ہوم << وجاہت مسعود اور عامرخاکوانی کی خدمت میں - آصف محمود

وجاہت مسعود اور عامرخاکوانی کی خدمت میں - آصف محمود

آصف محمودبرادر مکرم جناب وجاہت مسعود سے برسوں پرانا تعلق ہے جو اب تعلق خاطر سے بھی بڑھ چکا ہے۔ ماہ و سال نے یہ رشتہ اب اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ ان سے اختلاف کرتے ہوئے ایک اطمینان ہوتا ہے کہ اختلاف بھلے کوئی سا بھی رخ اختیار کر لے تعلق میں دراڑ نہیں آ ئے گی چنانچہ ’’ ہم سب ‘‘ پر میں نے ان کی فکر سے اتنا شدید اختلاف کیا کہ وجاہت کی جگہ کوئی اور ہوتا تو’’ ہم سب ‘‘ میرے لیے ’’ تم سب ‘‘ ہو چکا ہوتا۔ لیکن اتنا کچھ لکھ دینے کے باوجود، یہی احساس آج بھی قائم ہے کہ اختلاف رائے کی شدت کے باوجود معاملہ ابھی تک ’’ ہم سب ‘‘ کا ہی ہے اور ان شاء اللہ ایسا ہی رہے گا۔
برادر مکرم جناب عامر خاکوانی سے بھی محبت اور احترام کا رشتہ ہے ۔ ان کی ’’ دلیل ‘‘ سے بھی نیک تمناؤں کے ساتھ ساتھ گاہے اختلاف رہتا ہے اور اس کا اظہار کرتے ہوئے یہ اطمینان بھی کہ خاکوانی صاحب برا نہیں منائیں گے۔ باوجود اس کے کہ وہ ’’ اسلامسٹ ‘‘ہیں اور میں صف نعلین میں کھڑا ایک عام گنہ گار پاکستانی مسلمان، (سچ پوچھیے تو مجھے تو اسلامسٹ کی اصطلاح سے ہی اتفاق نہیں ہے ۔مجھے لگتا ہے اس اصطلاح میں ایک خاص تکبر اور زعم تقوی چھپا نظر آ تا ہے ) تاہم تعلق خاطر ہے اور تکلفات اور تصنع سے بے نیاز ہے ۔
میں ’’ ہم سب ‘‘ اور ’’دلیل ‘‘ دونوں کا ایک ادنی سا قاری ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ ایک آدھ استثناء کے ساتھ دونوں فورمز پر لکھاریوں کی طبع آزمائی کا میدان فکری اور نظریاتی ہے۔ بلاشبہ فکری اور نظریاتی مباحث کی ایک اہمیت ہوتی ہے لیکن اسی کا اسیر ہو کر رہ جانا ایک صحت مند رجحان نہیں ہوتا۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ سیکولر احباب خاطر جمع رکھیں وہ اس سماج کو سیکولر نہیں بنا سکتے۔ اسلامسٹ بھی جتنا مرضی زور لگا لیں یہ سماج ان جیسا نہیں ہو سکتا۔ یہ نظری مجادلہ ایک فکری اقلیت کا مشغلہ تو ہو سکتا ہے، عام آدمی اس سے بے نیاز ہے اور اس کے مسائل کچھ اور ہیں
سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر کیوں نہیں لکھا جا رہا؟
جس طرح اخبارات اور چینلز کو سیاست لاحق ہو چکی ہے اسی طرح ’’ ہم سب ‘‘ اور ’’دلیل ‘‘ پر نظری بحث کی حکمرانی ہے۔ سماج کے دیگر مسائل اور رجحانات جیسے صحت، تعلیم، تہذیب، تربیت، انصاف، روزگار، تخلیق، ادب وغیرہ نظر انداز ہو رہے ہیں ۔ افتاد طبع بھلے کسی ایک موضوع کے انتخاب پر اصرار کرتی ہو سماج لیکن تنوع اور تخلیق کا متمنی ہے۔
ہو سکتا ہے میرے بھائی میرے اس مشاہدے سے متفق نہ ہوں کہ ان کے ہاں نظری مباحث کی کثرت ماحول کو بوجھل کر رہی ہے لیکن انہیں علم ہونا چاہیے کہ سماج میں میرے جیسے کم علم بھی موجود ہیں جن کی قوت مشاہدہ میری طرح کمزور ہوتی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ یہ سماج نہ سیکولرز کی طرح سیکولر ہو سکتا ہے، نہ اسلامسٹوں کی طرح کا اسلامسٹ ہو سکتا ہے۔ ا س لیے اس نظری اور فکری بحث سے نکل کر سماج کی تشکیل و تہذیب کے ان پہلوؤں کو موضوع بنائیے جو سیکولر اور اسلامسٹ ہر دو طبقے کی ضرورت ہیں.

Comments

Click here to post a comment

  • آصف محمود صاحب یہ آپ نے کو نسی ''درمیانی'' جگہ نکال لی ہے۔۔ آج کل سب کو اپنی اپنی درمیانی جگہ نکالنے کا شوق چڑھا ہوا ہے۔۔ ایک انتہا لبرل سیکولر ہے اور دوسری انتہا طالبان ٹائپ انتہا پسند ہیں۔۔۔ "دلیل " ویب سائیٹ اور عامر خاکوانی ، اوریا صاحب ، ہارون الرشید وغیرہ اور ہم جیسے ان کے عام قاری اور فالوورز کا دعویٰ ہی یہی ہے کہ ہم صیح "درمیان" میں ہیں۔ ہم نہ تو اپنے مسلمان ہونے پر شرمند ہ ہیں اور نہ ہی کسی دھشت گرد کو مسلمان مانتے ہیں۔۔۔۔ ہم بھی ''عام مسلمان اور پاکستانی " ہیں۔ آصف محمود صاحب آپ درمیان میں گھس کر ہمیں دوسرے انتہا یعنی طالبان کے طرف ہلکا سا کھسکا رہے ہیں، جو کہ انصاف نہیں۔۔۔۔ آصف محمود صاحب آپ کا وہی حساب ہے کہ'' مجھے بس بیٹھنے کی جگہ دو لیٹنے کی میں خود بنا لوگا"۔۔۔ ہماری جگہ پر قبضہ نہ کریں۔۔مہربانی ہو گی۔۔
    باقی دوسرے سماجی مسائل پر بات ہونی چاہئے اور ہو بھی رہی ہے ۔ "دلیل '' صرف نظریاتی بحثوں تک محدود نہیں ہے۔۔۔ واسلام۔

  • ہمارے دانشوروں کو آج تک یہی تو سمجھ نہیں آئی کہ کس وقت ان کو کس محاذ پر لکھنا ہے، دنیا آگے نکل چکی ہوتی ہے یہ اسے دوربین سے ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں، قیام کے وقت سجدے میں جانا ہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے

  • سماج میں یہ مسئلہ یعنی نظریہ بھی بہت اہم ہے . آصف محمود صاحب آپکی رائے کا احترام لیکن اس میں بلکل وزن نہیں .

  • نظریاتی اور فکری مباحثے اگرچہ عام پاکستانی کا موضوع نہیں لیکن ان مباحثوں سے بہت سی راہیں کھلتی ہیں
    اگرچہ سماج نہ تو مکمل اسلامسٹ ہوسکتا ہے اور نہ ہی لبرل و سیکولر لیکن ہم کہیں بیچ میں تو رہ ہی سکتے ہیں
    باقی آپ قاری پر چھوڑ دیجیے کہ کسی ایشو پر وہ لبرل فکر کے قریب ہے یا اسلامسٹ کے ...

  • آصف محمود سے اتفاق ہے کہ زندگی کے اور بہت سارے مسائل ہیں جس کا حل ضروری ہے کہ خالی پیٹ نظریاتی مباحثوں کو کھا جاتا ہے