ویسے مجھے ان کا اصل نام پہلے اور عرفیت بعد میں لکھنی چاہیے تھی مگر چونکہ وہ زیادہ مشہور عرفیت سے تھیں، اس لیے اصل نام بعد میں لکھا- ایڈیٹر صاحب سے درخواست ہے کہ اس بلاگ کے ساتھ ان کی تصویر نا دی جائے- بلکہ ان کے والد اور والدہ کی تصویر دی جائے- قندیل بلوچ کے قتل کے بعد بھی ہمیشہ کی طرح ایسی آرا ہی سامنے آ رہی ہیں جو انتہا پسندانہ یا یکطرفہ ہیں- کچھ لبرل و سیکولر دوست اسے ایک ہیرو کی طرح پیش کر رہے ہیں، اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اور کچھ دوست اس کے قتل کو جائز ثابت کر رہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو قتل کو تو برا کہہ رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ اسے بھی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ نا وہ ایسی حرکتیں کرتی نا قتل ہوتی-
یہ ضروری ہے کہ پہلے ان کے ماضی پر ایک نظر ڈالی جائے۔ ان کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا، ایک غریب گھرانے سے ان کا تعلق تھا اور معمولی پڑھی لکھی تھیں- ان کی شادی سترہ سال کی عمر میں ہوئی تھی جو بقول ان کے ان کی مرضی کے خلاف تھی اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا اس شادی سے- انہوں نے خاوند چھوڑا، بیٹا بھی اس کے پاس چھوڑا اور خود شو بز کی چمکتی دمکتی دنیا میں آگئیں- میں انسان ہوں کوئی فرشتہ نہیں، میں نے بھی ان کی کچھ وڈیوز دیکھ رکھی ہیں لیکن مجھے کبھی ان میں کسی بھی قسم کی کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی تھی بلکہ ہمیشہ دیکھ کر ایک دکھ اور افسوس کی کیفیت سے گزرنا پڑا-
میری ناقص رائے میں وہ نا تو کوئی خواتین کی نام نہاد آزادی کی کوئی چیمپئن تھیں نا ہی ہوس کی ماری ہوئی کوئی خاتون- مجھے وہ ایک نفسیاتی مریضہ نظر آئیں جو نجانے کن کن المیوں سے گزر کے اس مقام تک پہنچیں تھیں کہ اپنی ہر ویڈیو پر ہزاروں گالیاں کھاکر بھی پھر اگلی ویڈیو اپ لوڈ کر دیتی تھیں- نفسیات کی زبان میں اس رویہ کو sadistic کہتے ہیں اور بندہ اس مقام تک تب پہنچتا ہے جب وہ بہت بڑے المیوں سے گزر چکا ہو، پھر وہ اپنی اور دوسروں کی تکلیف سے خوشی کشید کرنا شروع کر دیتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے مریض ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہر ایک کا تکلیف دینے کا انداز الگ الگ ہوتا ہے- مثلاً ہمارے ایک جاننے والے ہیں، ان کا ایک ہی کام ہے کہ کسی بھی دوست کی پوسٹ پر انتہائی منفی اور غصہ دلانے والا کمنٹ تب تک کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ غصہ نا کر جائے، پھر ان کو ”ٹھنڈ“ پڑ جاتی ہے- خیر یہ تھوڑی کم شدید قسم ہے اس رویہ کی-
اس مسئلے کا دوسرا زاویہ معاشرتی ہے- قندیل بلوچ کا ایک خاندان بھی تھا، اس کے ماں باپ اور بھائی بھی تھے، ایک بیٹا بھی تھا اور سابقہ خاوند بھی- میڈیا کی مہربانی سے ان سب کے نام، پتے اور مکمل پس منظر بھی سامنے آگیا۔ اس سے پہلے اگر اس کے بھائی کے ارادے میں کوئی تذبذب تھا بھی تو وہ اس کے بعد ختم ہوگیا- اس کے بھائی نے انتہائی غلط حرکت کی قتل کرکے- کوئی دفاع ممکن نہیں- بغیر کسی اگر مگر اور لیکن ویکن کے اس قتل کی مذمت انتہائی ضروری ہے-
اس مسئلے کا اصل حل کیا تھا؟ قتل تو ہرگز نہیں تھا- نا ہی ایک نفسیاتی طور پر ڈسٹربڈ خاتون کو جو وہ کررہی تھیں، کرتے رہنا دینا اس کا حل تھا- حل یہ تھا کہ ریاست کا قانون حرکت میں آتا، میڈیا حرکت میں آتا، ریاست کے وہ طبقات حرکت میں آتے جو اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں- میری شدید خواہش تھی کہ جیسے وینا ملک صاحبہ کو مولانا طارق جمیل صاحب مل گئے تھے ویسے ہی ان کو مل جاتے مگر ان کی بدقسمتی کہ ان کو ملا بھی تو کون؟ مفتی عبدالقوی- اور قانون ان کو سزا دینے کے لیے حرکت میں نا آتا بلکہ ان کی بہتری کے لیے حرکت میں آتا، ان کا علاج کروایا جاتا، ان کی کونسلنگ کی جاتی، ان کا نفسیاتی معاینہ کروایا جاتا- ان کے مسائل کو حل کیا جاتا-
یہاں ایک نظریاتی غلط فہمی کا خاتمہ کرنا نہایت ضروری ہے- آزادی اور بے محابہ آزادی میں فرق ہوتا ہے- میں اس وقت یورپ میں اپنا آفس وقت ختم ہونے کے بعد یہ مضمون لکھ رہا ہوں، میں نے شارٹ اور ٹی شرٹ پہن رکھی ہے- پاکستان میں اس لباس میں آفس جانے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا- دوسری طرف یہاں میں ساحل سمندر یا سوئمنگ والے لباس میں آفس آنے کا بھی نہیں سوچ سکتا- آپ میرا نکتہ سمجھ رہے ہیں؟ دنیا میں کہیں بھی آزادی لامحدود نہیں ہے، نا ہوتی ہے- یہاں مغرب میں، سیکولر ملک میں، لبرل ملک میں بھی ایک خاص قسم کا ڈریس کوڈ مردوں تک کے لیے موجود ہے اور اگر میں اس کی خلاف ورزی کروں گا تو مجھے ہر کوئی عجیب نظروں سے ہی دیکھے گا- زیادہ ایسا کروں گا تو میرے دماغی توازن پر شک کیا جائے گا، اس معاملے کو میری آزادی نہیں قرار دیا جائے گا- قانون بھی حرکت میں آ جائے گا ایک خاص حد کے بعد- اسی طرح یہاں بوس و کنار کرتے ہوے کپل عام نظر آ جاتے ہیں مگر اس سے آگے جاتے ہوئے گزشتہ دو ڈھائی سال سے کوئی نظر نہیں آیا- کیوں؟ اب بات یہ ہے کہ دنیا کا کونسا قانون فیصلہ کر سکتا ہے کہ لباس یا رویہ کا یہ ضابطہ اخلاق جو یورپ میں ہے وہ درست ہے یا جو پاکستان میں ہے وہ درست ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دنیا کی کوئی شخصیت، قانون یا آئین آزادی کی حدود یا ضابطہ اخلاق کا فیصلہ نہیں کر سکتا- یہ کوئی یونیورسل قدر نہیں ہے- اس کا فیصلہ کرتے ہیں آپ کا علاقائی کلچر، مذہب، موسم، روایت، معاشرہ وغیرہ- صاحبان من ہر معاشرے کی ایک بنیادی اخلاقیات ہوتی ہیں، جب آپ ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ آپ اس قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،یا آپ کا دماغی توازن درست نہیں ہے اور یا آپ کو قانون کا پتا نہیں ہے- اور اس کا علاج یہی ہے کہ ریاست ماں جیسی ہو- جو اپنی بیٹی یا بیٹے کو جو کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہو تو اس کا علاج کرے، اگر قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے جان بوجھ کر تو سزا سنائے اور اگر لاعلمی وجہ ہے تو آگاہ کرے- قتل کرنا مسئلے کا حل نہیں، اپنے شہریوں کو اس بات کی تعلیم دے- جب ہم کسی کو جان سے محروم کر دیتے ہیں تو اسے بہتری کا موقع دینے سے محروم کردیتے ہیں، ہو سکتا ہے وہ خاتون مستقبل میں بہت نیک ہوجاتیں؟ الله معاف کر سکتا ہے تو اس کے بندے معاف کیوں نہیں کرسکتے؟ اور آخر میں ایک بار پھر میں وہی نکتہ دہراؤں گا جو اکثر دہراتا ہوں کہ ”انتہا پسند کسی بھی سمت کے ہوں، مذہبی ہوں یا سیکولر وہ ایک دوسرے کے وجود کی وجہ فراہم کرتے ہیں اور پورے ملک کے اجتماعی شعور کو یرغمال بنالیتے ہیں- قندیل بلوچ کو ہیروئن بناکر پیش کرنے والے یا اسے ایک ولن بنا کر پیش کرنے والے دونوں طبقات سے بچیں اور فوکس کریں کہ ہمارا ملک حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن سکے۔ یہاں غیر سیاسی پولیس ہو، یہاں طاقتور بلدیاتی نظام ہو، یہاں قانون کی حکمرانی ہو، یہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ سب مسائل اپنی موت خود مر جائیں گے- مثلاً اسلام یا سیکولر ازم کا نہیں ہے۔ مثلاً بنیادی چیزیں ٹھیک ہونے کا ہے“- الله فوزیہ عظیم صاحب کو آخرت میں آسانی عطا فرمائے، ان کی نیکیاں بڑھائے، گناہ معاف کرے اور انھیں بخشش سے نوازے جب کہ مجھ جیسے قتل سے پہلے خاموش تماشائیوں اور بعد میں گلے پھاڑنے والوں کو مناسب وقت پر آواز اٹھانے کی توفیق سے نوازے- آمین
جزاک اللہ