کسی قوم کو کھوکھلا کرنا مقصود ہو تو اس کی نئی نسل کے ذہنوں میں اس کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں شکوک و شبہات ڈالو۔ جن نظریات اور اقدار و روایات پر قوم کا ڈھانچہ کھڑا ہو انہی کو ان کے ذہنوں میں فرسودہ ٹھہراؤ، اپنے کلچر اور نظریات و عقائد کے لیے ان کے ہاں غیر محسوس انداز میں گوشہ بناؤ اور اس قوم کے محافظوں اور قومی ہیرو سے نئی نسل کو بدظن و بدگمان کردو۔ یہ فورتھ جنریشن وار کا ایک مہلک داؤ ہے جو دشمن کی طرف سے آزمایا جاتا ہے۔
غیر ملکی اور ان کی پروردہ ملکی این جی اوز بظاہر اصلاحات کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور تعمیر کے نام پر تخریب کر کے یہ داؤ کھیلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ این جی اوز دوسرے ذرائع استعمال کرنے کے ساتھ نصاب تعلیم جو کہ ذہن سازی میں بڑا کردار ادا کرتا ہے، پر اثرانداز ہو کر اپنے ٹارگٹ کردہ ملک کے باشندوں خاص طور پر نئی نسل سے ان کی تاریخ، نظریات، شناخت، اقدار و روایات نکالنے اور ملک کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے والوں سے ان کو بد ظن کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں جبکہ بڑے لیول پر اپنے ہم خیال اور خریدے گئے لوگوں کے ذریعے مختلف سیمینارز اور ورکشاپس وغیرہ کے ذریعے ماحول بنانے اور یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کی جاتی ہے۔ یہ تو تھا فورتھ جنریشن وار کے ایک داؤ کا مختصر قصہ۔
اب خیبر پختونخوا کے سکول کے بچوں کے لیے سرکاری نصاب تعلیم میں ہونے والی تبدیلیوں میں سے کچھ کا ذکر کروں گا جو سمجھی یا ’ناسمجھی‘ میں کی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے نصاب سے پہلے تو اسلامیات کا مضمون نکالا گیا اور پھر جنرل نالج مضامین میں اسلامیات کو ضم کرنے کے نام پر ایسے اسباق شامل کیے گئے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ مثال کے طور پر گریڈ ون اور ٹو کے کتابوں میں ’پریئرز‘ ’ریلیجیس فیسٹیولز‘ اور ’ریسپکٹ آدرز‘ کے اسباق ہیں۔
’پریئرز‘ کے سبق میں مسجد کی تصویر ہے اور پھر لکھا ہے ’’مسجد سے آذان سنی گئی، مسلمان دن میں پانچ بار نماز ادا کرتے ہیں‘‘۔
پھر اسی سبق میں ساتھ نیچے مندر کی تصویر دی گئی ہے اور لکھا ہے ’’پریم ایک ہندو ہے اور وہ اپنی نماز ادا کرنے مندر جاتا ہے‘‘۔
پھر گوردوارہ کی تصویر ہے اور لکھا ہے ’’کھڑک سنگھ ایک سکھ ہے، وہ اپنی نماز ادا کرنے گوردوارہ جاتا ہے‘‘۔
چرچ کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’جوزف ایک عیسائی ہے اور وہ اپنی نماز کے لیے چرچ جاتا ہے‘‘۔
نیچے ان جگہوں کی تکریم کی بات ہے، بندہ پہلے فرصت میں سمجھ جاتا ہے کہ ایسا ایک ’کور‘ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔
اسی طرح ریلیجیس فیسٹیولز کے سبق میں جشن میلاد کو مسلمانوں کے مذہبی تہواروں میں ڈالا گیا ہے اور اس سے اگلے سبق میں کرسمس، ہولی، دیوالی اور بیساکھی کا اچھا خاصا بیان بھی ہے۔ ریسپیکٹ آدرز والے سبق میں مختلف لوگوں کے الگ الگ مذاہب ماننے والی بات ہے، لائن میں چرچ، مندر اور مسجد کی تصاویر ہیں۔ پاس ایک لڑکے کی تصویر دی گئی ہے اور ساتھ لکھا ہے’’جانی چرچ جاتا ہے‘‘۔
ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ بچوں کو یہ کون سی پٹی پڑھائی جا رہی ہے؟ یہ اسلامیات کا کیسا متبادل ہے اور کس چیز سے بچوں کو آشنا کیا جا رہا ہے؟ یاد رہے کہ اس سے پہلے نصاب تعلیم میں نظریہ پاکستان، اسلامی تاریخ، معتبر اسلامی ہستیوں، داستان شجاعت رقم کرنے والے پاک فوج کے شہیدوں اور قومی ہیروز کے اسباق کے ساتھ بھی چھیڑ خانی ہوتی رہی ہے۔ اب سننے میں آیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے نصاب سے یہ تبدیلیاں ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت اگر یہ اقدام کرتی ہے اور نصاب میں اسلامیات، نظریہ پاکستان، اسلامی اقدار و روایات اور قومی مفاد سے ہم آہنگ اسباق دوبارہ شامل کرتی ہے تو اس پر خیبر پختونخوا کی حکومت خراج تحسین کی مستحق ہے۔خاص طور پر جماعت اسلامی کا اس حوالے سے کردار زیادہ قابل ستائش ہوگا جو کہ نصاب سے یہ تبدیلیاں نہ نکلنے کی صورت میں صوبائی حکومت سے بھی الگ ہونے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ وہ قومیں زندہ نہیں رہتیں جو اپنی نظریاتی بنیادیں کھودنے والوں کے ہاتھ نہیں روکتیں۔
تبصرہ لکھیے