ابو کی زندگی میں امی کبھی کبھار میری طرف رہنے آیا کرتی تھیں لیکن ان کے جانے کے بعد جب بھی امی کو بلایا تو ہمیشہ ایک ہی جواب ملا کہ میں ادھر ہی ٹھیک ہوں کہ میری بیٹیوں کے لیے میکے گھر کا دروازہ کھلا رہے۔ مجھے یہ بات کچھ سمجھ آتی کچھ سمجھ نہ آتی، لیکن میں یہی سمجھ کے چپ کر جایا کرتی کہ امی اپنے کمفرٹ زون میں مطمئن ہیں۔
پھر امی بیمار ہوئیں شدید بیمار ۔ اس حالت میں ڈاکٹر بیٹی ہونے کی حیثیت سے امی کو اپنی طرف لے جانا چاہا ۔احساس ذمےداری بھی تھا جذبہ خدمت بھی لیکن ان سب سے بڑھ کر ایک خوف بھی دامنگیر تھا کہ اگر امی نہ رہیں ۔ اگر امی میرے گھر سے رخصت ہوئیں تو امی کے جانے کی ذمےدار ٹھہرائی جاؤں گی ۔ میں نے ایک ایک کر کے اپنے تمام بہن بھائیوں سے یہ بات کلیئر کی کہ اللہ کریم امی کو کامل شفا دے اور خیر سے اپنے گھر واپس لے جائے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو آپ میں سے کوئی مجھ سے گلہ تو نہ کرے گا ۔ سبھی صورتحال سمجھتے تھے، سب نے مجھے تسلی دی ۔چھوٹی بہن نے ایک بات کہی کہ دیکھو ہم آپ پر پورا یقین کرتے ہیں لیکن میں امی کی اٹینڈنٹ کی حیثیت سے اپنی ایک رائے رکھتی ہوں۔ اس کے خیال میں اس شدید بیماری میں والدہ کو ان کے کمفرٹ زون سے محروم کرنا غلط تھا۔ نیز اگر وقت آخر آ ہی گیا تھا تو ان کی رخصتی اپنے گھر سے ہونا ہی بہتر تھا۔ اس نے بھائیوں سے بات کی اور پھر والدہ کا علاج امی کے ہی گھر میں ہوا۔ اللہ کریم نے انھیں شفایاب کیا۔ الحمدللہ۔ ہم بہنیں جب بھی جاتیں امی ہماری منتظر ہوتیں۔ بہن اسی شہر میں تھی، سو اس کے لیے آنا جانا نسبتا آسان تھا، کبھی اس کے بچے امی کے پاس بھی رہ جاتے۔ میں دور تھی، اسپتال کی ڈیوٹی بھی کر رہی تھی، سو جب امی کی طرف جانا ہوتا تو لیٹ ہو جایا کرتی ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ رات دو بجے امی کے گھر پہنچے تو جاتے ہی دروازہ کھل جاتا اور امی اپنے کمرے میں گرما گرم کھانا لگوا دیتیں۔ یہ خیال کبھی ذہن میں بھی نہ تھا کہ یہ سب کبھی تبدیل بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن ہونی ہو کے رہتی ہے۔
مئی 2013 چل رہا تھا، الیکشن کی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ 24 مئی کو امی اور ماموں کی سالگرہ ہوتی ہے۔ امی بہترین مرغ متنجن بناتی تھیں ۔لیکن اب بیماری تھی سو ککنگ سے کب کی ریٹائرمنٹ لے چکی تھیں۔ وہ بار بار ماموں کو کہتیں کہ مرغ متنجن کی دیگ بنوا دو، میں نے سب کو اپنی سالگرہ کی دعوت کا کھانا کھلانا ہے۔ ماموں کہتے الیکشن کی وجہ سے سبھی باورچی مصروف ہیں بس الیکشن گزرنے دو تو بنوا دیتا ہوں۔ امی نے مجھ سے کہا کہ ماموں ابھی نہیں بنوا سکتے، الیکشن کے بعد میں نے دیگ کیا کرنی ہے؟ مجھے لگا امی کا بہت دل ہے تو میں گھر سے بنا کے لے گئی لیکن امی نے کہا اشرفی تو ڈالی نہیں، بس میرا بنایا مرغ متنجن فیل ہو گیا۔ امی کی طبیعت گری گری رہتی۔ لیکن ان دنوں امی اپنے بہن بھائیوں اور اولاد میں سے ہر ایک کو دن میں کئی کئی بار لینڈ لائن سے فون کرتیں۔ اسپتال سے نکل رہی ہوتی تو ریسپشنٹ پکارتی ڈاکٹر صاحبہ گھر سے فون ہے. میں اشارہ کرتی کہ میں گھر پہنچ کر،خود فون کر لیتی ہوں، تم بند کروا دو ۔ جتنی دیر میں گھر پہنچتی وہاں بھی لینڈ لائن فون پر امی کا فون آیا ہوتا ۔ میں کبھی لمبی بات کرتی کبھی کام کاج کی عجلت میں امی سے فون بند کروا دیتی ۔ کبھی اپنے موبائل سے فون ملا لیتی، فون اور کام ساتھ ساتھ چلتے ۔ لیکن ایسا بھی ہوا کہ امی کے فون آ آ کے بند ہوتے رہتے اور میں پھر کر لوں گی کہہ کے بات آئی گئی کر دیتی۔ امی کے فون کا آخری بل اس ماہ چار گنا زیادہ آیا، کبھی دوبارہ نہ آنے کے لیے۔
ماں کا ہماری زندگی میں ہونا سانس لینے جیسا ہی عام سا واقعہ ہوتا ہے بالکل روٹین جیسا ۔جس کا ہونا ہم محسوس ہی نہیں کرتے، جب تک یہ ہونی، ان ہونی نہیں بن جاتی ۔ 17 مئی کو امی کا پیس میکر گڑبڑ کر رہا تھا۔ سانس کی رفتار سے دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے والا پیس میکر جس کی بیٹری لائف 20 سال بتائی گئی تھی، چھ سات سال بعد ہی تھک گیا تھا ، اور رک رک کر چل رہا تھا ۔ پیس میکر کے رک کر چلنے کا مطلب دل کا رک رک کر چلنا ہے، دھڑکن ڈوبتی ابھرتی تھی، سانس بےقابو ہوتا تھا، خون کا دورہ کمزور ہو رہا تھا، پیر سوج چکے تھے۔ چلنے کی ہمت کم ہوتی جا رہی تھی۔ چند سال سے امی کو واکنگ ایڈ لے دی تھی، جب سے امی چلتے چلتے بےہوش سی ہو کے گرنے لگی تھیں ۔ وجہ وہی کہ یکدم دل کی کمزوری کی وجہ سے دماغ کو خون کی سپلائی کٹ جاتی تھی اور دماغ اندھیرے میں ڈوب جاتا تھا۔ جس سے عارضی بےہوشی ہوتی ہے اور مریض گر جاتا ہے۔ جیسے ہی سر باقی جسم کی سطح پر آتا ہے مثلا لیٹنے کی پوزیشن میں تو خون کی سپلائی بحال ہو جاتی ہے اور ہوش واپس آ جاتا ہے۔ یہ صورتحال بزرگوں کے لیے خطرناک ہوتی ہے کہ ایسی صورت میں اگر وہ لاکڈ واش روم میں گر جائیں اور کسی کو پتا ہی نہ چلے یا ہڈی جوڑ فریکچر ہو جائے۔ اسی لیے بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں جن میں سے ایک واکنگ ایڈ بھی تھی ۔ لیکن اب ہر گزرتے دن کے ساتھ امی کا اس کے ساتھ چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔
17 مئی کو امی نے کہا مل جاؤ۔ میں جانا چاہتی تھی، مگر خانگی و پروفیشنل امور میں مصروف بہت تھی ۔بہن جو بیرون ملک شفٹ ہو چکی تھی، اس سے یہی بات کہی تو اس نے ایک جملہ کہا کہ یہ سب مصروفیات یہیں رہیں گی ۔ابھی ماں کے چہرے کو مسکرا کر دیکھ آؤ، حج اکبر کر آؤ۔ جانے کب تک یہ موقع میسر ہے۔ والد کے جانے کے بعد سے اس موقع کی اہمیت سے ہم سب خوب واقف تھے، سو ڈاکٹر صاحب سے امی کے گھر جانے کا کہا تو جانے کی اجازت مل گئی، لیکن وہ خود اپنی مصروفیت کی وجہ سے ساتھ جانے سے قاصر تھے۔
18 مئی کو میں جانے کے لیے تیار تھی۔ جن دیور کے ساتھ نکلنا تھا، وہ دن کے ابتدائی حصہ میں مصروف تھے، اس لیے دوپہر کھانے کے بعد جانے کا پروگرام تھا۔ ایک آخری کوشش کے طور پر ڈاکٹر صاحب سے ساتھ چلنے کا کہا تو جواب ملا، اگر عصر کے بعد نکل سکو تو میں چلتا ہوں ۔ میں نے بخوشی دیور کو ڈیوٹی سے ریلیز کیا اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ پروگرام بنا لیا۔ رات 8 بجے امی کے پاس پہنچی۔ امی کرسی پر نیم غنودہ بیٹھی تھیں۔ مجھے دیکھ کے کچھ دیر باتیں کیں۔ ہفتے کی رات تھی۔ ارادہ تھا کہ امی کو ان کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ لیکن کنسلٹنٹ ہفتہ اتوار کو پریکٹس نہیں کرتے، اس لیے ملاقات کا وقت سوموار 20 مئی کی شام کا ملا تھا۔ امی کے دل کی دھڑکن بیلنسڈ نہیں تھی لیکن بات چیت کر رہی تھیں ۔ شیخ زاید کی ایمرجنسی قریب پڑتی ہے وہاں لے جانے کا سوچا۔ یہی خیال تھا کہ وہاں جونئیر ڈاکٹرز ہوں گے، چھوٹے بھائی نے تسلی دی کہ اگر زیادہ مسئلہ ہوا تو میں لے جاؤں گا ۔ ڈاکٹر صاحب کو پیچھے اسپتال سے فون آ رہے تھے، واپسی ضروری تھی ۔ میں امی کے پاس اس خیال سے نہ رکی کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ رات گئے ڈاکٹر صاحب اکیلے ڈرائیو کریں گے، سو ہم 19 مئی کی رات گھر واپس آ گئے۔ اس روز امی نے اپنے چاروں بچوں کے لیے الگ الگ دعا کی جو میں نے ریکارڈ کر لی تھی، پر وہ موبائل خراب ہو گیا اور تاحال چھوٹے بھائی کے پاس ہے کہ کوشش کر کے اس میں سے امی کی دعاؤں والی ریکارڈنگ نکالی جا سکے۔سب سے طویل دعا بھی چھوٹے بھائی کے لیے ہی تھی جو امی کے ساتھ رہتا ہے۔اس نے والدہ کی بہت خدمت کی ہے۔ اس کا اجر رب کریم کے پاس ہے ۔ان شاءاللہ
اتوار کو امی سے ایک آدھ بات ہوئی ، خلاف معمول امی طویل بات نہ کر پائیں کہ سانس اکھڑتا تھا۔ رات ساڑھے بارہ بجے 20 مئی ہو چکی تھی، جب امی سے آخری بار فون پر رابطہ ہوا ۔ امی نے بس اتنا کہا کہ بھائی کا دوست آیا ہوا ہے جسے امی پیار سے کالے خان کہتی تھیں۔ پھر سانس اکھڑنے پر فون بند کرنے کا کہا۔ اس رات غالبا امی کا دل فیل ہو چکا تھا ، بار بار واش روم جانے کی ضرورت پڑتی، خود سے چل نہیں سکتی تھیں تو چھوٹا بھائی اور امی کی مددگار بچی کرسی پر واش روم لے جاتے۔ صبح اذان کے وقت امی کے قدموں میں بیٹھے بھائی نے تھک کے امی کی گود میں سر رکھ دیا اور لاڈ سے کہا "امی یار تھک گیا"۔ امی نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جاؤ، اب تم آرام کرو، میں بہتر ہوں۔
بھائی کمرے میں چلا گیا۔ امی بھی لیٹ گئیں۔ صبح 7 بجے بھابی نے امی کو بیٹھے دیکھا، وہ مددگار بچی کو جگانا چاہتی تھیں۔ لیکن تمام رات کی تھکن سے چور بچی کو جگانے میں متامل تھیں۔ بھابی نے امی سے کہا کہ میں ناشتہ بنا دوں تو امی نے منع کر دیا کہ ابھی کچھ دیر میں مددگار جاگ جائے گی، تب کر لوں گی اور بھابی کو سر پر دوپٹہ لینے کا کہا کہ کہیں بھابی کو سردی نہ لگ جائے۔ بھلا 20 مئی کے گرم دن میں کیسی سردی۔لیکن امی کی حرارت ساتھ چھوڑ رہی تھی تو انہیں سردی لگ رہی تھی۔ پھر امی لیٹ گئیں۔ کچھ دیر بعد چھوٹی پوتی اپنی امی دادو سے ملنے آئی تو آواز دینے پر امی نے رسپانڈ نہیں کیا ۔ پوتی نے اپنے بابا سے شکایت کی کہ امی دادو میری بات نہیں سن رہیں۔ بھائی نے امی کو دیکھا۔ 1122 کو بلایا ۔ جو کر سکتا تھا کیا لیکن ڈاکٹر، اسپتال، انجکشن،مشینوں اور ٹیوبوں سے ڈرنے والی امی جو ہمیشہ بھائی سے کہا کرتی تھیں کہ "مینوں ڈاکٹراں دے وس نہ پائیں" پرسکون طریقے اپنے بیڈ کی گرم آغوش میں لیٹے لیٹے اپنے آقا کے حکم پر لبیک کہتی چل دی تھیں۔
مجھے صبح 8 بجے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کے جگایا گیا ۔ میں نے دروازہ کھولنے سے پہلے عادتا موبائل پر ٹائم دیکھا اور یہ خیال کیا کہ اسپتال میں کوئی ایمرجنسی مریض نہ ہو۔ بڑے بھیا کی کال تھی اور ایک دو لفظی میسج "لاہور پہنچ" پریشان ہو کے کمرے سے باہر نکلی تو سسر صاحب نے مجھے بس اتنا کہا "رابعہ آئی ایم سوری"، میں نے اضطراری انداز میں دایاں ہاتھ آگے پھیلا کر انھیں نہیں کا اشارہ کیا اور کچھ مزید کہنے سے روک دیا۔ کمرے میں واپس آ کے تڑپ کے روئی۔ جامعہ فون کر کے والدہ کے لیے غسل کا طریقہ اور میت کے حوالے سے احکامات پتا کیے۔ گھر فون کر دیا کہ امی کو میں خود غسل دوں گی، میرا انتظار کیا جائے.
اس روز لاہور پہنچنا اور گھر کے چوپٹ کھلے دروازے دیکھنا بہت بہت مشکل تھا۔ امی کے ہوتے جو دروازے بنا آواز کے کھل جاتے تھے، اس روز وہ بند ہی نہیں تھے لیکن انہیں بنا آواز کھولنے والی ہستی ہمیشہ کے لیے جا چکی تھی۔ وہ دروازے آج بھی بنا آواز کھل جاتے ہیں لیکن وہ دونوں پیاری ہستیاں جو ہم چار بہن بھائیوں کی ہستی کی بنیاد ہیں، وہاں نہیں ہیں۔ والدین گھر کی روح ہوتے ہیں، ان کے بعد در و دیوار وہی رہتے ہیں، لیکن گھر سے رشتہ بدل جاتا ہے۔ اسی گھر میں جا کر امی ابو کی ننھی لاڈلی بیٹی بن جانے والی لڑکی اب اسی گھر میں بڑی بہن کی حیثیت سے جانے اور نبھانے لگتی ہے۔ سچ ہے والدین میں سے ایک بھی جب تک سر پر رہے، انسان بوڑھا بھی ہو جائے تب بھی اس کا بچپن قائم رہتا ہے۔
رب کریم ان دونوں کی لحد کو فردوس بریں کا ایک حصہ بنا دے ۔ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انھوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے)
تبصرہ لکھیے