نماز عشاء اور تراویح سے فارغ ہوکر میں گھر کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں ایک خاتون کو کھڑا دیکھ کر ٹھٹھکا .
" پھوپھا! میں بڑی دیر سے آپ کا انتظار کررہی تھی. قرآن کا ایک مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے. آپ سے سمجھنا چاہ رہی ہوں."
یہ شائستہ تھی ، میرے رفیق محترم جناب حسنین صاحب کی بیٹی.
میں نے کہا : " آئیے ، گھر چلتے ہیں، وہاں بیٹھ کر باتیں کریں گے."
شائستہ نے کہا : " قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو حاصل ہونے والی نعمتوں کا ہی تذکرہ کیوں کیا ہے؟ عورتوں کو حاصل ہونے والی نعمتوں کا تذکرہ کیوں نہیں کیا ہے؟ مردوں کے لیے بیویوں کا تذکرہ کیوں کیا ہے؟ عورتوں کے لیے شوہروں کا تذکرہ کیوں نہیں کیا ہے؟"
میں نے کہا : " ایسا تو نہیں ہے. قرآن نے جن نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ مردوں اور عورتوں ، دونوں کو حاصل ہوں گی."
شائستہ نے فوراً کہا : " سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُؕ ڪُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡهَا مِنۡ ثَمَرَةٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا هٰذَا الَّذِىۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَاُتُوۡا بِهٖ مُتَشَابِهًا ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۙ وَّهُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ (آیت :25)
" اور آپ خوش خبری سنا دیں ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کیے ، کہ بے شک ان کے لیے باغات ہیں ، جن کے سامنے نہریں بہتی ہیں ۔ جب بھی وہ ان بہشتوں میں پھلوں سے روزی دیے جائیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے روزی دی گئی اور وہ اس میں دیے جائیں گے ، ایک دوسرے کے مشابہ پھل اور ان کے لیے ان بہشتوں میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے."( ترجمہ مولانا مودودی)
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ایمان لانے اور اچھے اعمال کرنے والے مردوں کو جنت میں پاکیزہ بیویاں ملیں گی _ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ایمان لانے والی اور نیک اعمال کرنے والی عورتوں کو پاکیزہ شوہر ملیں گے _ ایسا کیوں ہے؟
میں نے کہا : " نہیں ، ایسا نہیں ہے .'ازواج' عربی زبان میں 'زوج' کی جمع ہے .اس کے معنیٰ ہے 'جوڑا'. مرد کے لیے عورت جوڑا ہے ، عورت کے لیے مرد جوڑا ہے. اس آیت میں مومن مردوں اور مومن عورتوں ، دونوں سے خطاب ہے. انھیں خوش خبری دی گئی ہے کہ مومن مردوں کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور مومن عورتوں کو پاکیزہ شوہر ملیں گے."
شائستہ نے پلٹ کر کہا : " پھر قرآن مجید کے اردو مترجمین نے 'ازواج' کا ترجمہ 'بیویاں' کیوں کیا ہے؟"
میں نے جواب دیا : " ممکن ہے ، کچھ مترجمین نے ایسا کیا ہو ، لیکن قوی امید ہے کہ بعض مترجمین نے 'ازواج' کا ترجمہ 'جوڑے' ضرور کیا ہوگا ."
" نہیں ، ایسا نہیں ہے. میں نے تقریباً 10 اردو ترجمے دیکھے ہیں ، سب نے 'ازواج' کا ترجمہ 'بیویاں' ہی کیا ہے." شائستہ کی اس بات نے مجھے متحیّر اور متفکّر کر دیا .
میں نے کہا " آئیے ، دیکھتے ہیں." میں نے تقریباً دو درجن ترجمے دیکھے. ان سب میں 'ازواج' کا ترجمہ 'بیویاں' ہی کیا گیا ہے. چند مشہور مترجمین اور ان کے ترجموں کے نام یہ ہیں : مولانا سید ابو الاعلی مودودی (تفہیم القرآن) ، مولانا امین احسن اصلاحی (تدبر قرآن) ، مولانا اشرف علی تھانوی (بیان القرآن)، ڈاکٹر اسرار احمد (بیان القرآن)، مولانا تقی عثمانی (آسان قرآن)، مفتی محمد شفیع ( معارف القرآن)، مولانا صلاح الدین یوسف (احسن البیان) ، مولانا عبد الماجد دریابادی (تفسیر ماجدی)، مولانا ڈاکٹر محمد اسلم (روح القرآن)، مولانا عبد الرحمٰن کیلانی (تیسیر القرآن)، شیخ الہند مولانا محمود حسن (ترجمہ قرآن)، مولانا محمد ادریس کاندھلوی (معارف القرآن)، مولانا محمد لقمان سلفی (تیسیر الرحمٰن). صرف مولانا غلام رسول سعیدی (تبیان القرآن) نے یہ ترجمہ کیا ہے: " اور ان کے لیے پاکیزہ ازواج ہوں گی." لیکن لفظ 'گی' نے 'ازواج' کو عورتوں کے معنیٰ میں کردیا ہے _
میں نے عاجز ہوکر کہا : " اردو مترجمینِ قرآن نے لفظ 'ازواج' کا ترجمہ درست نہیں کیا ہے. اس کا ترجمہ 'جوڑے' ہونا چاہیے ، تاکہ اس میں مرد ، عورت دونوں شامل ہوں. "
شائستہ چلی گئی تو میں نے سوچا کہ اردو ترجموں سے آگے بڑھ کر تفسیروں کو بھی دیکھ لینا چاہیے. معلوم ہوا کہ زیادہ تر مفسرین نے اپنی تفسیروں میں بھی 'ازواج' سے' بیویاں' ہی مراد لیا ہے ، البتہ چند تفسیروں کو دیکھ کر تھوڑی تسلّی ہوئی. مولانا مودودی نے لکھا ہے: " عربی متن میں 'ازواج' کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنیٰ ہیں ”جوڑے“۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ شوہر کے لیے بیوی ”زوج“ ہے اور بیوی کے لیے شوہر ”زوج“۔ مگر وہاں یہ ازواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے۔ اگر دنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے ، تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دوسری نیک بیوی دے دی جائے گی۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد ، تو وہاں وہ اس برے شوہر کی صحبت سے خلاصی پاجائے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنادیا جائے گا۔ اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں ، تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہوجائے گا۔"
اور مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے : " أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ : زوج کے معنی جوڑے کے ہیں ، عورت کے لئے مرد جوڑا ہے اور مرد کے لئے عورت."
اس سے زیادہ تفصیل سے ایک جدید مفسر ڈاکٹر محمد اسلم نے لکھا ہے : " یہاں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں میں بطور خاص 'ازواج مطھرۃ' کا ذکر فرمایا ہے، جس کا ترجمہ عام طور پر ”پاکیزہ بیویاں“ کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ازواج ، زوج کی جمع ہے۔ اس کا اطلاق شوہر پر بھی ہوتا ہے اور بیوی پر بھی ، کیوں کہ زوج کا معنی ہے ”جوڑا“ اور دونوں ایک دوسرے کے لیے جوڑا ہیں ۔ مطہرہ مؤنث ہونے کی وجہ سے یہ گمان کیا گیا ہے کہ یہاں بیویوں کی صفت کے طور پر آیا ہے ۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ مؤنث جمع کی صفت کے طور پر بھی آتا ہے ، چاہے وہ جمع مذکر ہو یا مؤنث ۔ اس لیے اگر 'ازواج مطہرہ' سے شوہر اور بیوی دونوں مراد لیے جائیں تو الفاظ میں اس کی گنجائش ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جنت میں اللہ تعالیٰ اہلِ جنت کو جو بیش بہا نعمتیں عطا فرمائیں گے ان میں ایک بہت بڑی نعمت یہ بھی ہوگی کہ مرد اور عورت دونوں کو ایسے جوڑے دیے جائیں گے (یعنی مرد کو بیوی اور عورت کو شوہر) جو مطہّر ہوں گے۔ مطہّر کا مطلب یہ ہے کہ جن کی فکری اور عملی تطہیر ہوچکی ہوگی ، جنھیں تربیت سے یا من جانب اللہ اس طرح شائستہ بنادیا ہوگا کہ نہ ان کی فکر میں کجی ہوگی نہ عمل میں خرابی اور نہ مزاج میں ناہمواری ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سرتاپا ہم دردی اور خیر خواہی ہوں گے ۔ ان کے مزاج اور ان کی فکر میں اس قدر ہم آہنگی ہوگی کہ سوچ سے لے کر عمل تک کہیں اختلاف جنم نہیں لے گا ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے مسرت اور خوشی کا باعث ہوں گے۔ مزید فرمایا کہ جنت میں یہ قیام اور یہ نعمتوں کی فراوانی اور یہ میاں بیوی کی ہم آہنگی سے جو مسرتوں سے بھرپور ماحول میسر آئے گا اس ماحول سے اہلِ جنت کو کبھی نکلنے کا حکم نہیں دیا جائے گا وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے نہ انھیں کبھی موت آئے گی نہ ان نعمتوں کو کبھی زوال ہوگا۔" (تفسیر روح القرآن)
پھر خیال آیا کہ لگے ہاتھوں عربی تفسیریں بھی دیکھ لی جائیں. چنانچہ تقریباً دو درجن عربی تفسیریں بھی دیکھ ڈالیں ، بیش تر مفسرین نے ایسی تشریح کی ہے، جس سے 'عورتوں' والا مفہوم ہی واضح ہوتا ہے. البتہ قرطبی (الجامع لاحکام القرآن) ، ابو السعود (ارشاد السلیم)، ابن عطیہ (المحرر الوجیز) اور ابن عاشور (التحریر و التنویر) نے لکھا ہے کہ لفظ 'ازواج' کا اطلاق مردوں اور عورتوں دونوں پر ہوتا ہے.
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا مذکورہ خاتون کی شکایت بجا ہے؟ یا مترجمین و مفسرینِ قرآن کا ترجمہ و تشریح درست ہے اور خاتون نے بےجا اشکال اٹھایا ہے؟ اصحابِ علم رہ نمائی فرمائیں. ان کا پیشگی شکریہ.
تبصرہ لکھیے