ہوم << قاتل کون۔۔۔؟...طارق محمود چوہدری

قاتل کون۔۔۔؟...طارق محمود چوہدری

p12_04
قندیل بلوچ کی مختصر زندگی اور اس کی دردناک موت، منیر نیازی کے اس شعر کی عملی تفسیر نظر آتی ہے جس میں بے دل شاعر نے کہا تھا کہ کچھ تو شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اور کچھ مجھے مرنے کا شوق بھی۔ بظاہر تو قندیل بلوچ کو قتل تو اس کے ’’غیرت مند‘‘ بھائی نے کیا۔ لیکن یہ بھائی قاتل نہیں۔ آلہ قتل ہے۔ جس طرح بندوق، پستول، خنجر، چھری، تلوار آلہ قتل کے زمرے میں آتے ہیں۔ درست قاتل وہی کہلاتا ہے جس کے ہاتھ لبلبی دبانے، خنجر، چھری کا وار کرتے اور جیتے جاگتے انسان کو موت کی تاریک سرد وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ قندیل بلوچ کے قتل میں شریک جرم ایک نہیں کئی ہیں۔ تضادات کا شکار معاشرہ، بے حس سماج،منافقانہ رویئے، شہرت کی اندھی خواہش، ثنا خوان تقدیس مشرق، عورت کو جنس بازار سمجھنے والے سوداگر، ریٹنگ کی اندھا دھند دوڑ میں میکانی سمت، الیکٹرانک میڈیا، قاتلوں کے اس گروہ نے مل کر قندیل بلوچ کو مارا۔ یہ سب قاتل شریک جرم ہیں۔ ہاں! سزا اس کے بھائی کو ملے گی۔ وہ بھی نہ جانے کتنی تاخیر سے۔ ویسے اگر قندیل بلوچ نہ بھی ماری جاتی تو وہ اپنے اوپر پہنی ہوئی بغاوت کی خودکش جیکٹ کا شکار ہو جاتی۔ آخر ایک روز یہ ہونا ہی تھا۔
ٹی وی پر ڈرامے دیکھنا۔ ایک عرصہ ہوا چھوڑ دیا۔ ایک ہی طرح کے موضوعات، ایک ہی طرح کے پس منظر اور تاثر دینے والے ڈراموں کو چند منٹوں کیلئے بھی برداشت کرنا مشکل کام ہے۔ اب تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کون سا ہیرو نمبر ون ہے اور کون سی ہیروئن ٹاپ سلاٹ پر براجمان ہے۔ لہٰذا بہت سے آرٹسٹوں کو شکل سے تو پہچانتا ہوں البتہ ان کے نام ہر گز معلوم نہیں۔ آخری فلم کب دیکھی یہ بھی یاد نہیں۔ کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھنے کیلئے بلڈ پریشر اور ذیابیطس کنٹرول کرنے کی گولیوں کا سٹاک اپنے ہاتھ کی پہنچ میں رکھنا پڑتا ہے۔ ایسی سرگرمیوں سے اب دور ہی رہتا ہوں۔ فالتو وقت، جو بہت زیادہ میسر نہیں۔ میں کوئی کتاب، میگزین، ڈائجسٹ پڑھتا ہوں۔ البتہ ٹی وی ہی دیکھنا ہو تو سپورٹس چینل ہی اولین ترجیح پاتے ہیں۔ لہٰذا پہلے پہل قندیل بلوچ کا نام سنا تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ موصوفہ کون ہیں؟ اداکارہ ہیں، گلوکارہ ہیں یا ماڈل ہیں۔ کون سی فلم میں کام کیا؟ کسی ہٹ ڈرامے میں کوئی پاپولر کردار ادا کیا؟ کوئی اچانک مشہور ہو جانے والا گیت گایا۔ پتہ چلا کہ ان میں سے کوئی بھی بات حقیقت نہیں۔ اس کے باوجود قندیل بلوچ کے نام کے ڈنکے بجتے دیکھے۔ معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر بہت پاپولر ہیں۔ کوئی پانچ لاکھ کے قریب ان کے فالوور ہیں۔ ادھر وہ کوئی پوسٹ اپنے پیج پر ڈالتی ہیں، ادھر سوشل میڈیا کی چکاچوند سے بھرپور دنیا میں ایک کھلبلی مچ جاتی ہے۔ قندیل بلوچ کی غیر معمولی شہرت کی کہانی پانی کے بلبلے کی طرح ہے، بلبلہ بنا۔ چند روز نظروں کے سامنے رہا اور پھر ایک روز اچانک بے رحمی اور سفاکی کی دھوپ اس کو کھا گئی۔ مرحومہ کو غیر معمولی شہرت ورلڈ کپ میں ملی۔
جب انہوں نے کہا کہ پاکستان ورلڈ کپ جیت گیا تو وہ اس خوشی کے موقع پر غیر معمولی انداز میں جشن منائے گی۔ وہ پاکستانی شائقین کیلئے ’’سڑپ ٹیز‘‘ کا مظاہرہ کریں گی۔ کسی زمانے میں تو سٹرپ ٹیز کا لفظ ہی جسم میں سنسنی دوڑانے کیلئے کافی ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہ پرانی باتیں ہیں۔ اب پاک لوگوں کے غیرت مند معاشرے میں سب کو معلوم ہے کہ سٹرپ ٹیز کیا چیز ہے۔ ایسے ملک میں جس کو بین الاقوامی ادارے ایک خاص شعبہ میں نمبر ون پوزیشن کا حقدار قرار دے چکے ہوں۔ جانتے ہوں نا اس کے اعزاز کے متعلق۔ جی ہاں! بین الاقوامی ریسرچ بتاتی ہے کہ پاکستان انٹرنیٹ پر فحش اور بیہودہ سائٹس کی سرچ میں ٹاپ پوزیشن پر ہے۔ غیرت کے نام پر جان لینے اور دینے والے معاشرے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ بہرحال قندیل بلوچ اس فراخ دلانہ پیشکش سے بہت پہلے، قائد انقلاب عمران خان سے شادی کی خواہش ظاہر کر کے شہرت حاصل کر چکی تھی۔ عمران خان سے شادی کی خواہش پوری ہوئی نہ پاکستان ورلڈ کپ میں کوارٹر فائنل سے آگے جا سکا۔ اس وقت تک ذاتی طور پر قندیل بلوچ کو مشکل سے کم از کم یہ خاکسار تو نہیں پہچانتا تھا۔ سب سے پہلے قندیل بلوچ کو ورلڈ کپ کے بعد ایک ٹی وی چینل پر لاہور کے اینکر کے پروگرام میں دیگر خواتین سے لڑتے دیکھا۔ اینکر موصوف چند سالوں میں تیزی سے وزارتوں، عہدوں کی فصیلیں پھلانگتے ہوئے آج ٹاپ پوزیشن ہولڈر ہیں۔ اپنے جہاز کے بھی مالک ہیں۔ بہرحال اس ایک گھنٹہ کے پروگرام میں قندیل بلوچ نے بھی کھل کر متنازعہ باتیں کیں اور ٹی وی پروگرام کی ریٹنگ میں بھرپور اضافہ کیا۔ اس کے ایکسپریشن، اس کا انداز گفتگو صاف بتا رہا تھا کہ اس کو معلوم ہے کہ چسکے کے متلاشی نمائش بینوں کو مطلوبہ تفریح کس طرح پہنچائی جاتی ہے۔ پھر ریٹنگ کے حصول کیلئے ہر معاشرتی قدر کو چھابڑی میں رکھ کر بیجنے کیلئے تیار میڈیا ماسٹروں کو قندیل کی شکل میں ہاتھوں ہاتھ بکنے والی پراڈکٹ نظر آئی۔ سوداگر کیلئے صرف یہی اہم ہوتا ہے کہ اس کی تیار کردہ پراڈکٹ منہ مانگے دام بکتی رہے۔ خریدار
پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے تاجر کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ بہرحال اس پراڈکٹ کو بیچنے کیلئے اس کے ساتھ مفتی قوی نامی عالم ہونے کے دعویدار شخص کا پیئر بنایا گیا۔ شہرت کیلئے قوی صاحب نے بھی ہر وہ اوچھی حرکت، ذومعنی فقرہ بولا۔ جو سکرین کی ڈیمانڈ تھی۔ ٹی وی سکرینوں پر ایسے رنگیلے،جعلی عالم خوب ریٹنگ پاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ایک ’’ان لائن جاہل‘‘ عالم بن کر رمضان میں برکات رمضان، محرم میں غمگساری خانوادہ نواسہ رسول، ربیع الاول میں فضائل اسوہ حسنہ بیچتا ہے۔ قندیل نے اس مولوی کو خوب بے نقاب کیا۔ اس کے کردار، تقویٰ کے دعوے کو جعلی میڈیا کو بیچ چوراہے پھوڑا۔ یہی قندیل کے مختصر عرصہ شہرت کا نکتہ عروج تھا۔ میڈیا نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ کون جانتا ہے اس حقائق کی تلاش کی مہم کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ بہرحال میڈیا اس کے آبائی گھر تک پہنچا۔ اس کی زندگی کا ہر گوشہ، ہر کونا، چوکوں، چوراہوں میں بینر پر لکھ کر سجا دیا۔ اس کی شادیاں، طلاق، خاندان میں منظر، اس کا پتہ، سب کچھ ایڈریس سمیت بچے بچے تک پہنچ گیا۔ ایسے میں اس کے بھائی کی سوتی غیرت جاگ اٹھی اور اس نے بہن کو قتل کر دیا۔
غیرت مند بھائی کی غیرت اس وقت نہ جاگی۔ جب وہ 17 سال کی عمر میں شوہر اور دیوار کی مار کھا کر گھر سے نکلی۔ اس وقت بھی سوئی رہی جب وہ دارالامان میں رلتی رہی۔ اس وقت بھی نہ جاگی جب وہ بس میں میزبان کی نوکری کرتی رہی۔ جب وہ پاکستان سے نکل کر دبئی اور جنوبی افریقہ کے عشرت کدوں میں سجی، تب بھی وہ ضمیر خوابیدہ ہی رہا۔ جب اس نے ماں باپ کو ملتان میں گھر لیکر دیا۔ ماہانہ خرچہ اٹھاتی رہی۔ تب تو بالکل ہی خاموش رہی۔ غیرت مند بھائی کو موبائل شاپ کھول کر دی۔ تب بھائی نے غیرت کو نیند کی گولی کھلا کر سلا دیا۔ یہ غیرت جاگی تو اس وقت جب بہن کی ذاتی زندگی، جنس بازار بن گئی۔ قندیل بلوچ مر گئی۔ اس کی پراسرار زندگی کے بے شمار پہلو پوشیدہ ہی رہیں گے۔ اس فوزیہ عظیم کو کلچر کوئن بنانے والے کردار کون تھے؟ اس کو فائیو سٹار ہوٹلوں، فارم ہاؤسوں، بیش قیمتی گاڑیوں میں بٹھانے والے کون تھے؟ کون تھے وہ لوگ جنہوں نے خود رو خواہشوں کے جنگلوں میں بھٹکنے والی سادہ دل لڑکی کو میڈیا کوئین بنا دیا۔ قندیل بلوچ تو اپنے انجام کو پہنچ گئی لیکن۔ ان لوگوں کا احتساب کون کرے گا جنہوں نے اسے اس مقام تک پہنچایا؟

Comments

Click here to post a comment