ہوم << جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے - نجم الحسن

جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے - نجم الحسن

نجم الحسن ”مہر“ یہ لفظ اسلامی دنیا اور پاکستان میں بالخصوص ایک بہت عام نام ہے، مثلا ”مہر بانو“ جو کہ جگن کاظم کے نام سے جانی جاتی ہیں، شاید بہت ساروں کو نہیں پتہ ہوگا۔ بہر کیف میں یہاں مہر لڑکی کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں اس مہر کی بات کر رہا ہوں جسے مہرفاطمی، حق مہر بھی کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! اس رقم کی بات کر رہا ہوں جو مسلمانوں میں دولہا نکاح ہونے پر اپنی دلہن کو دیتا ہے۔ یہ رقم یا تو نکاح کے فورا بعد دی جاتی ہے یعنی ”مہر معجل یا مہر غیر مؤجل“ یا جب لڑکی چاہے تب لے سکتی ہے جو کہ ”مہر غیر معجل یا مؤجل“ کہلاتا ہے۔ اسلامی شریعت نے حق مہر ادا کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں لگائی ہے، مرد اپنی زندگی میں کسی بھی وقت جب چاہے اسے ادا کرسکتا ہے اور اگر وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی اس قابل نہ ہو پائے کہ ادا کرسکے تو اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ میں سے حق مہر ادا کیا جائے گا اور یہ قرض ہوگا۔ اگرچہ میری نظر میں چونکہ بندہ اس قابل ہی نہیں کہ حق مہر ادا کر سکے تو اس کو شادی کرنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے، تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے، شریعت میں ایسی کوئی قدعن نہیں۔ مگر ہاں جو امر ضروری ہے وہ یہ ہےکہ مہر طے ہوتی نکاح سے پہلے ہے اور یہ طے ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا آسانی سے میں نے لکھ دیا۔
تو تو میں میں ہوتی ہے۔ دلیلیں دی جاتی ہیں۔شریعت کی بات ہوتی ہے۔حیثیت کی بات ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ لڑکے کی اتنی حیثیت نہیں تو مہر اتنا کیوں، اور اسی دوران دو نوں خاندانوں میں نفرتیں، ناپسندیدگیاں اور ناچاقیاں اپنی جڑیں جمانا شروع کردیتی ہیں۔ دوریاں بڑھ جاتی ہیں اگر چہ قربتوں نے ابھی پنپنا شروع بھی نہیں کیا ہوتا۔ مطلب شادی تو ہوجاتی ہے لیکن مہر کے جھگڑے کی کھٹاس لے کر۔ اور یہ کھٹاس لڑکی کے لئے طعنوں کی وجہ بن جاتی ہے کہ اس کے گھر والوں نے مہر کے لیے کتنا ہنگامہ کیا تھا۔ مہر طے ہوتے وقت لڑکی والوں کو بدگمان بتایا جاتا ہے۔انہیں جال میں پھنسایا جاتا ہے کہ یہ تو بدظن ہیں جو مہر کی رقم کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ارے جس نے بیٹی دے دی تو پھر مہر کا کیا۔
مگرحیرانی اس وقت ہوتی ہے جب لڑکے والوں کو کسی بات میں شریعت یاد نہیں آتی۔ بس یاد آتی ہے تو مہر کی رقم لکھواتے وقت۔ ایسے ہو جاتے ہیں جیسے ان سے بڑا کوئی مولوی یا پاک و پاکیزہ نہیں۔اگر یہ نہ ہوتے تو اسلام کی جڑیں ہل گئی ہوتیں۔ ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں جیسے اسلام صرف ان کو کندھوں پر ہی ٹکا ہے۔ اور ایسا دباؤ بنایا جاتا ہے کہ چند روپیوں کا مہر ہی لڑکی والوں کو لکھواناپڑتا ہے۔تاہم اگر دیکھا جائے تو مہر کی رقم لڑکی کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتی ہے۔ مکمل زندگی گزارنے کے لئے بس ایک سہارا ہوتی ہے، ایک آس ہوتی ایک ڈھارس ہوتی ہے۔جو لڑکے والے کم سے کم لکھوانا چاہتے ہیں۔
جب لڑکی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے۔تو لڑکے کی پسند اور نا پسند کا پٹارا بھی کھل جاتا ہے۔ یہ پسند والی فہرست اتنی تگڑی ہوتی ہے کہ بیٹی کا ہونا لوگ بوجھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔اور یہ پسند بتانے والے لڑکے وہ ہوتے ہیں جو کبھی گھر میں پسند کی سبزی بھی پكوا کر نہیں کھا پاتے۔ اور گھر سے باہر یہ ہی بتاتے ہیں کہ آج قورما کھایا، اور آج بریانی کھائی۔ اور ہاں، بیٹے نے اگر کچھ اپنی مرضی کی ڈیمانڈ گھر میں کر دی تو ماں باپ کے ڈائیلاگ ایسے ہوتے ہیں، نالائق کرتا کچھ نہیں، اور مطالبہ ایسے کرتا ہے جیسے سب کچھ کما کے گھر میں اس نے ہی رکھا ہے۔
اتنا ہی نہیں اگر بیٹا جواب دے دے تو کہتے ہیں، کر نہ کرتوت لڑنے کو مضبوط۔ ' مگر یہی ماں باپ جب بیٹے کے لئے دلہن لینے جاتے ہیں تو ان کا منہ لڑکی کے گھر والوں کے سامنے اسی نالائق بیٹے کے لئے ایسے پھٹتا ہے کہ پوچھو مت۔ اگر ان ماں باپ کا بس چلے تو لڑکی کا پورا گھر ہی سر پر اٹھا لائیں۔ اس وقت انہیں شریعت یاد نہیں آتی۔
بارات کی بات ہوتی ہے توبول دیا جاتا ہے ہمارے اتنے سو باراتي آئیں گے۔ اگر لڑکی والے کہیں کہ تھوڑے کم باراتی لے آنا تو وہی شان بگھارتے ہوئے کہیں گے۔ اجی ماشا اللہ سے کنبہ ہی اتنا بڑا ہے، اور پھر ہمارا لوگوں سے اتنا ملنا جلنا ہے۔لڑکے کے دوست ہیں، احباب ہیں، جان پہچان کے لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو اب آپ ہی بتایئں کم باراتی کیسے لائیں، کسے انکار کریں۔انکار کریں گے تو ہمارے رشتہ دار ناراض ہو جائیں گے۔ اس وقت لڑکے والوں کو لڑکی والوں کی حیثیت نظر نہیں آتی۔ ہاں اس وقت اپنی حیثیت ضرور یاد آ جاتی ہے جب مہر کی باری آتی ہے۔ پھر ممياتے ہیں، جی ہماری تو اتنی حیثیت ہی نہیں۔
کوئی ناراض نہ ہو جائے اس وجہ سے بارات میں کسی کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔لیکن نیا نیا رشتہ ہونے کے باوجود لڑکی والوں کی ناراضگی کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ طویل چوڑی بارات لے کر جائیں گے۔ چاہے لڑکی والوں کی حیثیت ہو یا نہ ہو۔ اور اگر پھر لڑکی والوں کی طرف سے خاطر داری میں نمک بھی کم رہ جائے تو لڑکے کا پھوپھا مختلف ننگا ناچ کرے گا۔ پھپھو (پھوپھی) کی زبان الگ لمبی راگ الاپے گی، خالو (مسے) الگ بڑبڑائےگا۔ تب لڑکے والوں کو نہیں لگے گا کہ وہ کتنی بے غیرتی دکھا رہے ہیں۔ کھانے کو برا بتاتے وقت نہ شریعت یاد آئے گی اور نہ سنت۔ ہاں اگر لڑکی والے مہر کی بات کریں گے تو ضرور لگے گا۔ دیکھو تو صحیح پوری لڑکی دے دی اور مہر کے چند پیسوں کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ مطلب اگر وہ مہر کی بات بھی کریں تو ان کا وہ بات کرنا جھگڑنا نظر آتا ہے۔ جہیز مانگنا، ہر بات میں اپنی چلانا، آپ نئے نئے رسم و رواج بتا کر لڑکی والوں سے وصولی کرنا، لڑکے والوں کو داداگيري یا رنگداری مانگنے جیسا نظر نہیں آتا۔
شریعت کے مطابق مہر ”مہرفاطمی“ ہوتا ہے جس کے تحت موجودہ دور میں تقریبا 150 تولا چاندی یا اس کی رقم بنتی ہے۔ مہرفاطمی مطلب جب نبی محمد ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے ہوا تو مہر کی رقم اس دور کے حساب سے طے کی گئی۔یہ رقم موجودہ دور میں انتہائی کم ہے، اس لیے ہی لڑکے والوں کو مہر کے وقت شریعت یاد آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمی باندھ لو۔لیکن انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ جہیز کا لین دین نہیں ہوا تھا۔ جہیز مانگنا تو لڑکے والوں کا پیدائشی حق جیسا لگتا ہے۔ جہیز لیتے وقت ان کی شریعت جہیز میں کسی صندوق میں بند ہو جاتی ہے۔ اور صندوق کی چابی پتہ نہیں کہاں کھو جاتی ہے۔حقیقت میں ہم شریعت کو ایک لبادہ سمجھ بیٹھے ہیں، جب ٹھنڈک محسوس ہوئی اوڑھ لیا اور جب گرمی لگے تو اتار پھینکا۔

Comments

Click here to post a comment