آج میں خوش تھا کہ میں نے بی اے پاس کرلیا ہے. مٹھائی لیے گھر آرہا تھا کہ میری نظر ایک بچے پر پڑی جس کی حالت یہ تھی کہ بال بکھرے ہوئے، مٹی میں لت پت، اشک زاروقطار جاری، کبھی کسی کاغذ کو اٹھاتا ہے تو کبھی کسی اور کو، اور پھر ہاتھ سے مٹی پر کچھ لکھتا ہے. میں بت بنا اسے دیکھ رہا تھا، ذہن میں سوالوں کا اژدہام تھا. یہ کیا کرتا ہے؟ یہ ایسے کیوں کرتا ہے؟
میں اس کی طرف لپکا اور پوچھا، بیٹا تم یہ کیا کرتے ہو؟ اور کیوں کرتے ہو؟
اس نے کہا کہ میں ایک یتیم ہوں، میرے ماں باپ نہیں ہیں لیکن مجھے پڑھنے کا شوق ہے. لیکن کتابیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، اس لیے روز اس جگہ آتا ہوں، بچے جو کاغذ پھینک دیتے ہیں اس سے پڑھ لیتا ہوں.
میں جب تیسری جماعت میں پڑھتا تھا تو میرے والدین انتقال کر گئے اور ٹیچر نے سکول سے نکال دیا.
والد غریب تھے، ہم ایک کرائے کے گھر میں رہتے تھے، مالک مکان نےگھرسے نکال دیا.
اب نہ کھانے کو کچھ نہ پہننے کو، پڑھنا تو دور کی بات ہے.
یہ سن کر میں اشک بار ہوگیا، میں روتا بت بنا کھڑا تھا کہ وہ چلا گیا.
لیکن جاتے وقت کہہ گیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں تو جانوروں کا بھی خیال رکھا جاتا تھا لیکن کیا اب ہم جانوروں سے بھی ابتر ہو چکے ہیں؟
اس سوال کا جواب معاشرے بالخصوص حکمرانوں پر فرض ہے.
تبصرہ لکھیے