انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 111(4) کے مطابق تمام ہوم ریمٹنسز یعنی وہ پیسہ جو بیرون ملک سے پاکستان بھیجا جائے، پر ٹیکس اور ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے استثنی دیا گیا ہے۔ جہاں اس شق کا بیرون ملک محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کو فائدہ حاصل ہے وہیں دوسری جانب کرپشن مافیا اس شق کو منی لانڈرنگیعنی کالے دھن کو سفید بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
پاکستان سے کرپشن اور کک بیکس کا پیسہ غیر قانونی طریقے (ہنڈی وغیرہ) کے ذریعے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے، جہاں سے پراپر بینکنگ سسٹم کے ذریعے پیسہ ہوم ریمٹنس کے عنوان کے تحت واپس پاکستان آ جاتا ہے۔ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو انکم ٹیکس سے بچا جاتا ہے، دوسرا انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے بھی استثنی مل جاتا ہے۔ یعنی اس آرڈیننس کے تحت ریاست کو اس بات کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے کسی شہری سے ذرائع آمدن دریافت کر سکے یا منی ٹریل ٹریک کر سکے۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ پیسہ ہوم ریمٹنس کے تحت بیرون ملک سے آیا ہے۔
مئی 2015ء میں سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس میں ایف بی آر نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے ہوم ریمٹنسز (جو سالانہ 50000$ سے زیادہ ہوں) پر ایک فیصد ٹیکس نافذ کرنے کی سفارش پیش کی۔ ایف بی آر کی سفارشات کے مطابق اس ٹیکس کا مقصد ریونیو جنریشن نہیں ہے (ظاہر ہے اس خطیر رقم پر 1% ٹیکس سے کیا ریونیو جنریٹ ہونا ہے) بلکہ منی لانڈرنگ کا راستہ روکنا، اور ایف بی آر کو اس بات کا اختیار دینا ہے کہ وہ ہوم ریمٹنسز کے ذرائع آمدن اور منی ٹریل کو ٹریک کر سکے۔ سادہ الفاظ میں اگر کہا جائے تو ان سفارشات کا مقصد بیرون ملک پاکستانیوں کے ذرائع آمدن کو خفیہ رکھنے کا حق ختم کرنا اور ریاست کو یہ حق دینا تھا کہ وہ ذرائع آمدن بارے تحقیقات کر سکے اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کر سکے۔
ان سفارشات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ منی لانڈرنگ کو روکنے میں سنگ میل ثابت ہوسکتی ہیں، میرے جیسے محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے اس میں عمل میں کوئی دشواری اور پریشانی بھی نہیں ہوگی۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ ان سفارشات کا کیا ہوا؟ جی بالکل! حکومت نے نہ صرف انھیں رد کر دیا بلکہ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ تحریک چلائی گئی۔ حکومت نے اسے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے رعایت اور ان کے حق میں اپنا عظیم کارنامہ قرار دیا، حالانکہ ایف بی آر کی سفارشات میں حلال پیسہ کمانے والوں کے لیے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں انکم ٹیکس کی کم ترین شرح 2% ہے، جو سالانہ 4 لاکھ سے زیادہ آمدن پر لاگو ہوتی ہے، جس کے مقابلے میں 50000 ڈالر پر 1% انکم ٹیکس کچھ بھی نہیں۔
ان سفارشات کو رد کیوں کیا گیا؟ منی لانڈرنگ روکنے کی کوشش کو کیوں ناکام بنایا گیا؟ قارئین خود ہی نتیجہ نکال سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے