ہوم << الیکٹرانک ریلیشنشپ. عرباض احمد شاہ

الیکٹرانک ریلیشنشپ. عرباض احمد شاہ

نہ جان کونسا شاعر کہتا ہے :
"یہ وفا تو ان دنوں کی بات ہے فراز_ _ _!
جب مکان تھے کچے اور لوگ تھے سچے "
میں اتنا پرانا تو نہیں پر مزے کی بات یہ ہے کہ میرا جنم بھی ایک کچے سے مکان میں ہوا تھا. اس دور میں جب ہمارے گاؤں میں لائیٹ کا چمتکار ابھی نہیں ہوا تھا البتہ آس پاس کے گاؤں میں لائیٹ پہنچ چکی تھی. ،
اس دور میں ہسپتالوں کا بھی اتنا کوئی خاص رواج نہیں تھا، اس لیئے میں شرافت سے گھر پر ہی پیدا ہوگیا بنا کسی ہسپتال خرچ کے.
آج کل تو بچے ہسپتالوں کے بنا پیدا ہی نہیں ہوتے، جب تک ڈاکٹروں کو لاکھ ڈیڑھ لاکھ نہ پکڑاؤ تو بچے نے پیدا ہونے سے ہی انکار کر دینا ہے.
آج ہم اسی لئےتو بڑے بڑے کرپٹ حکمرانوں کو برداشت کر لیتے کیونکہ ہمیں پیدا ہوتے ہی کرپشن کا پہلا ٹیکہ ڈاکٹر لگا دیتا ہے..
تو بات ہو رہی تھی پرانے لوگوں کی اور کچے مکانوں کی، پرانے دور کی.
شاعر نے بالکل درست فرمایا، ایسا ہی ہوا کرتا تھا پہلے مکان کچے اور لوگ من کے سچے ہوا کرتے تھے، لوگوں کے پاس ایک دوسرے کیلئے وقت ہوتا تھا، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے تھے، ایک دوسرے کا احساس ہوتا تھا، لوگ وفادار، ایماندار اور امانت دار ہوا کرتے تھے.
لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کھیتی باڑی اور مزدوری کے علاوہ کوئی خاص زریعہ معاش نہیں تھا، مگر جو چیز پائی جاتی تھی وہ خلوص تھا. لوگ مہمان نواز ہوا کرتے تھے، وہ مہمان کو دیسی گھی، مکئی کی روٹی اور ساگ بھی پیش کر تے تو اس میں خلوص اور محبت کا بھرپور تڑکا شامل ہوتا، جو کھانے کو اور ذائقے کو چار چاند لگا دیتا.
اُس دور میں محبتیں بھی سچی ہوا کرتی تھی، عاشق لوگ تو کئی کئی دن گلی کی نکڑ پر اسی آس میں گزار دیتے کہ آج وہ یہاں سے گزرے گی اور دیدار یار ہوگا.
آج کل کی طرح نہیں کمنٹ کے اندر لڑکی سے بات کی، ایک دو ٹویٹ کا ریپلائی ہوا، انباکس میں گئے لڑکی نے مسکرا کر دو باتیں کی اور محبت ہوگئی.
اس دور میں آج کی کی طرح بے حیائی اور بے شرمی نہیں پائی جاتی تھی کہ ہر آتی جاتی کے اوپر نمبر پھینک دیا ہر آتی جاتی کو چھیڑ دیا .
اس دور میں محبت کے رشتے پاک اور محبوب بھی ایک ہی ہوتا تھا.
آج کل تو ہر لڑکی کے ایک دو درجن افیئر ہونگے، اسکے بعد جا کر کہیں شادی ہو بھی گئی تو اتنی کامیاب نہیں ہوتی. اور آج کے لڑکے تو پیدا ہوتے ہی پہلی آنکھ نرس کی انگلی پکڑ کر مار لیتے ہیں. پھر شادی تک افئیر کی سینچری مار کر حاجی ثناءاللہ بن جاتے ہیں.
پہلے کے دور میں سیدھا منہ پر جا کر اظہار محبت نہیں کیا جاتا تھا، محبت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے لوگ شرمیلے ہوا کرتے تھے. اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ ایک لڑکی کا سامنا کیا جائے .
اپنے محبوب سے اظہار محبت کیلئے خطوط کا استعمال کیا جاتا تھا. اگر محبوب ان پڑھ ہے تو وہ کسی پڑھے لکھے دوست سے خط لکھواتا.
خط بھی یوں ہی ایک دم سے نہیں لکھ دیا جاتا بار بار لکھا اور مٹایا جاتا، بہترین اور تہذیب یافتہ الفاظ کا چناؤ کیا جاتا، ایک دو دن کی کڑی محنت کے بعد اس خط کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا جو کہ بظاہر آسان مگر کٹھن کام ہوتا.
اسی طرح اگر محبوبہ پڑھی لکھی نہ ہوتی تو وہ اپنی کسی سہیلی کا استعمال کرتی،
خطوط کی نقل و حرکت اور محبوب تک رسائی کیلئے چھوٹے بچوں کو بطور ڈاکیہ کے استعمال کیا جاتا اور بطور نذرانہ چند فانٹا ٹافیاں عنایت کی جاتی.
چھوٹو ڈاکیہ بھی اپنا کام انتہائی چالاکی اور ایمانداری سے سرانجام دیتا اور اس تمام کاروائی کو وہ ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتا.
پھر اس تمام کاروائی کے بعد محبوب اپنی محبوبہ کے جوابی خط کا انتظار کرتا. اس خط کا جواب کسی ایس ایم ایس کی طرح فوراً سے نہیں آجاتا اسکے جواب میں بھی ہفتہ، دو ہفتہ لگ جاتے.
یوں خط و کتابت کے زریعہ دل کا حال بیان کیا جاتا اس میں شعر و شاعری کا عنصر بھی ہوتا اور ایک دوسرے سے ملنے کی جگہ اور وقت کا تعین بھی اسی خط کے زریعہ ہوتا.
الغرض اتنی محنت کے بعد حاصل ہونے والی محبت خالص اور سچی ہوا کرتی تھی.
اگر محبوب دور دراز کہیں زریعہ معاش کی خاطر چلا جاتا تو محبوبہ سے وہاں سے خط و کتابت ہوتی، ایک دوسرے کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا، سالوں سال محبوبہ اپنے محبوب کے انتظار میں گزار دیتی.
آج کل تو یہ مشہور ہے کہ گھوڑا اور لڑکی کو باندھ کر رکھو نہیں تو کوئی اور لے جائیگا.
میرا ایک دوست بزنس ٹور پر دوسرہ شہر گیا 10 دن بعد واپس آیا تو اسکی محبوبہ کہیں اور ٹانکا فٹ کر چکی تھی.10 دن بھی انتظار نہ ہوا اور پھر دوست نے بھی اگلے دن نئی پکڑ لی.
یوں پہلے کے زمانے میں لوگ سادہ لوح اور من کے سچے ہوا کرتے تھے اور انکا عشق بھی سچا ہوا کرتا تھا.
اسی لیئے آج کل ہیر رانجھا، لیلی مجنوں، فرہاد جیسے لوگوں نے پیدا ہونا ہی بند کر دیا ہے...
یوں وقت تیزی سے بدلتا گیا اور لوگ وقت سے بھی تیز نکلے
پی ٹی سی ایل کا دور آیا انٹرنیٹ آیا فاصلے کم ہوتے گئے اور ساتھ ساتھ انسانوں کی آپس کی محبت بھی کم ہوتی گئی.
مزید وقت گزرا سمارٹ فون اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو مزید قریب کر لیا، اس طرح انسان ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے، پر افسوس کے بظاہر ہی قریب ہیں، اصل میں نہیں. صرف دور سے قریب نظر آتے ہیں.
پہلے کے دور میں جھوٹ بولنے کے زرائع بھی نہیں تھے اس لیئے لوگ سچے ہوا کرتے تھے. آپ کسی سے ملنے جاتے وہ گھر پر ہی ملتا اور آج کل کسی سے ملنے جاؤ اور کال کرو آپکی طرف آ رہا ہوں. وہ آگے سے جواب دیگا بھائی میں تو گھر پر نہیں جبکہ ہوگا گھر پر ہی. یوں موبائل فون نے جھوٹ بولنا مزید آسان کر دیا.
میرے ایک دوست نے فیس بک پر چیک ان کیا اور لکھا eating pizza at pizza hut اگلے ہی لمحے دیکھا وہ ڈھابہ ہوٹل پر میرے سامنے بیٹھا چنے کی دال سوت رہا تھا.
پہلے لڑکیوں میں کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، گھر سے اکیلے باہر نکلنے کو عیب سمجھا جاتا تھا ، سکول کالج بھی جاتی تو آتے جاتے کسی سے بات کرنے کی مجال نہیں ہوتی تھی، غرض شرم و حیا کا پیکر ہوا تھی لڑکیاں،
آج کل کی لڑکیاں تو میرے جیسے کو بیچ کر کھا جائیں اور کانوں کان خبر تک نہ ہو.
حالات اتنے گھمبیر ہیں آج ہر لڑکی کی دوسری لڑکی سے ریس لگی ہوتی ہے کہ کس کے دوست زیادہ ہیں.
پہلے کسی سے بات کرنے کیلئے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور آج کل ایک میسج کرو انباکس میں چلے جاؤ، اگلے ہی لمحے وڈیو کال پھر محبت کا اظہار کر لو . مسئلہ ہی کوئی نہیں...
پہلے ایک ہی محبوب ہوتا تھا اور ایک ہی محبوبہ.
آج کل فب فرینڈ الگ، یونی فرینڈ الگ، فیملی فرینڈ الگ اور پانچھ چھ عدد بوائے فرینڈ/گرل فرینڈز الگ..
پہلے بریک اپ ہوتے تو لوگ سالوں تک غم مناتے تھے. آج کل پہلے دن دوستی ہوئی، دوسرے دن محبت، تیسرے دن لڑائی، چوتھے دن بلاک اور پانچویں دن تھوڑے سے آنسو چھٹے دن کوئی دوسرا سہارا دیتا ہے، ساتویں دن چھٹی ہوتی ہے اور سوموار کے دن نئے جذبے کے ساتھ نئی محبت شروع ہو جاتی ہے....
پہلے کی محبت بھی دیسی گھی کی طرح خالص اور اسمیں خالص شہید کی جیسے مٹھاس ہوتی تھے.
آج کل کی محبت میں آج کل کے گھی اور شہید کی طرح ملاوٹ پائی جاتی یے.
میرے چچا جی کہا کرتے تھے "چھوڑو یار تم ڈالڈے کے فارمی جوان تو کسی کام کے نہیں"
مجھے تو ڈالڈا بھی برابر کا قصور وار لگتا ہے.
پہلے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کیلئے وقت ہوا کرتا تھا اور آج کل لوگ گھر والوں سے بات نہیں کرینگے، پاس بیٹھے دوستوں سے بات نہیں کرینگے مگر میلوں دور بیٹے کچے دھاگے اور ایک بلاک کی دوری پر بنے ہوئے ریلیشن نبھائیں گے..
ایک بار کزن نے ہم پانچ دوستوں کی تصویر لی اور فب پر ڈال دی ہم پانچ کے پانچ کافی دیر سے حضرت مولانا موبائل صاحب کے احترام میں گردن جھکائے مگن تھے. مجال کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی زحمت کی ہو.
تو بات ہو رہی تھی وفا کی...
وفا نام کو تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اتنا بدنام کر دیا کہ پوچھو مت. جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب کیا وہیں دور بھی کیا.
آج کل معاشرے میں لڑکیوں کا گھر سے بھاگ جانا اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو جانا اسی سوشل میڈیا کا دیا ہوا تحفہ ہے، وفا نام کی چیز کو تو لوگوں نے ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا.
میں ایک دوست سے ملنے چلا گیا اس نے کہا کہ پارک آجاؤ وہیں بیٹھا ہوں اپنی سیم بے بی کے ساتھ. سیم جو کہ اسکی گرل فرینڈ تھی. میں نے سوچا چلو آج اسکی محبوبہ سے بھی مل لیتے ہیں.
جب میں پارک پہنچا تو وہ ایک کتے کو "سیم بے بی کم، سیم بے بی کم کہ کر کے بلا رہا تھا" وہ کتا دوڑ کر پاس آتا تو اسے پیار سے گلے لگاتا.
میں بڑا حیران ہوا، میں تو اسکی گرل فرینڈ کو ایکسپیکٹ کر رہا تھا یہ تو کتا نکلا، میں گویا ہوا، بھائی یہ کیا! تو نے اسکا نام سیم کیوں رکھا؟؟؟
کہنے لگا یار بس کیا بتاؤں وہ بے وفا مجھے چھوڑ کر چلی گئی تو میں نے اسکے نام کا وفادار کتا پال لیا.
یوں بے وفا سیم کو وفادار سیم میں بدل لیا.
اسکی یہ بات سن کر میں 15 منٹ تک زمیں پر پیٹ پکڑ کر ہنستا رہا اور لوگ مجھے یوں پاگلوں کی طرح ہنستا دیکھ کر مجھے پاگل سمجھ کر میرے گرد گول دائرہ جما کر میرا تماشا کرتے رہے..
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات کیا ہو سکتی ہے کہ آج کے دور میں جب وفا کی بات کی جاتی ہےتو کتے کی مثال دی جاتی ہے

Comments

Click here to post a comment