ہوم << رمضان اور رواداری - صبا احمد

رمضان اور رواداری - صبا احمد

رمضان مہمان صیام اور قیام کا مہینہ ہے. جہاں ہم سے یہ تقوی کا تقا ضہ کرتا ہے وہی گناہوں سے معافی کی خوشخبری بھی لاتا ہے. جسم وجان کی مال کی زکوۃ کا بھی تقاضا کرتا ہے. تاکہ اپنے غریب اور ضرورت مند اور سفید پوش بہن بھائیوں کی دلجوئی ھوسکے.

یہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے مال کو پاکیزہ یعنی صاف کرنے کا اور آپ کے مال میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے . راشن اور دوسری ضروریات زندگی سے مدد سارا سال ہی کرتے رہنا جاہیے مگر ماہ رمضان رواداری عدل وانصاف انکساری کا مہینہ ہے. جہاں یہ اللہ کا اور نزول قرآن کا مہینہ ہے وہی یہ تربیت بھی کرتا ہےکے انسانیت اور اخلاقیات انسانی زندگی کی معراچ ہیں. حقوق اللہ اور حقوق العباد کتنے اعلی مقام پر ہیں. معافی گناہوں کو جلانے اور نیکیوں کا موسم بہار ہے. اپنے رشتے داروں اور غریبوں کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے اللہ کی خوشنودی حاصل کر.نے کے لیے. خریجہ بیگم سوچ رہی تھی راشن کے ساتھ کپڑے بھی بجھوادونگی اس دن رقیہ آپا کی وفات پر سکینہ خالہ کا سوٹ بہت پرانا لگ رہا تھا ان کے لیے دو نئے جوڑے بجھوا دوں. مگر بچے ہی ھاتھ نہیں لگ رہے کے کوئی میرے ساتھ بازار چلے.

آمنہ آج گھر پر ہے اسی سے کہتی ہوں. 'آمنہ جلدی سے تیار ھو جاؤ اتنے دنوں سے آپ کےامتحان سے فارغ ھونے کےانتظار میں شعبان تقریبا' بورا ہی گزر گیا. مارکیٹ سے کپڑے لینے تھے اور جن کو رمضان میں سلوانے ہوتے ہیں. ابھی دیں گے تو عید تک سلیں گے". خدیجہ بیگم نے کہا'امی عام مارکیٹ سے خرید لیں. مگر آپ تو مانتی نہیں. ابھی برینڈ ز کی سیل میں ھم اپنے لیے خرید لیتے وہ مہنگے بھی ہوتے ہیں .ماسی کے لیے لوکل مارکیٹ سے لے لیتے ہیں. ان کو کونسا فیشن کا پتا ہے." اخدیجہ یگم نے کہا اب وہ بھی کہتی ہیں باجی سارا سال ھم آپ کی خدمت کرتے ہیں. عید کا اچھا سا سوٹ دیں سستا جوڑا پہٹ بھی جلدی پھٹ جاتا ہے.

اور رنگ بھی کچا ہوتا ہے. ایک ہی دھو میں خراب ھو جا تا ہے.ھمیں بھی اپنے جیسے کپڑے دیں... اور جلدی دیں. رمضان کے آخر میں ھماری بھی درزن نہیں سیتی."آمنہ نے کہا ان کو چھوڑیں ھم ابھی خرید لیں گے تو ایک ماہ کیا پندرہ دنوں میں ڈیزائن بھی پرانا ہو جاتا ہے. پھر یونیورسٹی سب عجیب سی سوالیہ نظروں سے لڑکیاں دیکھتی ہیں. عید پر نیو ارائیول اور اپنے نئے ڈیزائن پر اتراتی ہیں" آمنہ نے منہ بھولاتے ھوئے کہااور ھم اور ماسی ایک سے کپڑے پہنے عید کے دن گھر میں گھوم رہے ھونگے کالج و اسکول نہیں لگے گا . "اتنے میں فون کی گھنٹی بجی آمنہ. نے اٹھایا تو درزن آنٹی کا تھا آمنہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا سب درزی سے سلواتے ہیں امی کو درزن سے سلوانا ھوتا ہے ".اور امی کو کہا کہ رابعہ آنٹی درزن کا فون آیا ہے. "

خدیجہ بیگم نے خوش ھو کر فون تھاما اور بات کرنے کے بعد فکر مند سی لگی.آمنہ ے پوچھا" کیا کہ رہی ہے کہ دس رمضان کے بعد میں کپڑے نہیں لونگی. رمضان کی عبادت بھی کرنی ہے اللہ سے گناہوں کی معافی مانگنے کا سنہری موقع کیوں گنوآئے! .رمضان ملا ہے مقدروں سے پھر ملے نہ ملے. اپ ان کوھی دیں گی کپڑے سلائی کے لیے . آمنہ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا"امی میں بس برینڈ سے لونگی. اور دینے دلانے والے کپڑے آپ خود بازار سے جا کر لےلیں نہیں تو عائشہ اس کی چھوٹی ہہن اس کوساتھ لے کر جائیں اور میرے جیسا سوٹ کسی اور کو مت لے کر دیں عید کے دن سارا گھر یونیفارم پہنے لگے گا ھم بھی اور ماسی بھی". امی.نے خفگی سے کہا بری بات حدیٹ ہے کہ" جو اپنےلے پسند کرو وہ ہی اپنے بھائی کے لیے بھی نبی کا فرمان ہے.

اور اللہ کا حکم" سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں. "تم نے پڑھا نہی سنا بھی. نہیں تو ھم اس سے منہ کیسے موڑ سکتےہیں حکم عدولی کر سکتے ہیں. نبی کریم صہ جو خود کھاتے پہنتے وہ اپنے غلام حارث رضہ عنہا اور زید رضہ عنہا دیتے " اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے . افطاری بھی اپنے ساتھ کروائیں نہیں تو پہلے ان کو الگ سے نکال کر دیں. آمنہ شرمندہ ہوئی اور خاموش ھو گئی.

اور درزی کو سائز دینا حیا کے منافی ہے ہم نامحرم کو اپنے اعضاء کو کیوں چھونے دیں. دوسار وہ بیوہ ہے اپنے خاندان کی کفالت کرنے کا واحد ذریعہ یہ کپڑوں کی سلائی ہے. بہت خودار ہیں کسی سے مدد نہیں مانگتی تو میں اس طرح سلائی سے ان کی مدد کرتی ہوں. آپ یونیورسٹی کیا گئی اپنے دین کی تعلیمات بھول گئی. آمنہ خاموش ھوگئی." اس کے بعد دونوں بازار کے لیے نکل پڑیں .