اسلام دینِ فطرت ہے،اسلامی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ کاروبار فطری انداز سے جاری رہے، طلب اور رَسَدمیںتوازن رہے۔ لہٰذا اگر مارکیٹ میں غلہ وافر مقدار میں موجود ہے تو خرید کر اسٹاک کرنا منع نہیں ہے ، کیونکہ تجارتی منصوبہ بندی اسی طریقے سے ہوتی ہے ۔
لیکن اگر کبھی ایسے حالات پیداہوجائیں کہ اشیائے صرف میں سے کسی چیز کی پیداوار ملکی ضرورت سے کم ہو یا قومی اور بین الاقوامی طور پر طلب کے مقابلے میں رَسَد کم ہوگئی ہے ،تو ایسے حالات میں کوئی سرمایہ دار یا کاروبار ی شخص مارکیٹ سے اُس مال کو خرید کر ذخیرہ کرلیتا ہے یا یہ مال پہلے سے اُس کے گوداموں میں موجود ہے، لیکن شدید طلب کے باوجودوہ اِسے روکے رکھتا ہے اور مارکیٹ میں سپلائی نہیں کرتا کہ طلب بڑھے اور لوگ مجبور اً بنیادی ضرورت کی اشیاء کاروبار کے فطری اصول کے خلاف انتہائی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوجائیں ،تو یہ احتکار(Hoarding) ہے ،ذخیرہ اندوزی ہے اوریہ کام وہی لوگ کرتے ہیں، جو شقی القلب ہوں ، سنگ دل ہوں، استحصالی مزاج رکھتے ہوں اور لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنی تجوریاں بھررہے ہوں،لہٰذایہ عمل اور یہ طرزِ فکر غیر اسلامی اورغیر انسانی ہے،اسی لیے ذخیرہ اندوز کو حدیث پاک میں خطاکار اور ملعون فرمایا گیا ہے اور اس کے لیے بڑی وعید آئی ہے،احادیثِ مبارکہ میں ہے:
(۱)’’ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ذخیرہ اندوزی صرف گنہگار شخص کرتا ہے،( مسلم :4120)‘‘۔(۲)امام ترمذی فرماتے ہیں:’’اہلِ علم کے نزدیک عمل اس پر ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی مکروہ ہے اور بعض علماء نے غیر طعام میں ذخیرہ اندوزی کی رخصت دی ہے اور عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں:کپاس اور بکری کی کھال اور اِس کی مثل دوسری چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں حرج نہیں ہے ،(ترمذی:1268)‘‘۔(۳)’’ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے ،(سُنن ابن ماجہ:2153)‘‘۔(۴)’’ آپ ﷺنے فرمایا:جس شخص نے مسلمانوں پر ذخیرہ اندوزی کی اللہ تعالیٰ اُس پر جذام (کوڑھ )اور افلاس کو مسلّط فرمادے گا ، ( ابن ماجہ:2155)‘‘۔
بعض لوگ اس طرح کی احادیث سن کر طنز کرتے ہیں کہ ذخیرہ اندوز اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے خوش وخرم رہتے ہیں، انہیں تو کچھ نہیں ہوتا، ان کی خدمت میں عرض ہے :’’یہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے کہ کسی کو اس دنیا میں سزادے یا اس کو ڈھیل دے اور مہلت کی رسی دراز کرے، نیز یہ کہ آپ نے ایسے کئی اشخاص دیکھے ہوں گے کہ دنیا کی ساری نعمتیں ان کی دسترس میں ہیں، مگر مختلف عوارض کی وجہ سے وہ ان سے استفادہ نہیں کرسکتے، کیا یہ آزار کم ہے کہ دنیا کی مَن پسند نعمتیں دسترخوان پر سجی ہوں ، دل میں اُن کی چاہت موجود ہو ، لیکن اُن سے لطف اندوز نہ ہوسکیں۔
ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے ، مستقبل کے لیے کچھ پس انداز کر کے رکھنا شرعاً درست ہے ،صدقات وعطیات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کرکے بڑا اجر وثواب کماتاہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے ،اللہ تعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطافرماتا ہے ،سورۂ بقرہ کی آیات261تا 266میںصدقہ وخیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے ،ایک جگہ ارشاد فرمایا:’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے ،جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سودانے ہیں اوراللہ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے ، (البقرہ:261)‘‘۔صحابہ کرام، جو ایثار ووفاکا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال دریا دلی کے ساتھ خرچ کرتے تھے، ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں ۔
’’ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا،حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم پر(رزق ) کشادہ فرمادے گا ،اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمان نے ایک ہزاراونٹ گندم اور اشیائے خوراک کے منگوائے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: مدینے کے تاجر حضرت عثمان کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، آپ گھر سے باہر تشریف لائے ،اس حال میں کہ چادر آپ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے ۔آپ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لیے آئے ہو،کہنے لگے : ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں .
آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیجیے تاکہ ہم مدینے کے ضرورت مند لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرسکیں ،آپ نے فرمایا : اندر آؤ ، پس وہ اندر داخل ہوئے ،تو حضرت عثمان کے گھر میں ایک ہزاربوریاںرکھی ہوئی تھیں ،انہوں نے کہا: اگرمیں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا نفع دوگے ،تاجروں نے کہا : زیادہ سے زیادہ دس پرپندرہ یعنی پچاس فیصد تک نفع دیں گے،انہوں نے فرمایا:مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے، تاجروں نے کہا : مدینے کے تاجروں میں ایسا کوئی نہیں جو اس سے زیادہ نفع دے سکے ، پھر حضرت عثمان نے فرمایا: اے تاجرو! تم گواہ ہوجاؤ کہ یہ تمام مال میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : رات گزری ،رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے ، آپﷺ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرماتھے ، آپ جلدی میں تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی، نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا ۔میں نے عرض کی : یارسول اللہﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میری رغبت آپ ﷺ کی جانب بڑھ رہی ہے،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے، جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا ،( اِزَالَۃُ الْخِفَالِلشَّاہ وَلِیُّ اللّٰہ دہلوی،جلد2،ص:224،ملخصاً)‘‘۔
علامہ محی الدین یحییٰ بن شرَف نوَوِی لکھتے ہیں:’’علماء نے کہاہے کہ احتکار کی ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ عام لوگوں سے ضرر کو دورکیاجائے اور علماء کا اِس پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس اشیائے خوراک ہوں اور لوگوں کو اس طعام کی سخت ضرورت ہو اور اس کے علاوہ کہیں سے نہ ملے ،تو لوگوں کو ضرر سے بچانے کے لیے اس شخص کو طعام فروخت کرنے پر مجبور کیاجائے گا ،(شرح صحیح مسلم للنووی ، ج:5، ص:144)‘‘۔جان بچانے والی ادویات کی ذخیرہ اندوزی سے بھی اجتناب کیا جائے۔
علامہ نظام الدین لکھتے ہیں :’’ذخیرہ اندوزی مکروہ ہے اور یہ اس صورت میں کہ (کوئی شخص)غلّہ(کھانے پینے کی اشیاء)شہر میں خریدے اور اُن کو فروخت سے روک رکھے تاکہ لوگوں پر تنگی آجائے ،جیساکہ ’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں ہے اوراگر(صورتِ حال ایسی ہوکہ ) شہر میں خرید کر روک لیا اور اس سے لوگوں پر تنگی نہیں ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،جیساکہ ’’فتاویٰ تاتار خانیہ ‘‘ نے’’ تجنیس‘‘ سے نقل کیاہے.
اور جب شہر کے قریب ہی کسی مقام سے خریدا اور اٹھا کر شہر تک لایا اور(فروخت سے )روکے رکھا، اگر اہلِ شہر کے لیے اس سے تنگی ہوتی ہو ، تویہ مکروہ ہے ،یہ قول امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے اورامام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ سے دو روایتوں میں سے ایک روایت میں یہی منقول ہے اوریہی مختار قول ہے ،اسی طرح ’’غیاثیہ ‘‘ میں ہے ،یہی صحیح ہے ،اسی طرح ’’جَوَاہِرُ الْاَخْلَاطِیْ ‘‘ میں بھی ہے،پس اگر کسی دور کے مقام سے اناج خریدکرلایا اور(شہرمیں) ذخیرہ کیا تو یہ منع نہیں ہے ، جیساکہ’’ تتار خانیہ ‘‘میں ہے اور اگر کھانے پینے کی چیزیں شہر میں خریدیں اور اُنہیں دوسرے شہر لے گیا اور وہاں ذخیرہ کیا تو اس میں کراہت نہیں ہے ،جیساکہ ’’محیط‘‘ میں ہے ، (عالمگیری، ج:3،ص:213)‘‘۔
علامہ علاء الدین حصکفی نے لکھا ہے :’’حاکم ذخیرہ اندوز کو تعزیرًاسزا بھی دے سکتا ہے اور اس کے مال کو زبردستی فروخت بھی کرسکتا ہے‘‘،علامہ ابن عابدین شامی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’کھانے پینے کی چیزوں کو مہنگائی کے انتظار میں چالیس دن تک ذخیرہ کرنا شرعاً احتکار ہے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس شخص نے مسلمانوں پرچالیس دن ذخیرہ اندوزی کی ،اللہ تعالیٰ اُس پر جذام (کوڑھ )اور اِفلاس کو مسلّط کردے گا، ایک روایت میں ہے : ’’وہ اللہ تعالیٰ سے بری ہوگیا اور اللہ تعالیٰ اُس سے بیزار ہوگیا ‘‘، کفایہ میں ہے:’’یعنی رسوائی اُس پر مسلط کردی جائے گی اور ضرورت کے وقت اُس کی مدد نہیں کی جائے گی‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’اُس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہو ، اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبو ل فرمائے گا اورنہ نفل، (رَدُّالْمُحْتَارِ عَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار ،جلد:9،ص:486-487، ملخصاً)‘‘۔
ہماری قومی تاریخ میں 1965کی جنگ کا دور مثالی تھا:نہ تاجروں نے ذخیرہ اندوزی کی ،نہ لوگوں نے اشیائے ضرورت جمع کرنے کے لیے دکانوں پر یلغار کی ،نہ سراسیمگی پھیلی، نہ گھبراہٹ طاری ہوئی ، نہ لوگ شہروں کو چھوڑ کر بھاگنے لگے ،ہرچیز معمول کے مطابق تھی ، اس دور میں حبُّ الوطنی کا جذبہ واقعی عروج پر تھا۔ اب معاشی حالات اس دورکے مقابلے بہت بہتر ہیں ، لیکن نہ جانے ہمیں کیا ہوگیا ہے ، حرص وہوس ، جلبِ منفعت ، طلبِ زر ،نفع اندوزی اور نفسانیت ہمارے مزاج پر غالب آگئی ہے ،حالانکہ ایسے مواقع پر تو دنیا کے نفعِ عاجل پر آخرت کی ابدی اور دائمی رحمتوں ،رافتوں اور نعمتوں کو ترجیح دینی چاہیے ، کاش!ہماری چشمِ بصیرت وا ہوجائے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ سینوں میں (دھڑکنے والے )دل اندھے ہوجاتے ہیں ، (الحج:46)‘‘۔
نیز فرمایا: ’’اور جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا تو یقینا اس کی زندگی بہت تنگ ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا: اے میرے رب! تونے مجھے اندھاکرکے کیوں اٹھایا، حالانکہ میں تو(دنیا میں)بینا تھا، اللہ فرمائے گا:تونے بھی تو ایسا ہی کیا تھا، تیرے پاس میری نشانیاں آئی تھیں ،تونے ان کو نظر انداز کردیا تھا، اسی طرح آج تجھے بھی نظر انداز کردیا جائے گا، (طٰہٰ:124-126)‘‘۔
تبصرہ لکھیے