ہوم << افغان اور پشتون کی بحث...سعد اللہ جان برق

افغان اور پشتون کی بحث...سعد اللہ جان برق

m-bathak.com-1421245693sadullah-jan-barq
سیاست کی اپنی اپنی کروٹیں ہوتی ہیں جو وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی ہیں ان میں کچھ کروٹیں تو متوقع ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر کروٹیں اونٹ کی طرح قطعی خلاف توقع ہوتی ہیں، چنانچہ ان دنوں اس اونٹ نے جو خلاف توقع کروٹ لی ہے وہ محمود خان اچکزئی کے ایک بیان سے شروع ہوئی ہے۔
اصل مسئلہ لفظ افغان کا ہے جو ان بیانات میں اچھا جا رہا ہے ۔ طورخم کی جو لکیر ہے وہ قطعی ایک غیر فطری لکیر ہے کیوں کہ فطری سرحدوں کے جو اصول یا شرائط ہیں وہ یہاں ایک بھی موجود نہیں، یہ تو امیر عبدالرحمن اور انگریزوں نے باہم متفق ہو کر ڈیوائڈ اینڈ رول کا مظاہرہ کیا تھا کیوں کہ دونوں کو اس کی ضرورت تھی، اگر یہ لکیر نہ کھینچی جاتی تو امیر عبدالرحمن کی حکومت کے لیے پشتون ہمیشہ خطرہ بنے رہتے کیوں کہ دونوں جانب کے پشتون مل کر دوسری افغان اقوام سے اکثریت میں ہو جاتے، خود امیر عبدالرحمن نسلی لحاظ سے پشتون تھا لیکن حکمرانوں کا کوئی مذہب یا نسل یا زبان نہیں ہوتی اور اس کے اردگرد اصل حکومت چلانے والا حلقہ غیر پشتونوں پر مشتمل تھا۔
انگریزوں کو افغانستان سے کوئی لینا دینا نہیں وہ تو روسی خطرے کے آگے دیواریں بنانا چاہتے تھے چنانچہ دریائے آمو سے طورخم تک ایک دیوار بنی، دوسری قبائل سے ٹسلڈ ایریا کی دیوار بنی روس کو برٹش ایمپائر پر پہنچنے کے لیے ان دیواروں کو عبور کرنا پڑتا اور ان دیواروں کی تباہی یا گرنے ٹوٹنے سے اس کا کوئی نقصان نہ ہوتا اگر مرتے تو پشتون ہی مرتے، ان حالات میں ڈیورنڈ لائن کی لکیر کھینچی گئی جو فطری معنی میں ’’سرحد‘‘ بالکل نہیں تھی کیوں کہ سرحد یا تو ناقابل عبور سمندروں دریاؤں یا پہاڑوں کی ہوتی ہے جیسی کہ چین اور ہندوستان کے درمیان ہے یا اس کی بنیاد مذہب پر ہوتی ہے یا قوم یا نسل کی وجہ سے لیکن یہاں میں کوئی بھی حالت موجود نہیں ہے، دونوں اطراف میں ایک ہی مذہب ایک ہی قوم ایک ہی نژاد ایک ہی زبان اور ایک ہی نظریئے و عقیدے کے لوگ رہتے ہیں سوائے حکومتوں کے مفادات کے، لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ اس پر اب بحث کرنا فضول ہے یہ لکیر اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ کسی طرح بھی اس کا مٹانا ممکن نہیں رہا ہے۔
سوائے ایک صورت کے کہ دونوں اطراف کے عوام اور حکومت جرمنی کی طرح متفق ہو جائیں لیکن یہ بھی ایک ’’خیال و محال‘‘ قسم کی بات ہے۔ اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف کہ کون افغان اور کون پشتون ؟ یہ دو الفاظ یا نام ہمیشہ سے مبہم اور ناقابل تشریح رہے ہیں، دونوں ممالک کے کسی بڑے سے بڑے لیڈر یا مدعی سے پوچھا کہ افغان کون اور پشتون کون؟ تو اس کا جواب نہیں دے پائے گا۔
انگریزوں کے زمانے سے یہ طریقہ رہا ہے کہ قومیت کے خانے میں افغان لکھا جاتا ہے اور یہ طریقہ اب بھی رائج ہے لیکن جو لوگ دونوں ناموں کی حقیقت جانتے ہیں وہ قومیت کے خانے میں اب پشتون بھی لکھنے لکھوانے لگے ہیں، لیکن عامتہ الناس کو اب بھی دونوں کی اصل حقیقت معلوم نہیں ہے کیونکہ ’’افغان‘‘ قطعی ایک الگ مفہوم رکھتا ہے اور پشتون کے اپنے مخصوص معانی ہیں، یوں کہیے کہ ہر پشتون افغان ہو سکتا ہے لیکن ہر افغان پشتون نہیں ہوتا، اس کا سلسلہ یوں ہے کہ پشتون صرف اسی کو کہا جا سکتا ہے جو اپنے اس مخصوص علاقے میں ہو اس کی زبان پشتو ہو اور زبان کے علاوہ ایک پشتو اور ہے جو طرز زندگی رسم و رواج اور معاشرتی تعلقات کا نام ہے اس پر بھی کاربند ہو، مزے کی بات یہ ہے کہ پشتون کے اس دائرے میں دوسری اقوام کے لوگ بھی آجاتے ہیں جسے عرب، ایرانی، کشمیری، پنجابی، سندھی، بلوچی حتیٰ کہ انگریز تک بھی آسکتے ہیں مثلاً یہ جو بزرگان دین ہیں جسے بایزید انصاری عرب تھا لیکن پشتون قومیت کا سب سے بڑا علمبردار تھا، پیر صاحب (سید علی ترمذی) نژاد کے لحاظ سے ایرانی تھے لیکن ان کی اولاد آج مستند طور پر پشتون حضرت کاکا صاحب شیخ رحمکار ؒ بھی سید تھے۔
اسی طرح اور بھی کئی بزرگ تھے جو دوسری نژادوں سے تعلق رکھتے تھے ہمارے موجود وقت میں کتنے ہی ہندو مسلمان ہوئے، کتنے پنجابی آکر یہاں بس چکے ہیں اس طرح کشمیریوں اور ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد اب ’’پشتون‘‘ کے دائرے میں شامل ہیں جو پشتو بولتے ہیں پشتو کرتے ہیں اور پشتونوں میں رہتے ہیں، لیکن افغان کا سلسلہ قطعی الگ ہے بہت سارے لوگ جو نسلی اور نژادی لحاظ سے پشتون ہیں لیکن اب دوسرے معاشروں میں رہتے ہیں نہ پشتو جانتے ہیں نہ پشتو (قوانین) پر عمل درآمد کر سکتے ہیں یہ سب کے سب افغان کے دائرے میں آتے ہیں مثلاً جوش ملیح آبادی، علامہ تاجور نجیب آبادی، علامہ نیاز فتح پوری، مولانا محمد علی و شوکت علی، ڈاکٹر ذاکر حسین، یا فلم انڈسٹری میں جو بے شمار ’’خان‘‘ ہیں یہ سب کے سب افغان تو ہیں لیکن پشتون نہیں ہیں یہ بالکل ویسی ہی بات ہے کہ ایک شاخ اگر درخت سے کاٹ کر کہیں دور لگائی اور اگا لی جاتی ہے تو نسل اور خاندان کے لحاظ سے تو وہ اپنے اصل سے تعلق رکھتی ہے لیکن خود وہ درخت اسی علاقے کا ہوتا ہے جہاں وہ پلا بڑا ہے، چنانچہ دوسری جانب تاجک، ازبک اور دری زبان بولنے والے فارسی بان افغان بے شک ہیں لیکن پشتون نہیں ہیں کیوں کہ وہ اس مخصوص معاشرے اور زبان سے دور ہو کر کسی اور طبقے میں شامل ہو چکے ہیں۔
ہند میں ایسے کئی اولیاء کرام گزرے ہیں جو نژادی لحاظ سے پشتون تھے لیکن اب وہ پشتون نہیں بلکہ افغان کہلائیں گے اور ان کی اولادیں بھی اسی زمرے میں شمار ہوں گی، اس بنیاد پر دیکھا جائے تو افغان نسبتاً وسیع دائرہ ہے جب کہ پشتون کا دائرہ محدود ہے، یوں کہیے کہ پشتون ایک قوم ہے اور افغان ایک ملت ۔ پنجاب میں ایک بڑی تعداد پشتونوں کی موجود ہے جیسے درانی، نیازی، سندھ میں ایک بہت بڑا قبیلہ ’’انیدھڑ‘‘ کے نام سے موجود ہے جو اصل میں انڈر ہیں جو غزنی میں تو ایک پوری ولایت ان کی ہے جب کہ ہمارے خیبر پختون خوا میں بھی بہت ہیں اب یہ انڈر یا انیڈھر اگر افغانستان میں یا خیبر پختون خوا میں ہیں اور پشتو بولتے یا کرتے ہیں تو پشتون کہلائیں گے لیکن اگر سندھ یا ہند کے آندھرا پردیش میں ہیں تو وہ ’’افغان‘‘ ہیں۔
اسی طرح ایک ہی قبیلہ یوسف زئی یا خٹک کے جو لوگ دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں جیسا کہ محمد علی، شوکت علی زسف زئی تھے جوش ملیح آبادی آفریدی تھے، نیاز فتح پوری بھی غالباً آفریدی تھے یہ سب افغان کے زمرے میں تو آتے ہیں لیکن پشتون کے دائرے میں نہیں کیوں کہ اس کے لیے اس مخصوص سرزمین پر رہنا پشتو بولنا اور پشتو کرنا لازمی ہوتا ہے، رہی سیاسیات کی بات تو ۔۔۔۔ سیاست تو گرگٹ ہوتی ہے لمحے لمحے رنگ بدلتی ہے کل کے دوست اور حلیف ایک لمحے میں دشمن ہو جاتے ہیں اور کل کے دشمن اچانک ایک دوسرے کے گلے لگ جاتے ہیں۔