انسانی فطرت بڑی عجیب ہے جو اسے اچھا اور صحیح لگتا ہے وہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اسی زاوئے سے اسے دیکھے جس سوچ کا وہ خود حامل ہوتا ہے.
میں کیونکہ فلاں سیاسی پارٹی کا کارکن اور ووٹر ہوں تو بس وہی صاف و شفاف اور محب وطن پارٹی ہے باقی پارٹیاں نہیں اور اگر کسی نے میری پارٹی پر انگلی اٹھائی (بیشک وہ سچ بھی ہو ) تو میں سب کی ایسی کی تیسی کردیتا ہوں اور سوچتا بھی نہیں کہ میں کتنی گندی اور غلیظ زبان استعمال کررہا ہوں.
میں کیونکہ لبرل ہوں (بیشک مجھے لبرل کے لام کا بھی پتہ نہیں ) اسلئے میرا فرض بنتا ہے کہ ہر منفی معاملے میں مولوی، مدرسہ، داڑھی اور اسلام پسندوں کو رگیدوں کیونکہ مجھے تو آزادی اظہار رائے کا حق ہے تمہیں نہیں اور اگر اپنی دفاع میں کچھ بولا تو میں تمہارے اکابر کو بھی نہیں بخشوں گا.
میں کیونکہ قوم پرست ہوں تو میری قوم صرف اور صرف میری قوم اعلی و ارفع ہے اور اگر نہیں مانے تو میں اپنی قوم پر یہ ظلم و بربریت برداشت نہیں کروں گا اور اپنے حق کیلئے بندوق اٹھانے سے بھی گریز نہیں کروں گا..
میں کیونکہ فلاں فرقے کے نظریے کا حامل ہوں تو صرف وہی حق پر ہے باقی سارے 71 فرقوں میں آتے ہیں جہنمی ہیں.
اور اگر تم نے میرے نظریے کا رد کیا تو وہی حشر کروں گا جو آپ سے پہلے والوں کا کیا تھا.
یہ ہے ہمارے معاشرے کی آجکل کی تصویر.
ہم کب اپنی سوچ میں وسعت پیدا کریں گے؟
ہم کب یہ سیکھیں گے کہ جس طرح مجھے اختلاف کا حق ہے دوسروں کو بھی وہی حق حاصل ہے.
اختلاف سب کا حق ہے اختلاف کریں سب کے سوچنے کا انداز الگ ہوتا ہے ضروری نہیں کہ جو میری سوچ ہے جو میرا نظریہ ہے دوسرے کا بھی وہی ہو.
مگر خدارا مخالفت سے گریز کریں.
اختلاف اخلاقیات کے دائرے میں بھی ہوسکتا ہے.
ضروری نہیں کہ غداری، دہشتگرد اور کفر کے سرٹیفیکیٹ ایشو کئے جائیں.
وسعت نظری پیدا کریں.
برداشت کو اپنا اوڑھنا بچونا بنائیں
اختلاف کریں مگر مخالفت نہیں
تبصرہ لکھیے