ہوم << آپ کا بچہ بدمعاش سے تو نہیں سیکھ رہا - اسری غوری

آپ کا بچہ بدمعاش سے تو نہیں سیکھ رہا - اسری غوری

آپ کا بچہ زندگی کا اہم باب کسی بدمعاش سے تو نہیں سیکھ رہا ؟ بڑھتی عمر کے بچے اور بچیاں بہت سے نئے مرحلوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر بیٹیاں اکثر خوش قسمت ہوتی ہیں کہ انہیں ماؤں سے ہر چیز کی ہدایات بروقت مل جاتی ہیں۔ مگر بیٹے، وہ بیچارے اس سے محروم ہی رہتے ہیں کیونکہ باپ یہ کہہ کر فارغ ہوجاتے '' ہوجائے گا خود ہی سب معلوم، ہمیں بھی تو ہوا تھا نا۔''

تو جن کو خود معلوم ہوتا ہے ان کا حال وہی ہوتا ہے جو ڈاکٹر صاحب اس ویڈیو میں بتا رہے ہیں۔ وہ عورت کو ہر عمر ہر جگہ صرف ایک آبجیکٹ کے طور پر لیتے ہیں۔ بیٹی کی عمر کی بچی دیکھ کران کی نگاہ میں اپنی بیٹی نہیں آتی، نگاہیں نہیں جھکتیں، بلکہ انکی نگاہ گندی ہی رہتی ہے۔ کوئی عمر رسیدہ خاتون دیکھ کر بہن یاد نہیں آتی، کیونکہ انھوں نے یہ سیکھا ہی نہیں ہوتا۔

تو ایسے میں ماؤں کو کیا کرنا چاہیے ؟ کیا وہ بھی اس پر حیا اور شرم کی اوڑھنی ڈال کر اگلی نسل کو بھی ایسا ہی بننے کے لیے چھوڑ دیں؟ ہر گز نہیں، مائیں جہاں اور بہت سے فرائض انجام دے رہی ہیں، وہاں یہ کام تو ان کو لازمی کرنا ہوگا۔ مگر سوال یہ کہ یہ کیسے کیا جائے؟ تو اس کے لیے یہ کہانی پڑھیے، آپ کو بہت کچھ جاننے کو ملے گا.
۔۔۔۔

وہ ٹین ایج ہوچکا تھا، آواز کے ساتھ جسمانی تبدیلیاں بھی آرہی تھیں، انداز میں چڑچڑاہٹ ۔۔۔ بات بات پر چیخنا۔۔۔ پریشانی، کنفیوژن۔۔۔ اسے سمجھ آنے لگی تھی کہ بیٹا نئی ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پریشان ہے. وہ زیادہ دھیان دینے لگی۔ واش روم میں کتنا وقت گزرتا ہے، کن چیزوں پر وہ شدید ردعمل دیتا ہے، ہر چیز نوٹ کرنے لگی. ایک دن دیکھا وہ رات میں اٹھا پریشان سا ہے، واش روم میں بہت دیر لگائی تھی اس نے۔ پھر واپس آکر سو گی. وہ خاموشی سے واش روم گئی، اس کا اندازہ درست تھا، اس نے واش روم میں واشنگ کا سامان لاکر رکھا اور صبح اس کے جاگتے ہی دھیرے سے اس کے بیڈ پر جابیٹھی.

وہ کنفیوز سا تھا ۔۔۔۔ ماں نے گود میں سر رکھا اور سہلانے لگی ۔۔۔۔ پریشان ہو ؟ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولا، نہیں تو ۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔ ماں نے گود میں رکھے سر پر پیار کیا ، مسکرائی اور کہا کہ پریشان ہونا بھی نہیں چاہیے ۔۔۔ ایسی باتوں پر کیا پریشانی؟ یہ تو نارمل سی چیزیں ہیں، اللہ نے انسان بنایا، اس کے ساتھ ہر چیز بنائی۔ وہ خاموش رہا ۔ پھر ماں نے دھیرے دھیرے سمجھانا شروع کیا ۔ دیکھو بیٹے! انسان اللہ کی تخلیق ہے اور رب نے اس کے جسم میں بہت سارے آٹو سسٹمز رکھے، کچھ پیدا ہوتے ہی آپریٹ ہوجاتے اور کچھ اپنے وقت پر ہوتے جیسے رونا ۔ چلانا ۔ پوٹی ۔ پشی ۔۔ یہ سب سسٹم بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنا کام شروع کردیتے ہیں ۔۔ اسی طرح کچھ چیزوں کی ڈیمانڈ پیدا ہوتے ہی شروع ہوجاتی جیسے بھوک پیاس ۔۔ نیند ۔۔۔ یہ سب انسان کی ضروریات ہیں ۔ دھیرے دھیرے جب وہ بڑا ہوتا جاتا ہے تو اسے اور چیزوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جیسے ایک وقت تک وہ صرف بیڈ پر لیٹا رہتا تھا، اب بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے، پھر اک اک قدم اٹھانے کی کوشش کرتا ، اس کے قدم اب چلنا چاہتے، زبان بولنے کی کوشش کرنے لگتی۔

غرض اسی طرح اسکی ضروریات کا دائرہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اب اس کے جسم میں بھوک، پیاس اور نیند کے علاوہ اس کے جسم کے اور سسٹم بھی ایکٹیو ہونے لگتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔نہ ہی کسی اک تنہا فرد کے ساتھ پیش آتی ہے۔ یہ سلسلہ اللہ نے تمام انسانوں کے ساتھ رکھا ہوا ہے، اس لیے عجیب کچھ بھی نہیں اس میں۔ ہاں! سمجھنے کی یہ بات ہے کہ ہم اسے ہینڈل کیسے کریں؟ بالکل ایسے ہی جیسے ہم اپنی پیٹ کی بھوک کے لیے اہتمام کرتے ہیں۔ اچھا صاف اور پاک و حلال کمانے کے لیے محنت کرتے ہیں، کوشش کرتے اور اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے، جبکہ ہم بہت سے حرام شاٹ کٹ سامنے پاتے، کچا گوشت ، کچی گندی مٹی سے بھری سبزیاں دیکھتے مگر کبھی سوچتے بھی نہیں کہ ان سے اپنی بھوک مٹالیں۔ تو بس یہ بھی ایسے ہی ایک باڈی سسٹم کا ایکٹو ہونا ہے اور ایک ضرورت ہے جو اللہ نے انسان میں رکھی ہے، ساتھ ہی ہدایات بھی دے دیں کہ اسے پورا کیسے کیا جائے اور جب تک پورا نہ ہو تو خود کو کیسے سنبھالا جائے۔۔۔۔ اور کسی حرام یا غلط شارٹ کٹ کی طرف نہ جایا جائے ۔

اس کے چہرے سے ماں نے جان لیا تھا کہ وہ اب پرسکون ہونے لگا تھا . ماں نے ہنستے ہوئے کہا کچھ سمجھ بھی آرہا ہے یا سب اوپر سے گزر رہا ہے۔ وہ بولا ۔۔۔۔ جی کچھ کچھ آیا ہے ۔۔ اماں نے کہا اب ہماری اگلی کلاس پھر سہی، آج اتنا کافی ہے ۔۔۔ پھر چپکے سے کان کر پاس آکر کہا ۔۔۔۔ واشنگ کا سارا سامان اب سے آپ کے واش روم میں رہے گا ۔۔۔ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو اسی وقت جاکر مکمل غسل سے خود کو پاک کرتے اور اپنی ہر چیز اسی وقت واش کرکے واش روم میں سکھا دیں ۔. خود کو ہمیشہ پاک رکھیں ۔۔۔ جسمانی بھی اور ذہنی پاکی بھی ۔۔۔ اور کبھی کوئی پریشانی ہو، بلاجھجھک مما سے شئیر کریں، ہم اس پر ڈسکس کریں گے ۔۔۔۔ اس نے گردن ہلائی ۔۔۔۔ مما نے اسے پیار کیا اور اٹھ گئیں۔۔۔ اس دن کے بعد دوبارہ کبھی اسے ہدایت نہیں دینی پڑی تھی ۔۔۔ وہ بہت کچھ جان چکا تھا۔۔۔ اس کی کنفیوژن، چڑچڑا انداز سب نارمل ہونے لگا تھا۔۔

کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ وہ سب کزنز اکٹھے ہوئے اور وہ اپنی ہم عمر کزن کے ساتھ کاندھے پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا ۔۔۔ مما نے اسے پانی لینے بھیجا اور پھر خود اس جگہ بیٹھ گئیں.. رات ہوئی، سب سونے چلے گئے تو مما اس کے پاس آئیں اور کہا ۔۔۔۔۔۔ آج ہماری اگلی کلاس ہوجائے ۔۔ وہ مسکرایا اور بولا اب کون سی کلاس ہے ۔۔۔ مما بولیں۔۔۔ رشتے اور ان کی حدود ۔۔۔

اللہ تعالی نے الگ الگ رشتے بنائے اور ان کے الگ الگ تقاضے اور حدود رکھیں ۔۔۔ جیسے آپ کے بابا اور میں، ہم دونوں جب صرف کزنز تھے تو ہمارا اک دوسرے کے لیے قریب بیٹھنا یا چھونا جائز نہیں تھا ، مگر جب ہمارا نکاح ہوگیا تو دیکھیں ہم اک روم شئیر کرتے ہیں۔۔۔ یہ ہے رشتے کی حدود اور تقاضے ۔۔۔ اب کوئی اور کزن میرا ہاتھ نہیں پکڑ سکتے، قریب نہیں بیٹھ سکتے، ان کے اور میرے رشتے میں حدود رہیں گی ۔۔۔ تو اسی طرح جب بچے بڑے ہونے لگیں تو ان کو اپنی حدود کا خود خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ کزنز بہنوں کی طرح ہی ہوتی ہیں اور ان کی عزت، ان کا خیال ان کے لیے دل میں خیالات بہنوں جیسے ہی ہونے چاہییں، الا یہ کہ آپ کا رشتہ بدل جائے ۔۔۔۔ وہ گردن ہلاتے ہوئے مسکرایا ۔۔۔ گویا اسے ا نکی کلاس کی وجہ سمجھ آگئی تھی۔۔۔۔

اس دن بھائیوں کا جھگڑا ہوا دسترخوان پر ۔۔۔۔ مما اس نے ہر ڈش کو جھوٹا کردیا ۔۔۔ ہر اک میں سے نکال کر کھا رہا تھا ۔۔۔ میں اب کچھ نہیں کھاؤں گا ۔۔۔ وہ سخت خفا تھا ۔۔۔۔ مما نے بھی چھوٹے بھائی کو سخت ڈانٹا اور سختی سے منع کیا آئندہ ایسی کسی حرکت سے ۔۔۔۔ شام ہوئی تو مما اس کے پاس آئی اور کہاکہ آپ کو کیوں برا لگا کہ ہر ڈش میں سے بھائی نے ہاتھ ڈال کر کھانا کھانا شروع کیا ۔۔۔۔ مما دیکھیں نا، کتنی گندی حرکت ہے اپنی پلیٹ میں لے کر کھائے نا، سب کا کھانا گندہ کردیا، ایسے تو دل خراب ہوجاتا ہے نا.. مما نے کہا ۔۔۔ بالکل ٹھیک کہا آپ نے ۔۔۔ آپ کو پتا ہے اللہ تعالی نے بھی ہمیں ہر چیز میں یہی حکم دیا ہے کہ صرف اپنے حصے کی چیزیں، رشتے اور تعلق تک رہو، کبھی کسی دوسرے کے حصے کو خراب کرنے کی کوشش بھی نہ کرنا ۔۔۔

کچھ نا سمجھی سے دیکھنے لگا تھا ۔۔۔ مما بولیں۔۔۔ اللہ نے جب انسان کی تخلیق کی تو اس کے حسب نسب کا اک سلسلہ چلایا اور اللہ اسے مکمل پاک رکھنا چاہتا ہے بغیر کسی ملاوٹ کے ۔۔۔ اسی لیے اسے ہر حرام رشتے اور تعلق سے روک دیا ۔۔۔ اس پر لازم کردیا کہ اپنی نسل کو ملاوٹ سے پاک رکھے اور اپنے رشتوں سے وفا کرے ۔۔۔ اور دوسروں کے رشتوں کو گندہ نہ کرے ۔۔۔ آپ خود دیکھیں نا، آپ اپنی کھانے کی ڈش کو گندہ کرنا برداشت نہیں کرسکتے تو اللہ دوسروں کے رشتے کیسے گندے کرنا برداشت کرسکتا ہے ۔۔۔ کسی کی بہن کو غلط نگاہ سے دیکھنا ، کسی بیٹی پر آواز کس دینا ، یہ سب بہت بڑی گندگی ہیں .. ان سے بچ کر رہنا ہمیشہ ۔۔ مرد قوام بنایا گیا ہے محافظ ۔۔۔ بہادر ۔۔۔ نگہبان۔۔۔۔ صرف اپنی بہن، اپنی بیٹی اور اپنی ماں کے لیے ہی نہیں۔۔۔ بلکہ آپ کے اسکول، کالج ، یونیورسٹی سے لیکر آپ کی کولیگ یا راہ سے گزرتی کوئی عورت ہو ، آپ نے خود محافظ ہی ثابت کرنا ہے ... اچھا اور پاک قوام ثابت کرکے دکھانا ۔۔۔۔ اسے اب ساری بات سمجھ آگئی تھی ۔

ایسے ہی بہت سے مواقع پر انکی کلاسز چلتی رہیں ۔ اور مما شکر ادا کرتی کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو کسی بدمعاش سے کچھ سیکھنے کے لیے نہیں چھوڑ دیا تھا ۔ وہ رب سے دعا کرنا بھی نہیں بھولتی تھی ۔۔۔۔۔۔ واجعلنا للمتقین اماما۔۔۔