وزیراعظم عمران خان نے کل قوم سے ایک بار پھر خطاب کیا۔ گزشتہ کئی دنوں سے بتایا جارہا تھا کہ وزیراعظم پاکستان کے سب سے بڑے ”ریلیف“ پروگرام کا اعلان کرنے والے ہیں۔ مجھے پچھلے مالی سال 2020-21ء کے بجٹ کا دن یاد آگیا۔ بدترین بجٹ۔ کہا گیا کہ وزیراعظم آج رات کو قوم سے خطاب کریں گے۔ ذہن میں یہی تھا کہ اچھا بجٹ نہ دینے پر وزیراعظم قوم سے معذرت کریں گے اور مشکلات ختم ہونے کی اُمید دلائیں گے۔ لیکن رات گئے وزیراعظم ٹی وی پر نمودار ہوئے تو فرمایا کہ ہم نے پاکستان کی تاریخ کا بہترین بجٹ دیا ہے۔ مدینے کی ریاست کی عکاسی ہے اس بجٹ میں۔
وزیراعظم کے کل ہونے والے خطاب سے متعلق بھی یہی سوچ رہا تھا کہ مہنگائی نے عوام کا برا حال کررکھا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ وزیراعظم کو احساس ہوگیا ہو اور وہ آکر قوم سے خطاب میں ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ کسی ریلیف کا اعلان کریں اور ساتھ ہی قوم سے معذرت بھی کہ ان مشکل حالات میں ان کی اُمیدوں پر پورا نہیں اُترپارہے۔
لیکن وزیراعظم آئے اور حسبِ سابق انتہائی اطمینان سے اپنی وہ وہ کامیابیاں گنوائیں کہ سننے اور دیکھنے والا حیران وپریشان۔ ساتھ ہی اعلان فرمایا کہ 120ارب روپے کا تاریخی ریلیف پیکیج دے رہے ہیں۔ دو کروڑ خاندانوں کو آٹا، گھی اور دالیں رعایتی قیمتوں پر ملا کریں گی۔ 13 کروڑ افراد مستفید ہوسکیں گے۔
کیلکولیٹر لے کر حساب لگانے بیٹھا ہی تھا کہ ڈاکٹر فرخ سلیم یہ مشکل دور کرتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے لکھا کہ ریلیف حاصل کرنے والے ہرفرد کو 154 روپے ماہانہ ملیں گے۔
اتنا بڑا ریلیف؟ ناقابلِ یقین!!!
وزیراعظم کے اس ریلیف پیکیج میں ابھی کھوئے ہوئے تھے کہ وزیراعظم سے ہی پتا چلا کہ پاکستان خطے میں سب سے سستا ترین ملک ہے۔ انڈیا، بنگلہ دیش کی مثالیں دیں۔ ساتھ ہی زبانِ قال سے بتایا کہ مقام شکر ہے آپ امریکا، برطانیہ میں نہیں رہتے ورنہ وہاں اس وقت تاریخ کی بدترین مہنگائی ہے اور اگر وہاں ہوتے تو آپ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبو رہوتے۔
یہ بات صرف وزیراعظم نہیں کررہے۔ پی ٹی آئی کے وزرا اور مشیر بھی دن رات یہی راگ الاپتے رہتے ہیں۔ جبکہ کارکنان میں بھی یہ ”بیماری“ جڑوں تک سرایت کرچکی ہے۔
حالانکہ مہنگائی پر دوسرے ممالک کی مثالیں دے کر وزیراعظم اور پی ٹی آئی کارکنان دو غلط بیانیوں سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔
ایک، پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں خطے کے تمام ممالک سے کم ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست نہیں، افغانستان تیل پیدا نہ کرنے والے ممالک میں ہونے کے باوجود آج بھی ہم سے سستا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا سال بتادیا جائے کہ جب پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں خطے کے ممالک سے زیادہ رہی ہوں؟ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ادوار میں بھی پیٹرول خطے کے تمام ممالک سے سستا رہا ہے۔
یعنی یہ ایسا ہی ہے جیسے پی ٹی آئی کارکنان یہ دعویٰ کریں کہ ہمارے دورِ حکومت میں دفاتر کے اوقات 9 سے شام پانچ بجے تک ہوتے ہیں، جبکہ صومالیہ میں صبح 8 سے رات 8 بجے تک۔ بھئی! اس میں آپ کا کیا کمال ہے؟ یہ تو دہائیوں سے ہوتا آرہا ہے۔کمال تب ہوتا جب آپ ان اوقات میں دو گھنٹے کی کمی لاتے۔
دوسری غلط بیانی، ”پاکستان انڈیا، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک میں سستا ترین ملک ہے۔“
اول یہ حقائق کے بالکل برخلاف ہے۔ سال 2020ء کے دوران میں انڈیا کے اندر مہنگائی کی شرح کم سے کم 8.7فیصد رہی، اور زیادہ سے 13.63فیصد، جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح کم سے کم 5فیصد، اور زیادہ سے زیادہ 6.5 فیصد رہی۔ ان دونوں ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں سال 2020ء کے دوران میں کم سے مہنگائی کی شرح 11.7 فیصد، اور زیادہ سے زیادہ 24 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
ان اعدادوشمار کو دیکھ کر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان انڈیا، بنگلہ دیش سے سستا ملک ہے؟ اس کے باوجود کہ پاکستان میں فی کس آمدنی ان دونوں ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ اور پی ٹی آئی حکومت میں اس کے اندر مزید کمی آئی ہے۔ سال 2020ء، ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کی فی کس آمدنی 1900ڈالر، بنگلہ دیش کی 1968 ڈالر جبکہ پاکستان میں فی کس آمدنی 1193 ڈالر رہی۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ حقیقت آپ کو بتادوں۔ پی ٹی آئی اپنا تقابل پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ کرتی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا ایک غیرجانبدار ماہر معیشت ہیں۔ ان کی تحقیق سامنے رکھتا ہوں، جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ سابق ادوار کے مقابلے میں پی ٹی آئی دورِ حکومت نے عوام کے ساتھ کیا کیا ہے؟
حفیظ پاشا کی تحقیق کے مطابق2008ء سے 2009ء کے مالی سال میں ایک مزدور کی اوسط آمدنی 7635روپے فی مہینہ تھی۔ 2012,13 کے اختتام پر پانچ سالوں میں اس آمدنی کے اندر 59 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ ان پانچ سالوں میں مجموعی طور پر مہنگائی میں 49فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
مسلم لیگ ن کا دورِ حکومت آتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق سال 2013سے 2018ء تک مزدور کی آمدنی میں 55 فیصد اضافہ ہوا۔ اس طرح پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں میں ایک عام مزدور کی حقیقی آمدنی میں مہنگائی کے مقابلے میں 3فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔
لیکن پھر 2018ء آتا ہے۔ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت۔ اس میں حقیقی آمدنی میں اضافے کے بجائے کمی آئی۔ اور یہ کمی تقریبا ڈھائی تین سالوں میں 8 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔ یہ چند ماہ پہلے کی تحقیق ہے، صورتِ حال اس وقت اس سے بھی بدتر ہوگی۔
سو ان تین ممالک اور پاکستان میں تین ادوار کا تقابل کرکے کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان سستا ترین ملک ہے؟ ایسا کہنا زخموں سے چور عوام کے زخموں پرمزید نمک پاشی کے مترادف نہیں تو کیا ہے؟
عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان بالکل واضح بتادیں کہ مہنگائی ہے، لوگوں کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے۔ اس سب کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم آپ کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ جبکہ پی ٹی آئی کارکنان بھی یہ دل سے تسلیم کرلیں کہ ہم اپنے حکومت میں اب تک عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکے ہیں۔ جو جواز بتائے جارہے ہیں، جو دلائل لائے جارہے ہیں، ان سے عوام میں مزید غصہ، اشتعال اور نفرت پیدا کرنے کے سوا انہیں کچھ نہیں ملے گا۔
تبصرہ لکھیے