ہوم << بقا کی جنگ - قاضی حارث

بقا کی جنگ - قاضی حارث

13713507_10205280484611378_968149985_nپہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک دور سرد جنگ کا بھی شروع ہوا. یہ سرد جنگ دراصل نظاموں کی جنگ تھی جو ابھرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹلزم) اور اشتراکیت (سوشلزم) کے مابین تھی جو بالترتیب امریکہ و سوویت یونین میں رائج تھے۔ یہ سرد جنگ سوویت یونین کے ٹوٹنے پر ختم ہوئی اور کیسے ختم ہوئی، کیا فوائد اور کیا نقصانات ہوئے اس کی بحث میں پڑے بغیر میں اصل بات بتانا چاہوں گا کہ اس کے بعد 1989 سے ایک دور شروع ہوا جسے "گلوبلائزیشن" کا نام دیا گیا۔
گلوبلائزیشن کا مقصد پوری دنیا کے انسانوں کو ایک جیسا بنانا تھا تاکہ مابین جنگ و جدال ختم کیا جاسکے۔ ہوموجینس سوسائٹی کے نام پر دنیا کو سب سے بڑا فریب یہ دیا گیا کہ معاشی طور پر طاقتور ممالک نے کمزور ممالک کو قرضوں وغیرہ کے نام پر غلام بنانا شروع کیا۔ مانیٹری پالیسی اور فوجی حکمت عملیاں اپنے ہاتھ میں لے کر ان کو نہ صرف معاشی طور پر کمزور کیا گیا بلکہ ان کی پالیسیاں بھی کمزور کی گئیں مبادا ترقی کرلیں۔
پوری دنیا میں ایک جیسی سوسائٹی کے نام پر سب سے بڑا فریب یہ دیا گیا کہ دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی اور باقی لوگ ان چند ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئے۔ ٹیکنالوجی کا منبع مغرب قرار پاگیا کیونکہ اس کے لیے کافی و وافی زر مبادلہ کے ذخائر یا انویسٹمنٹ مشرقی ممالک میں غریب ممالک کے پاس نہ تھی۔ راستے میں جہاں رکاوٹ نظر آئی اسے بمباری کرکے یا بلڈوزر پھیر کر برابر کیا گیا۔ بعض ممالک کے تختے الٹنے پڑے، بعض حکمرانوں کو قتل کرانا پڑا۔ بعض جگہ بغاوتیں کرائی گئیں اور نہ جانے کیا کچھ!!
پوری دنیا کے انسانوں کو ایک جیسا بنانے کےلیے عالمی طور پر حکمت عملیاں ترتیب دی گئیں، زور و شور سے کام شروع کیا گیا۔ بلینز آف ڈالرز کا خرچہ کیا گیا۔ پوری دنیا میں برانڈز کو پھیلایا گیا۔ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مکڈونلڈ اور کے ایف سی تقریبا ایک ہی قیمت میں فراہم کیےگئے۔ پوری دنیا نائکی کے شوز پہنے، پوری دنیا کوٹ پیٹ پہنے، پوری دنیا زارا کے کپڑے پہننے میں فخر محسوس کرے، سب خواتین لوریلز کی پراڈکٹ استعمال کریں وغیرہ وغیرہ۔
اس کے لیے جو سب سے بڑی رکاوٹ ان کو نظر آئی وہ مذہب اور نظریات تھے۔ انھوں نے پوری دنیا میں سیکولرزم کا نعرہ لگایا اور یہ انسان کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ اپنا تختہ قدرت بڑھانے کے لیے کیا گیا تاکہ دولت اور ٹیکنالوجی میں پوری دنیا ان کی غلامی میں رہے۔ سوسائٹی سے مذہب کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے تمام ممالک میں سیکولرز کا رجحان اور موافق حالات پیدا کیے اگرچہ اس کے لیے سینکڑوں لاشیں گرانی پڑیں، کہیں مسلمانوں کی تو کہیں غیر مسلمانوں کی۔ نظریات کو بدلنے اور ترجیحات کو معلوم کرنے کے لیے انہوں نے موبائل اور ٹیکنالوجی کو فروغ دیا تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی اور ترجیحات معلوم کرکے اسی مطابق گلوبلائزیشن پر کام کیا جاسکے۔
وائے ناکامی! کہ افغانستان کی جنگ میں معاشی طور پر نقصان کے بعد انھیں پے درپے ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کا ظہور تین دن پہلے ترکی میں بھی ہوا۔
اس وقت ان کی سب سے بڑی کوشش مذہب سے وابستہ لوگوں کو مذہب سے متنفر کرنے کی ہے تاکہ وہ سب مل کر ان کی غلامی میں آجائیں لیکن ہم اس ایک ہستی کے غلام ہیں جس نے دنیا کو تخلیق کیا اور جو دنیا کا اصل مالک و خالق ہے۔ لوگوں کو مذہب سے دور کرنے کے لیے باقاعدہ پراجیکٹ شروع کیے گئے جن پر سرمایہ لگایا گیا جن کی تفصیل پھر کبھی ان شاء اللہ۔

Comments

Click here to post a comment