ہوم << توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسمِ سامری - ہمایوں مجاہد تارڑ

توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسمِ سامری - ہمایوں مجاہد تارڑ

ہمایوں تارڑ راقم نے دیکھا ہے کہ نوع بہ نوع مسائل جوں جوں سر اٹھاتے ہیں، توں توں انسانی معاشروں میں برسرِ پیکار طاقتور آوازوں میں سے کوئی ایک آواز پیغمبرانہ لب و لہجے کی حامل ”برہانِ قاطع“ بن کر اُبھرتی اور ساری بحث گویا لپیٹ ڈالتی ہے، جس کے مقابل دیگر آوازیں کبوتروں کی سی نیم آہنگ غٹر غوں میں بدل جاتی، اپنی تاثیر کھو دیتی ہیں۔ عاطف حسین کی شاہکار تصنیف ”کامیابی کا مغالطہ“ سحرالبیان موٹیویشنل سپیکنگ کی ایمپائر کو چیلنج کرتی ایک ایسی ہی کاٹ دار آواز ہے۔ اسے پڑھ کر بےساختہ علّامہ کا شعر یاد آیا:
کیے ہیں فاش رموز قلندری میں نے
کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
اور آپؒ کا وہ مشہور مصرعہ کہ: توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسمِ سامری
جی ہاں، فی الحقیقت یہ ہے وہ ”لائف چینجنگ“ بُک جو فی الفور ایسے تمام خواتین و حضرات کے پاس ہونی چاہیے جو زندگی کے کسی بھی مرحلہِ ذوق و شوق میں مایوس نہیں ہونا چاہتے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ایک اچھی کتاب وہ ہے جس کے مطالعہ کے بعد آپ وہ نہ رہیں، جو کتاب پڑھنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ یقین جانیں یہ سحر طراز ”بول کار“ جس ”پیغمبرانہ“ مسند پر خود کو براجمان کیے ”حشرات الارض“ سے خطاب کرتے ہیں، اب مضحکہ خیز لگنے لگا ہے۔ یوں جیسے موسلا دھار بارش کے بعد گرد آلود فضا ایکدم شفّاف ہوجاتی ہے، اور نیلگوں آسمانی چھتری صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔
میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ”کامیابی کا مغالطہ“ بارے غلغلہ اس سے کہیں زیادہ بلند آہنگ ہونے کا مستحق ہے، جتنا کہ اِس گزرتی ساعت تک ہوا۔ یہ حقیقتاً ایک سحر پاش کاوش ہے جس پر خالی خولی جذباتیت سے یکسر قطع نظر ”معرکۃ الآرا“ ایسا لفظ بہ آسانی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ ایمل پبلیکیشنز کے سربراہ شاہد اعوان صاحب نے اب تک لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں اس کی تقریب رونمائی بارے کیوں کوئی اہتمام نہیں کیا۔ یا برادرعامر خاکوانی نے (کہ جنہوں نے ٹرمپ کامیابی بارے تاثرات رقم کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں اس کتاب کا ذکر جلی حروف میں کیا) اس کو ہائی لائٹ کرنے سے متعلق کیوں کوئی آئیڈیا فلوٹ نہیں کیا؟ یا عاصم اللہ بخش اور احمد جاوید صاحب ایسی محترم المقام شخصیات جن کے تعریفی کلمات کتاب میں بہ اہتمام شائع کیے گئے ہیں، نے کیوں اِس خاطرمحض ایک آدھ تعریفی نوٹ پر ہی اکتفا کیا؟
یقین جانیں، کم سے کم بھی، یہ کتاب جامعات کے نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔ وہ بھی یوں کہ ideally speaking اس کو کسی ایک شعبہ کے ساتھ منسلک یا مخصوص نہ کیا جائے، بلکہ تمام شعبہ ہائے علوم سے وابستہ طلبہ و طالبات کے لیے اس کتاب کا مطالعہ یکساں طور پر لازمی قرار دیا جائے۔ کتاب کے مواد پر ایک آدھ Quiz ڈیزائن کر لینے کا اہتمام برتنا بھی اس کا حق ہے۔ اخلاص اور مستند ریسرچ پر مبنی یہ دانشورانہ رہنمائی مستقبل کے معماران کے لیے ایک چھوٹی بائبل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ کہوں تو اس شاندار تصنیف کے لیے حکومتی سطح سے چھوٹے موٹے ایوارڈ تک کا سوچا جانا چاہیے۔ میں یہ الفاظ لکھتے ہوئے حد درجہ محتاط ہوں کہ کچھ مبالغہ نہ ہو جائے لیکن یہ مبالغہ نہیں، جو کوئی اس کتاب کو ایک بار پڑھنے کی زحمت گوارا کر لے گا، مجھے یقین ہے وہ ناچیز کی رائے سے اتفاق کرے گا۔
اس تصنیف کی ایک نمایاں خوبی اس کے مواد کی ہمہ گیریت ہے۔ دورانِ مطالعہ جو ممکنہ سوالات ایک فتنہ جُو انسانی دماغ ابھار سکتا ہے، انہیں چابکدستی سے گھیر لیا گیا ہے۔ یوں جیسے ایک نکتہ پر پیش کردہ استدلال اور اس کی عالمانہ تشریح و تفسیر کے فوری بعد قاری کے ردّ عمل یا ری فلیکس ایکشن کو مصنّف خود ہی بھانپ لے اور یکلخت، اگلے نکتہ پر سُوِئچ کرنے کا مواد اپنی جانب سے پیش کرنے کے بجائے، قاری کے ذہن میں اُٹھے سوال کا جواب دینے کے عمل سے اُٹھائے۔ یہ ذہانت اور حساسیت کی انتہا ہوتی ہے کہ آپ دیکھنے، سننے، پڑھنے والے کی حسیات کے ساتھ ایسے جڑے ہوں کہ ان کا پورا ادراک رکھتے ہوئے بات کو آگے بڑھائیں۔ فرانسس بیکن نے بلاوجہ نہیں کہہ دیا تھا کہ:
Writing makes a man perfect.
ایک عمدہ و جامع تحریر ذہنِ انسانی کی معراج ہے گویا۔ اور برادر عاطف کا یہ کام اسی معراج کو چھوتا نظر آتا ہے۔ آزمائش شرط ہے! یوں، اپنی کہوں تو شاید ہی کوئی سوال ہو جو تشنہ رہ گیا ہو۔
”کامیابی کا مغالطہ“ موٹیویشنل سپیکرز کے پھیلائے مغالطہ ہائے کامرانی کے میل کچیل کی زد میں آئے ا ذہان کے لیے وہ دھوبی گھاٹ ہے جہاں سے وہ صاف شفّاف، ہشاش بشاش ہو کر نکلیں گے، ان شااللہ! یہ تصنیف وہ کلینک ہے جہاں ڈرگ ایڈکٹس کا شافی علاج کیا جاتا ہے۔ یہ وہ منتروں کا شہنشاہ منتر ہے جو موٹیویشنل سپیکرز کی دانش گاہوں سے پھوٹنے والےسحر آفریں اقوالِ زرّیں کے ”زیرِاثر“ حضرات و خواتین کے لیے سورۃ النّاس کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ وہ اسمِ اعظم ہے جو فسوں زدہ ”پتھر بنے“ یعنی سحر زدگاں کو واپس انسانی رُوپ میں ڈھال دینے کی یقینی تاثیر لیے ہے۔ یہ اسمِ اعظم ہاتھ آ جانے پر، مستقبل میں بھی، ایک پروٹیکٹو شیلڈ کا کام دے گا۔ یہ ایک ویل ریسرچڈ تھیسس ہے جو اس نام نہاد لائف چینجنگ سیلف ہیلپ کے صنم کدے میں ابراہیم کی صدائے لا الہ ہے۔ عاطف حسین نے خالصتاً عقلی، علمی، تجربا تی، حقیقی اور تحقیقاتی بنیاد پریہ ثابت کیا ہے کہ اس کمبخت لا آف اٹریکشن کی علمی بنیادیں سخت کمزور اور مخدوش ہیں۔
”یہ محض چند ذہنی محدودات کا پیدا کیا ہوا سراب ہے جس کے پیچھے بھاگنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے کا۔“
محنت کو صرف دنیاوی خوشحالی کے حصول کا ذریعہ ہونے کا تصوّر بنا کر رکھ دینا، اور زیرِ ورکشاپ Victims کو چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں سجائے رکھنے اور مصنوعی ملمّع کاری ایسے بعض عادات و خصائل کو اپنا لینے کی تربیت دینا، ”گول“ لکھوانا اور مادّی اشیا کے تعاقب میں بھگوانا خلافِ فطرت بات ہے۔ ایک ایسا مبالغہ ہے جس کی حقیقت سے یہ ہادیانِ عصر خود بھی ناواقف ہیں۔ وہ اسی کو حقیقت خیال کرتے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر بیچارے توجیہات اور وضاحتیں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ عاطف حسین نے منطق، دلیل، تحقیق اور مثال سے بہ خوبی سمجھایا ہے کہ:
”مثبت خیالات کی کرشماتی طاقتیں محض افسانہ ہیں، اور رجائیت پر بےجا اصرار نقصان دہ۔ اسی طرح کامیابی کے نام نہاد اصول اور ٹوٹکے بےکار اور لایعنی ہیں۔ محض کچھ عادات اپنا کر کوئی امیر نہیں بنتا، نہ ہی ان کو ترک کر نے سے کوئی غریب ہوتا ہے۔ اس نوع کا پرچار لوگوں کے لیے مفید ثابت ہونے کے بجائے الٹا انہیں ڈپریشن کا شکار کیے دیتا ہے۔ اپنی قسمت کا مالک ہونے کا نظریہ محنت کو ایک اخلاقی قدر کے مقام سے گرا کر محض حصولِ مال کے ٹول کے بطور پیش کرتا ہے جو اگر مطلوبہ نتائج پیدا نہ کرے تو بے کار ہی سمجھا جائے گا۔ اس کے برعکس قسمت کی حاکمیت کے تصوّر پر یقین رکھنے والا محنت کے مثبت یا منفی نتائج سے قطع نظر اپنی محنت کے عمل پر فخر اور اس سے خوشی کشید کر سکتا ہے۔“
راقم کے نزدیک یہ تصنیف وہ عصائےموسٰی ہے جس کے روبرو طلسمِ سامری بے بس نظر آئے۔ سحرالبیان دنیائے موٹیویشنل سپیکنگ کیطرف سے ارزاں کیے جانیوالے سنہری قوانین، اور اسرار و رموز کا سودا خرید چکے اور چُکنے کے لیے پُرعزم نوجوانانِ ملّت یہ تحریرضرور پڑھیں، جیسا کہ اس کے ٹائٹل سے ہی عیاں ہے، یہ آپ کو ”کامیابی کے گُر“ سکھانے کا دعوٰی نہ رکھنے والی کتاب ہے۔ ہے نا حیرت کی بات!
البتہ یہ آپ کو مایوس ہونے سے بچانے کا بھرپور دعوٰی رکھتی ہے۔ یہاں واصف علی واصف مرحوم کی ایک خوبصورت سٹیٹمنٹ کا حوالہ بنتا ہے۔ فرمایا: ”خواہش پوری کرنے والا بزرگ اور ہے، خواہش سے نجات دلانے والا اور۔“ عاطف حسین خواہش سے نجات دلانے والا بزرگ ہے۔ یعنی اصلی والا پیر۔ نقلی پِیروں سے ہشیار رہیے!
اس کے ناشر شاہد اعوان کے اپنے الفاظ بھی غور طلب ہیں:
”مثبت سوچ“ کا منجن بیچنا خود ان سپیکرز اور ٹرینرز کے حق میں تو بہت ”مثبت اور کارآمد“ ثابت ہوتا ہے، مگر سامعین کو ایک فوری، یا اکثر تاخیری ڈپریشن، گِلٹ، غیر حقیقی آدرش اور منفی اثرات کا شکار کر چھوڑتا ہے۔ یہ جدید جہلا کارپوریٹ کلچر کے وہ آلے (Tools) ہیں، جو زبانِ غیر کے منہ زور گھوڑے پر سوار مانگے کے افکارِ مایہ کو ”مایہ“ کے لیے سونا بنا کر اپنے ہی ہم وطنوں کو مرعوب کر کے تالیاں پٹواتے ہیں۔ جعلی تحقیقات کے حوالے اور تیسرے درجہ کے لکھاریوں کے ادھ کچرے خیالات کی جگالی، بدن بولی، متاثر کن حلیہ اور سامعین کی نفسیات سے کھیلنے کی جادوگرانہ تراکیب ان کا کل اثاثہ ہوتی ہیں۔“
کتاب کے مصنّف، عاطف حسین، نے اِن ٹرینرز کی جعلی یا غیر مستند تحقیقات پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اور اپنے بیانیہ کی تصدیق کے لیے خود مغربی دنیا سے بھی مضبوط مواد پیش کیا ہے، جو بہت اپیل رکھتا ہے۔
المختصر:
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر

Comments

Click here to post a comment