نہ جانے کس شاعر کا قول ہے؛
یہ وفا تو اُن دنوں کی بات ہے فراز
جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
میں اتنا پرانا تو نہیں پر مزے کی بات یہ ہے کہ میرا جنم بھی ایک کچے سے مکان میں ہوا تھا. اس دور میں جب ہمارے گاؤں میں لائٹ کا چمتکار ابھی نہیں ہوا تھا، البتہ آس پاس کے گاؤں میں لائٹ پہنچ چکی تھی. اس دور میں ہسپتالوں کا بھی اتنا کوئی خاص رواج نہیں تھا، اس لیے میں شرافت سےگھر پر ہی پیدا ہوگیا، بنا کسی ہسپتال خرچ کے. آج کل تو بچے ہسپتالوں کے بنا پیدا ہی نہیں ہوتے، جب تک ڈاکٹروں کو لاکھ ڈیڑھ لاکھ نہ پکڑاؤ تو بچے نے پیدا ہونے سے ہی انکار کر دینا ہے. آج ہم اسی لیےتو بڑے بڑے کرپٹ حکمرانوں کو برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں پیدا ہوتے ہی کرپشن کا پہلا ٹیکہ ڈاکٹر لگا دیتا ہے.
تو بات ہو رہی تھی پرانے لوگوں کی اور کچے مکانوں کی، پرانے دور کی. شاعر نے بالکل درست فرمایا، ایسا ہی ہوا کرتا تھا پہلے مکان کچے اور لوگ من کے سچے ہوا کرتے تھے، لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوتا تھا، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے تھے، ایک دوسرے کا احساس کا ہوتا تھا، لوگ وفادار، ایماندار اور امانت دار ہوا کرتے تھے. لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، کھیتی باڑی اور مزدوری کے علاوہ کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں تھا، مگر جو چیز پائی جاتی تھی وہ خلوص تھا. لوگ مہمان نواز ہوا کرتے تھے، وہ مہمان کو دیسی گھی, مکئی کی روٹی اور ساگ بھی پیش کر تے تو اس میں خلوص اور محبت کا بھرپور تڑکا شامل ہوتا، جو کھانے کو اور ذائقے کو چار چاند لگا دیتا.
اُس دور میں محبتیں بھی سچی ہوا کرتی تھی، عاشق لوگ تو کئی کئی دن گلی کی نکڑ پر اسی آس میں گزار لیتے کہ آج وہ یہاں سے گزرے گی اور دیدار یار ہوگا. آج کل کی طرح نہیں، کمنٹ کے اندر لڑکی سے بات کی، ایک دو ٹویٹ کا ریپلائی ہوا، انباکس میں گئے، لڑکی نے مسکرا کر دو باتیں کیں، اور محبت ہوگئی. اس دور میں آج کی کی طرح بے حیائی اور بے شرمی نہیں پائی جاتی تھی کہ ہر آتی جاتی کے اوپر نمبر پھینک دیا، ہر آتی جاتی کو چھیڑ دیا. اس دور میں محبت کے رشتے پاک اور محبوب بھی ایک ہی ہوتا تھا. آج کل تو ہر لڑکے اور لڑکی کے ایک دو درجن افیئر ہوں گے، اس کے بعد جا کر کہیں شادی ہو بھی گئی تو اتنی کامیاب نہیں ہوتی. آج کے لڑکے تو پیدا ہوتے ہی پہلی آنکھ نرس کی انگلی پکڑ کر مار لیتے ہیں. پھر شادی تک افئیر کی سینچری مار کر حاجی ثناءاللہ بن جاتے ہیں.
پہلے کے دور میں سیدھا منہ پر جا کر اظہار محبت نہیں کیا جاتا تھا، محبت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے، لوگ شرمیلے ہوا کرتے تھے. اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ ایک لڑکی کا سامنا کیا جائے. اپنے محبوب سے اظہار محبت کے لیے خطوط کا استعمال کیا جاتا تھا. اگر محبوب ان پڑھ ہے تو وہ کسی پڑھے لکھے دوست سے خط لکھواتا. خط بھی یوں ہی ایک دم سے نہیں لکھ دیا جاتا، بار بار لکھا اور مٹایا جاتا، بہترین اور تہذیب یافتہ الفاظ کا چناؤ کیا جاتا، ایک دو دن کی کڑی محنت کے بعد اس خط کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا جو کہ بظاہر آسان مگر کھٹن کام ہوتا. اسی طرح اگر محبوبہ پڑھی لکھی نہ ہوتی تو وہ اپنی کسی سہیلی کا استعمال کرتی. خطوط کی نقل و حرکت اور محبوب تک رسائی کے لیے چھوٹے بچوں کو بطور ڈاکیہ کے استعمال کیا جاتا اور بطور نذرانہ چند فانٹا ٹافیاں عنایت کی جاتی. چھوٹو ڈاکیہ بھی اپنا کام انتہائی چالاکی اور ایمانداری سے سرانجام دیتا اور اس تمام کارروائی کو وہ ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتا. پھر اس تمام کاروائی کے بعد محبوب اپنی محبوبہ کے جوابی خط کا انتظار کرتا. اس خط کا جواب کسی ایس ایم ایس کی طرح فوراً سے نہیں آجاتا تھا، اس کے جواب میں بھی ہفتہ دو ہفتہ لگتے تھے. یوں خط و کتابت کے ذریعہ دل کا حال بیان کیا جاتا اس میں شعر و شاعری کا عنصر بھی ہوتا اور ایک دوسرے سے ملنے کی جگہ اور وقت کا تعین بھی اسی خط کے ذریعہ ہوتا. الغرض اتنی محنت کے بعد حاصل ہونے والی محبت خالص اور سچی ہوا کرتی تھی. اگر محبوب دور دراز کہیں ذریعہ معاش کی خاطر چلا جاتا تو محبوبہ سے وہاں سے خط و کتابت ہوتی، ایک دوسرے کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا، سالوں سال محبوبہ اپنے محبوب کے انتظار میں گزار لیتی. آج کل تو یہ مشہور ہے کہ گھوڑا اور لڑکی کو باندھ کر رکھو، نہیں تو کوئی اور لے جائے گا. میرا ایک دوست جوش میں آ کر تبلیغ پر چلا گیا، 10 دن بعد واپس آیا تو لڑکی کہیں اور ٹانکا فٹ کر چکی تھی. 10 دن بھی انتظار نہ ہوا اور پھر دوست نے بھی اگلے دن نئی جگہ دل لگا لیا. یوں پہلے کے زمانے میں لوگ سادہ لوح اور من کے سچے ہوا کرتے تھے اور ان کا عشق بھی سچا ہوا کرتا تھا. اسی لیے آج کل ہیر رانجھا، لیلی مجنوں، شیریں فرہاد جیسے لوگوں نے پیدا ہونا ہی بند کر دیا ہے..
یوں وقت تیزی سے بدلتا گیا اور لوگ وقت سے بھی تیز نکلے. پی ٹی سی ایل کا دور آیا، انٹرنیٹ آیا، فاصلے کم ہوتے گئے اور ساتھ ساتھ انسانوں کی آپس کی محبت بھی کم ہوتی گئی. مزید وقت گزرا، سمارٹ فون اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو مزید قریب کر لیا، اس طرح انسان ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے، پر افسوس کہ بظاہر ہی قریب ہیں صرف، دور سے قریب نظر آتے ہیں.
پہلے کے دور میں جھوٹ بولنے کے ذرائع بھی نہیں تھے اس لیے لوگ سچے ہوا کرتے تھے. آپ کسی سے ملنے جاتے، وہ گھر پر ہی ملتا اور آج کل کسی سے ملنے جاؤ اور کال کرو آپ کی طرف آ رہا ہوں، آگے سے جواب ملے گا بھائی میں تو گھر پر نہیں جبکہ ہوگا گھر پر ہی. یوں موبائل فون نے جھوٹ بولنا مزید آسان کر دیا. میرے ایک دوست نے فیس بک پر چیک ان کیا اور لکھا eating pizza at pizza hut ، اگلے ہی لمحے دیکھا وہ ڈھابہ ہوٹل پر میرے سامنے بیٹھا چنے کی دال سوت رہا تھا.
پہلے لڑکیوں میں کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، گھر سے اکیلے باہر نکلنے کو عیب سمجھا جاتا تھا ، سکول کالج بھی جاتی تو آتے جاتے کسی سے بات کرنے کی مجال نہیں ہوتی تھی، غرض شرم و حیا کا پیکر ہوا کرتی تھی لڑکیاں، آج کل کی لڑکیاں تو میرے جیسے کو بیچ کر کھا جائیں اور کانوں کان خبر تک نہ ہو. حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ آج ہر لڑکی کی دوسری لڑکی سے ریس لگی ہوتی ہے کہ کس کے دوست زیادہ ہیں. پہلے کسی سے بات کرنے کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور آج کل ایک میسج کرو، ان باکس میں چلے جاؤ، اگلے ہی لمحے ویڈیو کال، اور پھر محبت کا اظہار کر لو . مسئلہ ہی کوئی نہیں...
پہلے ایک ہی محبوب ہوتا تھا. آج کل فیس بک فرینڈ الگ، یونی فرینڈ الگ، فیملی فرینڈ الگ اور پانچھ چھ عدد بوائے/گرل فرینڈز الگ..
پہلے بریک اپ ہوتے تو لوگ سالوں تک غم مناتے تھے. آج کل پہلے دن دوستی ہوئی، دوسرے دن محبت، تیسرے دن لڑائی، چھوتے دن بلاک اور پانچویں دن تھوڑے سے آنسو چھٹے دن کوئی دوسرا سہارا دیتا ہے، ساتویں دن چھٹی ہوتی ہے اور سوموار کے دن نئے جذبے کے ساتھ نئی محبت شروع ہو جاتی ہے...
پہلے کی محبت بھی دیسی گھی کی طرح خالص اور اس میں خالص شہید کی جیسے مٹھاس ہوتی تھے. آج کل کی محبت میں آج کل کے گھی اور شہد کی طرح ملاوٹ پائی جاتی یے.
میرے چچا جی کہا کرتے تھے کہ چھوڑو یار تم ڈالڈے کے فارمی جوان تو کسی کام کے نہیں، مجھے تو ڈالڈا بھی برابر کا قصور وار لگتا ہے.
پہلے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوا کرتا تھا، اور آج کل لوگ گھر والوں سے بات نہیں کریں گے، پاس بیٹھے دوستوں سے بات نہیں کریں گے مگر میلوں دور بیٹھے کچے دھاگے اور ایک بلاک کی دوری پر بنے ہوئے ریلیشن نبھائیں گے.. ایک بار کزن نے ہم پانچ دوستوں کی تصویر لی اور فیس بک پر ڈال دی. ہم پانچ کے پانچ کافی دیر سے حضرت مولانا موبائل صاحب کے احترام میں گردن جھکائے مگن تھے. مجال ہے کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی زحمت کی ہو.
تو بات ہو رہی تھی وفا کی... وفا نام کو تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اتنا بدنام کر دیا کہ پوچھو مت. جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب کیا وہیں دور بھی کیا. آج کل معاشرے میں لڑکیوں کا گھر سے بھاگ جانا اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو جانا اسی سوشل میڈیا کا دیا ہوا تحفہ ہے، وفا نام کی چیز کو تو لوگوں نے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا.
تبصرہ لکھیے