ہوم << جماعت اسلامی، دہشت گردی اور مودودی صاحب - ارمغان احمد

جماعت اسلامی، دہشت گردی اور مودودی صاحب - ارمغان احمد

زاہد مغل صاحب کی "دلیل" پر نہایت فکر انگیز تحریر نظر سے گزری۔ تحریر کا موضوع جماعت اسلامی اور مولانا مودودی صاحب تھے۔ صاحب تحریر کا بنیادی مدعا یہ تھا کہ مولانا مودودی صاحب کی تعلیمات میں ایسی کوئی چیز نہیں جس سے نوجوان دہشت گردی یا انتہاپسندی کی طرف راغب ہوں۔ اس لیے ایک مخصوص طبقے کی طرف سے ایک تواتر کے ساتھ ان پر لگائے جانے والے ایسے الزامات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نہایت منطقی، مدلل اور عام فہم انداز میں کچھ ایسے نکات پیش کیے جن سے میں سو فیصد متفق ہوں۔
ان کے چیدہ چیدہ دلائل ذیل میں پیش ہیں
ایک۔ جماعت اسلامی کوئی آج کی جماعت نہیں ہے ستر سال سے قائم ہے
دو۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی اصل وجہ جماعت کی تربیت نہیں بلکہ دنیا کے حالات ہیں ورنہ پہلے یہی لوگ تاریخی طور انتہائی پرامن رہے ہیں
تین۔ اگر ایک ہی بیج مختلف موسموں میں مختلف پھل دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ موسم بھی بہت حد تک ذمہ دار ہے
زاہد صاحب! شکریہ. اس اہم موضوع پر قلم اٹھانے کے لیے۔ میں آپ کے بیانیے سے مکمل طور پر متفق ہوں۔ اس مضمون سے بنیادی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مودودی صاحب کی فکر میں ایسا کچھ نہیں ہے، واقعی میں۔ البتہ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب نوجوان پورے خلوص کے ساتھ ایک ایسی اسلامی تنظیم میں کام کرتے ہیں جو غلبہ اسلام جیسے اعلی مقصد کے لیے وجود میں لائی گئی ہو، اور اس جماعت کے کرتا دھرتا ہمیشہ کچھ ایسی پالیسیوں پر رہتے ہیں جن کی وجہ سے کامیابی نہیں مل پاتی تو فریسٹریشن میں نوجوان بالکل ایسا سوچ سکتے ہیں کہ شاید یہ طریقہ درست نہیں نفاذ اسلام کا، اسی لیے اتنے عرصے کے باوجود کامیابی نہیں مل پا رہی۔ اس کیفیت میں نوجوان انتہا پسندی اور تشدد کی طرف راغب ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس بنیادی چیز کی طرف توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں فدوی نکات پیش کرنے سے پہلے کچھ وضاحتیں کرنا چاہے گا تا کہ ہمارے نکات اور گزارشات منفی نہ لیے جائیں
ایک۔ میں نا تو دیسی لبرل ہوں نا سیکولر
دو۔ میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے حق میں ہوں
تین۔ میں جماعت اسلامی میں یہ پوٹینشل دیکھتا ہوں کہ وہ ترکی کی حکمران جماعت کی طرح پاکستان کو درست سمت میں ڈال سکتی ہے
چار۔ میں نہ تو سیکولرازم کے حق میں ہوں نہ ملائیت کے
اب جماعت اسلامی کو ایک پرخلوص دوست کے کچھ مشورے
آپ نے اپنے نوجوان کی تربیت کرتے ہوئے خصوصی توجہ دینی ہے کہ وہ خود کو یا اپنی جماعت کو باقی سب سے برتر نہ سمجھے۔ یہ خصوصی طور پر ایک مذہبی جماعت کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے، نری سیاسی جماعت میں برداشت کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے یہ رویہ، مذہبی جماعت میں تو نشہ دو آتشہ کرنے والی بات ہے۔
دوسرا آپ نے یہ ذہن میں بٹھانا ہے نوجوان کے کہ اگر کامیابی نہیں مل رہی تو اس کا قصوروار ہمارا پرامن طریق کار نہیں بلکہ ہماری اپنی کمزوری ہے۔ ہماری شخصیت اور کردار ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ ہم میں کشش محسوس کریں اور خود ہی ہماری طرف بڑھے چلے آئیں۔ اس کے لیے عاجزی، خود احتسابی اور دوسروں کو خود سے بہتر سمجھنا اولین حیثیت رکھتا ہے۔
تیسرا آپ کو لٹمس ٹیسٹ بتا دیتے ہیں کہ جماعت اسلامی جب مین سٹریم سیاست شروع کرے گی جو عوامی امنگوں کی ترجمان ہو گی تو جو بھی حکمران جماعت ہو، نون لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، ان کی توپوں کا رخ تحریک انصاف سے زیادہ جماعت اسلامی کی طرف ہو جائے گا۔ اس کے لیے ایک طرف کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ اور دوسری طرف کرپشن کے بادشاہ کے ساتھ کشمیر میں انتخابی اتحاد جیسی حرکتوں سے اجتناب کرنا لازم ہو گا۔
چوتھا منور حسن صاحب نہایت محترم شخصیت ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی بحیثیت مجموعی ان کی فکر سے متفق ہوتی تو سراج صاحب اتنی جلدی امیر نہ بن جاتے بلکہ قاضی صاحب کی طرح لمبے عرصہ تک امارت کے عہدے پر فائز رہتے۔
پانچواں یہ کہ عمران خان نے جس پڑھے لکھے طبقے کو سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا ہے، ان کو "مشرف بہ جماعت" کرنے کی آپ کی خواہش جائز اور سمجھ میں آنے والی ہے۔ مگر اس کے لیے آپ کو عمران خان کو غلط یا ناکام ثابت کرنے نہیں بلکہ خود کو بہتر اور درست ثابت کرنے پر فوکس کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں فدوی اپنی ذاتی مثال پیش کرتا ہے کہ اپنی نوکری کو خطرے میں ڈال کر گزشتہ عام انتخابات میں ہم جماعت اسلامی کا ممبر نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے لوگوں کو کنونس کرتے رہے تا کہ عمران خان نہ سہی جماعت اسلامی کو ہی آزما لیں۔ نیا آپشن آزما لیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے جماعت اسلامی کے بہت سے دوستوں کا اپنے ہی اتحادیوں سے رویہ دیکھ کر دل کچھ اچاٹ سا ہو گیا ہے جماعت سے ورنہ کے پی کے احتساب ایکٹ میں تبدیلی کی وجہ سے بطور سزا عمران خان کو اگلا ووٹ نہ دینے کا فیصلہ میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ ظاہر ہے میرا اکیلا ووٹ آپ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہو گا مگر مجھ جیسے نجانے کتنے ہی اور ہوں گے۔
آخری عرض یہ ہے کہ "اینٹی اسٹیبلشمنٹ" ہونے کا سب سے اچھا طریقہ بخشو بخشو، امپائر امپائر کی گردان نہیں ہے بلکہ پرفارمنس ہے بطور ایک سیاسی جماعت۔ آپ غیر سیاسی پولیس، خودمختار بلدیاتی حکومتیں وغیرہ قائم کر لیں تو آپ کو کسی بھی شکوے، شکایت، سازشی تھیوری وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مجھے امید ہے کہ جماعت اسلامی کے دوست میری معروضات کو مثبت اور تعمیری انداز میں لیں گے۔ شکریہ بہت بہت