ہوم << ترکی میں بغاوت ، کیا امریکی ہاتھ ملوث ہے - ہمایوں مجاہد تارڑ

ترکی میں بغاوت ، کیا امریکی ہاتھ ملوث ہے - ہمایوں مجاہد تارڑ

ترکی بغاوت کے حوالے سے اردگان پارٹی کا دعوٰی کہ درپردہ امریکی ہاتھ ملوّث ہے. اس ظاہری منظر نامے سے ہٹ کر کہ جس میں 15 جولائی ، جمعہ کی شب 10 بجے اُن بغاوت ساز آتشیں ساعتوں کا آغاز ہوا، پھر جن کی فتنہ سامانی رات اڑھائی بجے کے قریب ہمیں دم توڑتی دکھائی دی، کچھ پس پردہ تہہ در تہہ چھپی تفصیلات بھی ہیں جو رفتہ رفتہ عیاں ہوتی، انٹرنیشنل نیوز ڈیسک کے رن وے سے اڑان بھر بھر کر مقامی نیوز ڈیسک کے ہیلی پیڈ پر قطرہ قطرہ ٹپک رہی اور ہمارے لیے چشم کشائی کا سامان کیے دیتی ہیں۔اس ضمن میں رائٹرز، ٹیلی گراف، سی این این، بی بی سی، فاکس نیوز ، نیو یارک ٹائمز اور سب سے بڑھ کر ترک ابلاغ ایسے ذرائع پر بہ تسلسل نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ یہ تصویر مکمل ہونے میں پیشرفت ہو، اور ہمیں اس معاملے میں بالغ نظری پوری طرح میسر آ سکے۔
گذشتہ شام "دلیل" ویب سائٹ پر محمّد دین جوہر صاحب کی تحریر نظر سے گذری تو رگِ تجسس پھڑکی کہ آیا واقعی ایسا ہے؟ کیا اردگان کےحمایتی قبیل کی جانب سے اس کا اظہار ببانگِ دہل کیا گیا؟ کیا امریکی اس ناکام بغاوت میں درپردہ معاونت کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے؟ کیا واقعی یہ آپریشن امریکہ سرکار کی زیرِ نگرانی کیا گیا، یا کسی نے بے پَر کی اڑائی تھی؟ کیا جب شور مچا تو امریکہ نے کوئی جواب دیا؟ تعلقات کی نوعیت اب کیسی ہے؟ محض اطلاع پر یقین کر لینے کے بجائے کیوں نہ اپنی آنکھوں یہ سب منظر دیکھا جائے، یعنی گوروں کے اپنے ابلاغی ذرائع سے ہم رابطہ ہو کر۔
جی ہاں، یہ خبر درست ہے کہ ترکی کی حکمران پارٹی نے، پاکستانیوں کے برعکس جو ایک آدھ بیان داغ کر چپ ہو رہتے ہیں، اس امر پر خاصا کھل کھلا کر نہ صرف غم و غصے کا اظہار کیا، بلکہ کل شام تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کل لگاتار پانچویں روز بھی ترکی نے ارادتاً امریکہ اور نیٹو افواج کے انسرنک ایئربیس کی بجلی اور بعض دیگر اہم سپلائیز بند کر رکھی ہیں۔
امریکہ اور نیٹو کے اس مشترکہ ایئربیس پر مقیم ہوابازوں کے والدین اور ان کی شریک حیات خواتین کے مطابق ہفتے کی شام سے آغاز ہو کر تا دمِ تحریر اس ہوائی اڈّے پرکھانے پینے کی اشیا اور پانی قلیل مقدار میں دستیاب ہیں۔ بجلی معطّل ہے، جبکہ ان کے جنریٹرز کو رواں رکھنے والے ایندھن بطور استعمال ہونے والا تیل کا ذخیرہ بھی فقط ہفتہ بھر کی مقدار کے برابر رہ گیا ہے۔
ایک نان کمشنڈ افسر کی اہلیہ نے ٹرو نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ اس کا میاں ہفتہ کے روز صرف ایک وقت کا کھانا کھا سکا تھا اور تب سے اب تک ہلکی پھلکی غذااور سنیکس پر گذارا کرتا رہا ہے۔
"میرے میاں کا کہنا ہے کہ ہر کوئی مشتعل ہے کہ بہت سی سہولیات منقطع کر دی گئی ہیں،" خاتون نے بتایا۔
بدھ کے روزانسرنک ہوائی اڈّے میں محبوس ایک اور ہوا باز کی والدہ نے بتایا کہ اس کے بیٹے کے کہے کے مطابق ترکی پولیس نے داخلی راستہ ابھی تک بند کر رکھا ہے، جبکہ الیکٹرک جنریٹرز بھی محض تب تک چلیں گے جب تک ایندھن دستیاب ہے۔ یہ جنریٹرز ہوائی آپریشنز میں مددگار ہیں اوراس کے علاوہ زیرِ زمین پڑے بی-ون نیوکلیئر بموں کے حامل بنکرز کو توانائی مہیا کرتے ہیں۔
انسرنک ہوائی اڈّے کے محاصرے کے علاوہ اردگان کے وفادار سیاستدانوں نےاعلانیہ طور پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ امریکی افسروں نے جمعہ شب کو برپا ہونے والی ناکام بغاوت کو اس اڈے سے معاونت فراہم کی تھی۔ یہیں سے ان دو عدد ایف سولہ طیاروں نے اڑان بھری تھی جنہوں نے پہلے تو اردگان کے طیارے کو سر راہ چھیڑنے کی ناکام سی کوشش بھی کی، اور انقرہ میں ایوان حکومت پر بمباری بھی کی۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ اس سلسلہ میں ترکی کے محنت و افرادی قوت کے وزیر سلیمان سوئلو نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے واشگاف لفظوں میں ایک ٹویٹ بھی کیا تھا: "اس بغاوت کے پیچھے امریکہ ہے۔"
“This coup has America behind.”
وزیر محنت کا یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ اعلانیہ و متفقہ طور پر تصدیق شدہ ہے۔
جی ہاں، خبروں کا بھوکا عالمی میڈیا بال کی کھال اتارنے میں سرگرداں، چن چن کر خبریں نکال رہا اور اپنی ویب سائٹوں، اخباری صفحات اور ٹی وی سکرینوں کی زینت بنا رہا ہے۔انسرنک اڈے سے مفرور کمانڈرز کی گرفتاری دینے سے پہلے تو انکار کر دیا گیا تھا، جس پر ترکی پولیس بالجبر اندر داخل ہوئی اور مطلوبہ لوگوں کو حراست میں لے لیا۔
امریکی ہاتھ کے ملوث ہونے کو "کور" کرتی نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ البتہ یہ ہے کہ انسرنک اڈے کےایک ترکش کمانڈر نے امریکہ سے پناہ طلب کی ، لیکن امریکہ نے پناہ دینے سے انکار کر دیا۔
انسرنک ایئربیس 3320 ایکڑ پر پھیلا نیٹو اور امریکی افواج کا ترکی کے جنوب میں واقع شہر' عدنہ' کے مقام پر قائم وہ مخصوص ہوائی اڈہ ہے جہاں سے طیارے شب و روز اڑانیں بھرتے اور شام کی دولت اسلامیہ وغیرہ پر بمباری کیا کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس نکتے کی طرف جو ہمیں محمد دین جوہر صاحب نے اپنے کل کے کالم میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کیسے ترکی کی سلامتی خود پاکستان کی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ انھی کے الفاظ میں:
" گزارش ہے کہ ان واقعات کے پیچھے اصل کہانی کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ فوجی بغاوت کے فوراً بعد ترک امریکی تعلقات ایک دم شدید ترین تناؤ کا کیوں شکار ہو گئے ہیں؟ ہمارے لیے نیٹو کی ترک ممبرشپ کا معاملہ غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے کہ کیونکہ نیٹو ممالک بھارت کو میزائل سسٹم میں شمولیت کی پیشکش پہلے ہی کر چکے ہیں اور ترک فوجی بغاوت اور ترکی کے نیٹو سے اخراج کے بعد اس امر کا قوی امکان ہے کہ بھارت نیٹو کا مکمل ممبر بن جائے۔ ہم احباب کی ناراضگی کے باوجود صرف یہ عرض کرنا چاہ رہے ہیں کہ ترکی فوجی بغاوت اپنے نتائج میں ہماری قومی سلامتی پر بھی براہ راست اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اس بغاوت کا ایک بڑا مقصد روس اور ترکی کے تعلقات میں پیش رفت کو روکنا تھا جو علاقے میں بڑی تبدیلیوں کا عندیہ دے رہی تھی۔
گزارش ہے کہ ترکی وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے جب بغاوت شروع ہوئی، تو ابتدائی مرحلوں میں باغیوں کو برتری حاصل تھی۔ اس بغاوت کا مرکز دراصل ترک فضائیہ تھی، لیکن وہ بھی منقسم ہو چکی تھی۔ مرمارا سے استنبول آتے ہوئے اردگان کے طیارے پر دو ایف سولہ طیاروں نے حملہ کیا جو اس کے ساتھ محو پرواز دو حامی ایف سولہ طیاروں نے پسپا کر دیا اور دوسری اطلاع یہ ہے کہ اس طیارے نے یہ بتایا کہ یہ ایک عام ایئرلائنر ہے۔ بہر حال رات کے تقریباً ڈھائی بجے جب باغیوں کے پاؤں اکھڑنا شروع ہوئے تو ترک حکومت نے پہلے اور فوری اقدام کے طور پر انقرہ اور انسرلک کے ہوائی اڈے پر نو فلائی زون کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکہ کو بھی مطلع کر دیا کہ اگر کوئی طیارہ اس اہم ہوائی اڈے میں داخل ہوا یا وہاں سے اڑا تو اسے مار گرایا جائے گا۔ ترک حکومت نے اس نو فلائی زون کو حامی فضائیہ اور حامی فوج کی مدد سے باقاعدہ نافذ کر دیا۔ اس اعلان کی خاص اہمیت ہے۔ یاد رہے کہ عدنہ شہر کے پاس واقع انسرلک نیٹو کے اہم ترین ہوائی اڈوں میں سے ہے اور وہاں موجود ایٹمی ہتھیار پورے یورپ کے کسی بھی دوسرے اڈے سے زیادہ ہیں۔ یہ وہ رپورٹیں ہیں جو عالمی میڈیا میں بڑے پیمانے پر شائع ہوئی ہیں، اور ترک حکومت کے بیانات اور ترکی پریس میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
لیکن 17؍ جولائی کو سی این این امریکہ کی رپورٹ کے مطابق اصل کہانی اگلے روز یعنی 16؍ جولائی کو شروع ہوئی۔ اس کی اطلاع کے مطابق، ترک حکومت نے امریکہ سے اڈے میں جانے اور وہاں باغیوں کو تلاش کرنےکی اجازت طلب کی۔ امریکہ نے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن ترک حکومت نے نہ صرف اس انکار کو مسترد کر دیا، بلکہ اس کے جواب میں ترک خصوصی دستوں نے اس ہوائی اڈے کو گھیرے میں لے لیا، اور امریکی اجازت کے بغیر اڈے میں داخل ہو گئے۔ اس وقت اڈے پر ترک فضائیہ کے دو ایف سولہ طیارے موجود تھے جو کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے تھے۔ اڈے کی تلاشی کے بعد وہاں سے ایک ترک جرنیل اور ترک فضائیہ کے گیارہ پائلٹ دستیاب ہوئے، جنھیں وہاں کے خفیہ خانوں میں باقاعدہ چھپایا گیا تھا۔ ترک فوج نے ان باغیوں کو گرفتار کر کے اپنی حراست میں لے لیا اور اب استنبول لا کر ان کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ ترک فضائیہ کے باغی طیاروں کی مڈ ایئر ری فیولنگ کا پورا انتظام بھی امریکہ کے زیرکنٹرول اور زیر استعمال اسی ہوائی اڈے سے کیا گیا تھا۔ یہ وہ رپورٹ ہے جو سی این این امریکہ نے جاری کی ہے۔ سی این این امریکہ کی اس رپورٹ کے بعد، جو ایک طرح کا غیرسرکاری اعتراف ہے، اب اور کیا تجزیہ باقی رہ جاتا ہے؟"

Comments

Click here to post a comment