یہ ایک نہایت افسوسناک واقعہ ہے۔ اس کی مذمت بھی ضروری ہے، اس کے مرتکبین، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کے خلاف، نیز جامعہ کے اندر و باہر سیکیورٹی کے ذمہ داران کی لا پروائی اور غفلت پر سخت ترین کارروائی لازمی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ حملے کا شکار بننے والے ملکی و غیر ملکی افراد کی جان کے ضیاع اور دیگر نقصان کی تلافی کےلیے شریعت و قانون کے مطابق ذمہ داری فوری طور پر ادا کی جائے۔
جہاں تک ایسے حملوں کے اسباب کا تعلق ہے، وہ سب کو معلوم ہیں۔ پاکستان میں ہی نہیں، دنیا میں ہر جگہ، ایسے حملوں کےلیے ایک ہی نوعیت کا جواز گھڑا جاتا ہے۔ مسلم دنیا میں بھی، غیر مسلموں کے ہاں بھی۔ دینی استدلال اور لادینی استدلال اس معاملے میں تقریباً یکساں ہے۔ میں اپنے مقالات اور کتب میں تفصیل سے اس استدلال کو رد کرچکا ہوں۔ وہ سب کچھ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ فیس بک پر میری وال پر بھی خود کش حملوں کی شرعی و قانونی حیثیت پر میری کچھ تحریریں مل جائیں گی۔ آداب القتال پر نئی کتاب میں مزید تفصیل دی گئی ہے۔ میرے نزدیک شریعت کسی بھی صورت میں خود کش حملے کی اجازت بالکل بھی نہیں دیتی۔
میرے لیے یہ امر حیران کن بھی اور خطرناک بھی کہ دہشت گردی کے ایک طویل اور تکلیف دہ مرحلے سے گزرنے کے بعد پاکستانیوں کا رویہ عموماً خود کش حملوں کے خلاف ہوگیا تھا اور جہاں کہیں خود کش حملہ ہوتا تھا، تو سوشل میڈیا پر عموماً اس کے خلاف باتیں ملتی تھیں، لیکن بہت عرصے بعد مجھے سوشل میڈیا پر اس طرح کی مذمتی سیریز نظر نہیں آرہی جس طرح ماضیِ قریب میں نظر آتی تھی۔ اس کے برعکس میں نے دیکھا کہ کئی لوگ خود کش حملہ آور کی تصویرں شیئر کررہے ہیں، اس کی ڈگریوں کا ذکر کررہے ہیں، اس کے بچوں کی بات کررہے ہیں اور ہاں، بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کیے جانے اور دیگر اس نوعیت کے مظالم کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ کہ خاتون اعلی تعلیم یافتہ تھی؟ کسی نو عمر لڑکے کی جانب سے خود کش حملے پر ایسا رد عمل کیوں نہیں ہوتا؟ کیا جنس، عمر یا تعلیم کی وجہ سے خود کش حملے کے جواز یا عدم جواز پر کچھ اثر پڑتا ہے؟ یا اس کی وجہ ہمارا اجتماعی احساسِ جرم ہے کہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کےلیے ہم کچھ نہیں کررہے؟ یا کچھ اور؟
وجہ کچھ بھی ہو، یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے۔ ایک دفعہ پھر ہم اچھے دہشت گردوں اور برے دہشت گردوں، یا اچھے خود کش اور برے خود کش، کی تقسیم میں پھنسنے جارہے ہیں۔ اچھی طرح نوٹ کیجیے کہ ہر خود کش حملہ آور، ہر دوسری قسم کے دہشت گرد کی طرح، اپنے فعل کے جواز کےلیے مظالم کی ایک فہرست رکھتا ہے۔ اس لیے ایک دفعہ اس پھسلن والی ڈھلوان پر قدم رکھنے کی حماقت کی تو پھر تحت الثری تک پھسلتے ہی جائیں گے۔
کیا وجہ ہے کہ ہزاروں جانوں کی قربانیاں دینے کے بعد آج بھی ایک عام شہری کو ہمدردی خود کش حملہ آور سے ہے، نہ کہ اس کا نشانہ بننے والے بے گناہ لوگوں سے؟ یہ لمحۂ فکریہ ہے ہمارے (بظاہر اور حقیقی دونوں طرح کے) حکمرانوں، پالیسی ساز اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سب سے بڑھ کر عدلیہ کےلیے۔ کیوں ہمارا پورا نظام لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے میں ناکام رہا ہے؟ کیوں ہم لاپتہ افراد کے بارے میں اپنی قوم کو پوری سچائی سے آگاہ نہیں کرسکتے؟ کیونکہ لاپتہ افراد کے متعلق ریاستی بیانیہ عوام کی نظر میں ناقابلِ قبول ہے؟
ان سوالات پر غور ضروری ہے۔ اپنی روح کے اندر جھانک کر ان کا جواب حاصل کرنے کی کوشش بھی لازم ہے۔ بلوچستان اور ہر جگہ کے مظلوموں کے دکھ کا مداوا بھی فرض ہے۔ لیکن یہ حقیقت بہرحال نہ بھولیے کہ ایک غلطی دوسری غلطی کو جواز نہیں دے سکتی۔ خود کش حملے ہر صورت میں ناجائز ہیں اور مظلوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کا بدلہ کسی اور پر ظلم ڈھا کر نہیں لیا جاسکتا۔
تبصرہ لکھیے