحد ہونا ضروری نہیں اور سیاسی وحدت کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ الگ الگ اور خود مختار حکومتوں کے جواز کی نفی کی جائے.
دوسرے یہ کہ جنگ کا فیصلہ اور اعلان کرنے کا اختیار صرف اور صرف منتخب ارباب اقتدار کو حاصل ہے. غیر حکومتی گروہ اگر یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے تو اس سے چند در چند قانونی اور اخلاقی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی.
تیسرے یہ کہ مسلمانوں کی حکومت اس ضمن میں کسی بھی ملک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی لفظاً ومعنا پابندی کرے گی اور معاہدے بظاہر قائم رکھتے ہوئے ایسی خفیہ سرگرمیوں کی اجازت یا ان کی تائید نہیں کرے گی جو معاہدے کے خلاف ہوں.
پہلے نکتے کی وضاحت میں ’’خلافت وملوکیت’’ میں لکھتے ہیں:
”دنیا میں جہاں بھی ان اصولوں پر کوئی حکومت قائم ہوگی، وہ لازماً اسلامی حکومت ہی ہوگی، خواہ وہ افریقہ میں ہو یا امریکہ میں، یورپ میں ہو یا ایشیا میں اور اس کے چلانے والے خواہ گورے ہوں یا کالے یا زرد. اس نوعیت کی خالص اصولی ریاست کے لیے ایک عالمی ریاست بن جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اگر زمین کے مختلف حصوں میں بہت سی ریاستیں بھی اس نوعیت کی ہوں تو وہ سب کی سب یکساں اسلامی ریاستیں ہوں گی، کسی قوم پرستانہ کشمکش کے بجائے ان کے درمیان پورا پورا برادرانہ تعاون ممکن ہوگا اور کسی وقت بھی وہ متفق ہو کر اپنا ایک عالم گیر وفاق قائم کر سکیں گی۔“ (ص ۶۵)
یہ وہی تصور تھا جو دور جدید میں عالمی سطح پر امت مسلمہ کی سیاسی وحدت کو رو بہ عمل کرنے کے لیے علامہ محمد اقبال نے بھی ’خلافت‘ کے قدیم سیاسی نظام کے احیاء کے متبادل کے طور پر تجویز کیا تھا۔ چنانچہ خطبہ اجتہاد میں انھوں نے لکھا کہ:
For the present, every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A true and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truely manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members. (The Reconstruction, p. 126)
”موجودہ صورت حال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیے حتیٰ کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں. ایک سچی اور زندہ وحدت نیشنلسٹ مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے. اس کا سچا اظہار خود مختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا جن کی نسلی رقابتوں کو مشترک روحانی امنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو. مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت، بلکہ ایک مجلس اقوام ہے جومصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے، نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے.“
جہاد وقتال کے ضمن میں بین الاقوامی معاہدات کی پاس داری کی قانونی و عملی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے سورہ انفال کی آیات ۷۲، ۷۳ کی تشریح میں مولانا نےتفہیم القرآن میں جو کچھ لکھا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے۔ فرماتے ہیں:
”یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی بڑا اثر ڈالتی ہے. اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں. باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے. یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بریء من کل مسلم بین ظہرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو. اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا. اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو.'' (تفہیم القرآن ۲/۱۶۱، ۲۶۱)
اگرچہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پابندی کا اصول کلاسیکی فقہ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، تاہم فقہا اسے ایک محدود اور وقتی اصول کی حیثیت دیتے ہیں. مولانا کے اقتباس سے واضح ہے کہ وہ اسے بین الاقوامی سیاست اور مسلم و غیر مسلم حکومتوں کے تعلقات کی تشکیل کے ضمن میں ایک مستقل اور بنیادی اصول کا درجہ دیتے ہیں جس کی پاس داری مظلوم مسلمان اقلیتوں کی مدد کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے. دونوں زاویہ ہائے نگاہ کی ترجیحات کا فرق اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب ۱۹۴۸ءمیں کشمیر کے مقامی مسلمانوں نے بھارت کے خلاف جنگ آزادی کا آغاز کیا تو مولانا مودودی نے حکومت پاکستان کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ:
''جہاد کشمیرکے سلسلے میں میرے نزدیک یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ وہاں لڑائی بھی ہو اور نہ بھی ہو. یعنی ایک طرف ہماری حکومت تمام دنیا کے سامنے اعلان کرے کہ ہم لڑ نہیں رہے بلکہ لڑنے والوں کو روک رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لڑے بھی تو اس سے نہ صرف ہماری اخلاقی پوزیشن خراب ہوگی بلکہ ہم لڑ بھی نہیں سکیں گے. حکومت کا یہ موقف خود پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں بیان کیا تھا.'' (تصریحات ص ۴۷۰)
اس نکتے پر مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے مابین ایک اہم اور دلچسپ بحث بھی ہوئی کہ آیا پاکستانی حکومت مجاہدین کی عسکری اور افرادی امداد کر سکتی ہے یا نہیں. مولانا عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کا عملاً مجاہدین کو مدد فراہم کرنا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ وہ معاہدے کی پابند نہیں رہی، جبکہ مولانا مودودی کا استدلال یہ تھا کہ حکومت کا اس بات کا واضح اعلان اور اقرار نہ کرنا بلکہ ظاہری طور پر اس کی تردید کرنا اور پہلے کی طرح بھارتی حکومت سے سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم رکھنا اس امر کو تسلیم کرنے سے مانع ہے. تاہم بحث کے آخر میں مولانا مودودی نے یہ قرار دیا کہ چونکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے مجاہدین کشمیر کی امداد کے اعلانیہ اعتراف کے باوجود بھارتی حکومت نے اسے نبذ عہد کے مترادف نہیں سمجھا، اس لیے قانونی طور پر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ صرف کشمیر کی حد تک دونوں حکومتیں امن معاہدے کی پابند نہیں رہیں، جبکہ عمومی طور پر یہ معاہدہ برقرار ہے۔ (یہ مراسلت مولانا مودودی اور مولانا شبیر احمد عثمانی، ہر دو بزرگوں کے مجموعہ مکاتیب میں شامل ہے).
۱۹۷۹ءمیں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کی طرف سے افغان مسلمانوں پر ظلم وستم کے واقعات رونما ہوئے تو وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آیا پاکستان سے مسلمانوں کو افغان بھائیوں کی مدد کے لیے سرحد پار جانا چاہیے؟ مولانا نے فرمایا:
''کوئی شک نہیں کہ ہمارے افغان بھائی اس وقت نہ صرف صدی کے بہت بڑے جہاد میں مصروف ہیں، بلکہ جن مشکلات کا انھیں سامنا ہے، دوسروں کو ان کا اندازہ بھی نہیں ہوسکتا۔ لیکن جب تک کابل حکومت ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کرتی یا حکومت پاکستان اس سے تمام تعلقات توڑ کر اعلان جنگ نہیں کرتی، آپ پاکستانی شہریوں کو سرحد پار کر کے میدان جنگ میں نہیں اترنا چاہیے. یہ نہ صرف اسلامی قانون بین الاقوام کی نگاہ میں مناسب نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا. البتہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے آپ کے کارکنان جا سکتے ہیں، مگر زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ بھی اسی پالیسی کو اختیار کریں جسے حکومت پاکستان اور آپ کا نظم طے کرے. اگر حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو جائیں اور وہاں پر جہاد میں مصروف مجاہدین کی قیادت یہ چاہے کہ دوسرے مسلم ممالک سے انھیں افرادی قوت بھی درکار ہو، تب ایسے مسائل کا مرکزی سطح پر حل تلاش کیجیے، مگر یہ چیز انفرادی یا مقامات کی سطح پر نہیں ہونی چاہیے.'' (تصریحات ص ۴۵۷، ۴۵۸)
مولانا کی ان تمام تصریحات سے واضح ہے کہ ان کی نظر بصیرت معاملات کو کس قدر گہرائی سے اور کتنی دور تک دیکھ رہی تھی۔ تاہم وہ سوال یہاں پھر اٹھتا ہے کہ فکری قیادت کی سطح پر اتنے واضح اور دوٹوک انداز نظر کے ہوتے ہوئے وہ صورت حال کیسے پیدا ہو گئی جس کا اب ہمیں سامنا ہے. یقینا اس کے بہت سے عملی و واقعاتی اسباب بھی ہیں، لیکن اس کا فکری پہلو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. آئندہ کسی نشست میں ان شاءاللہ ہم اس پر بھی اپنی معروضات پیش کرنے کی کوشش کریں گے.
عمار صاحب، معلوم نہیں شدت پسندی کے تانے بانے زبردستی جماعت اسلامی کے ملانے کا مقصد کیا ہے۔ آپ یہ جانتے ہی ہیں جس مکتب فکر کے وابستگان خودکش حملوں اور دیگر دھشت گردانہ کارروائوں میں بالعموم ملوث پائے جاتے ہیں، ان کے حلقوں میں مولانا مودودی کی کتابوں کو گمراہ کن قرار دیا جاتا ہے، ان کے مدارس میں جماعتی اور اخوانی لٹیریچر پر تا ابد پابندی ہے۔ یہاں تک کہ جب افغانستان میں جب طالبان حکومت قائم ہوئی تب سرکاری طور پر مولانا مودودی کے لٹیریچر کو دیس نکالا کردیا گیا تھا۔ آپ کو اس حوالے سے بھی حقیقت کا اظہا رکرنا ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ ان اداروں میں مولانا مودودی کے افکار پر پابندی نہ لگائی گئی ہوتی تو دھشت گردی کو اس طرح سر اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔
فدا صاحب : ان حالات میں جماعت اسلامی اس مکتب فکر اور اس کے اقدامات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ان کا دفاع کرنے کے لیے سب سے بڑھ کر کیوں بے تابی کا مسلسل زبانی اور عملی اظہار کرتی آر رہی ہے؟؟ وہ جماعت کو غلط بھی سمجھتے ہوں تو جماعت ان کو صحیح سمجھتی ہے ؟؟ وجہ،،؟ میں عرض کرتا ہوں کیوں کہ جماعت کو ان کے کام بالکل مولانا مودودی کے افکار کے بمطابق نظر آتے ہیں ، جبکہ وہ طبقہ یعنی طالبان وغیرہ اپنے بغض اور لا علمی دونوں کی بنا پر اپنے کاموں کا کریڈٹ مولانا مودودی کے افکار کو نہیں دینا چاہتے حالانکہ وہ مودودی صاحب کے افکار کی روح پر ہی عمل پیرا ہیں