ہوم << غلام روحیں - عنایت علی خان

غلام روحیں - عنایت علی خان

منظر بہت ہی بھیانک تھا.
رونگٹے کھڑے کر دینے والا.
جسے دیکھ کر روح تک کانپ جاتی تھی.
فضا دھویں اور گرد سے بوجھل تھی.
چیخ و پکار تھی کہ الامان.
گوشت جلنے کی بو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی،
وہ سب ایک قطار میں پڑے ہوئے تھے،
زندگی کی رمق سے خالی،
لاغر و کمزور،
مفلوک زدہ ننگے وجود،
قطار کو قائم رکھنے کے لیے چند درندہ قسم کے بھیانک شکلوں والےوحشی تھے، ان کے بڑے بڑے ہاتھوں میں ڈنڈے اور کوڑے تھے، وہ لگاتار قطاروں کے درمیان جلدی جلدی چکر لگاتے اور قطار کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پیٹنا شروع کر دیتے، قطار میں یکدم سراسیمگی سی پھیل جاتی اور پٹنے والے اپنے لاغر وجود سے پہلے سے موجود قطار کو مزید سیدھا کرنے میں جت جاتے۔
وہ سب لاکھوں کی تعداد میں تھے اور دور جہاں تک نظر جاتی، بس قطار ہی نظر آتی تھی۔
وہ سب برہنہ تھے لیکن ان کے ستر برہنہ نہیں تھے۔ ان کو اس سے کوئی سروکار بھی نہیں تھا۔
وہ تو صرف اور صرف اس قطار کو سیدھا کرنے کی تگ و دو میں تھے۔
بھاینک شکلوں والے وحشی لگاتار قطاروں کے درمیان فاصلہ دیکھ کر پل پڑتے اور یوں پوری قطار میں ایک بھونچال سا آ جاتا۔
جلے اور جھلسے ہوئے جسموں میں حرکت ہوتی اور وہ اپنے لاغر وجود کو گھسیٹ کر آگے سرک جاتے، فاصلہ کم ہوتا اور قطار میں وقتی طور پر ٹھہراؤ سا آجاتا۔ نیم مردہ ادھ جلے برہنہ جسم تیز تیز سانس لیتے اور ہانپتے ہانپتے ادھر ہی گر پڑتے۔
یہ میری ہی سرزمین تھی، میرا گاؤں تھا، یا شاید میرا ہی گھر تھا،
کیونکہ قطاروں میں پڑے ہوئے لوگ اجنبی نہیں تھے،
سب کی شکلیں شناسا سی تھیں، گو کہ ان کے مسخ شدہ جسموں سے شناخت ختم ہو چکی تھی اور وہ جلی ہوئی لٹکتی ہوئی کھالوں سے اپنی اصلی شکل و صورت کھو چکے تھے۔
میں ان سب مناظر کو حیرت و افسوس سے دیکھ رہا تھا اور حیران تھا کہ ابھی تک کسی میڈیا نے خبر بریک کیوں نہیں کی۔
حکومت کو تو فوری ایکشن لینا چاہیے تھا۔
میں نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور ان مناظر کو کیمرے میں محفوط کرنے لگا، یکدم ایک وحشی آگے بڑھا اور مجھ سے موبائل چھین کر دور دھکیل دیا۔
اب میں قطار سے دور کھڑا اس منظر کو دیکھ رہا تھا، آخر یہ قطار جا کہاں رہی تھی؟
یہ جاننے کےلیے میں قطار کے متوازی چلنے لگا،
کافی دیر چلنے کے بعد میں قطار کے آخری سرے پر پہنچ گیا،
وہاں ایک بہت بڑی بھٹی تھی جس میں آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے، قطار میں لگے لوگ گھسٹتے ہوئے آتے اور اپنے آپ کو اس جلتی بھٹی کی نذر کر دیتے، چیخ و پکار میں یکدم اضافہ ہو جاتا اور چند لمحوں کے لیے آگ کی شدت بھی زیادہ ہو جاتی۔
یہاں گوشت کے جلنے کی بو اور دھویں سے دماغ پھٹا جا رہا تھا اور میں اس بو سے بچنے کے لیے بھٹی کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔
یہاں کا منظر اس سے بھی بھیانک لیکن حیران کن تھا،
بھٹی میں چھلانگ لگانے والے لوگ بھٹی سے باہر آ رہے تھے،
ان کے جسم پر لگا گوشت گل چکا تھا اور ہڈیاں صاف نظر آ رہی تھیں،
ان کی زبانیں باہر کو نکلی تھیں اور وہ ہانپ رہے تھے،
بھٹی سے باہر نکل کر یہ تھوڑا سا سستاتے اور پھر ایک جانب کو چل دیتے،
اب وہ قظار کے ایک جانب مخالف سمت میں جا رہے تھے،
چلتے چلتے آخر وہ قطار کے پہلے سرے پر پہنچ گئے اور اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ دوبارہ قطار میں لگ گئے۔
اب اس بستی کا منظر دھندلانے لگا اور یوں لگا جیسے ایک بہت بڑی حویلی ہو،
حویلی کی موٹی موٹی دیواریں صاف نظر آرہی تھیں،
ان کے اوپر خاردار تاریں بھی لگی تھیں،
اچانک دیواریں سمٹنا شروع ہوگئیں،
میں نے گھبرا کر اوپر دیکھا تو آسمان بھی نیچے آتا محسوس ہوا،
میں چیخنا چا رہا تھا لیکن آواز ہی حلق سے نہیں نکل رہی تھی،
بےبسی و خوف سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
دیواریں اب بہت نزدیک آ گئی تھیں اور ان کالمس مجھے اپنی پشت پہ محسوس ہو رہا تھا،
میں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا،
بڑھتے بڑھتے میں اس قطار کے آخری سرے پر پہنچ گیا اور پھر قطار میں لگ گیا،
قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی،
میرا جسم جھلسا ہوا تھا،
زبان باہر نکلی ھوئی تھی،
اور ہاں!
میں شاید برہنہ بھی تھا اور میرا ستر بھی نہیں ڈھکا ہوا تھا۔
کوڑے والے وحشی لپکے، قطار میں ہلچل سی ہوئی۔
میں نے تھوڑا سا گھسیٹ کرخلا کو پر کیا
اور پھر
تھوڑی دیر کے لیے سکون ہوگیا
۔۔۔۔

Comments

Click here to post a comment