خواب سے لپٹی کہانیاں۔ بہت سے خوابوں کی کہانیاں ہیں۔ خواب۔ محبت، خلوص، ایثار اور قربانی کے خواب۔ محرومیوں سے آزادی کے خواب۔ اپنی تلاش کے خواب۔ خود کو کسی کی محبت میں گم کر دینے کے خواب۔ اور ایسے ہی اور بہت سے وہ خواب جو ہم سب کی آنکھوں میں مچلتے رہتے ہیں۔ روبینہ فیصل نے ان خوابوں کو اپنے قلم کے ذریعے نہ صرف اپنی کہانیوں میں خود دیکھا بلکہ ان کہانیوں کے پڑھنے والوں کو بھی یاد دلایا کہ ان کے بھی کچھ خواب ہیں اور انہیں بھی کچھ لمحے اپنے خوابوں میں گذارانا ہیں۔ خواب بے شک پورے نہ ہوں مگر انہیں یاد ضرور رکھنا ہے۔ ان خوابوں کے خوبصورت رنگوں ہی سے زندگی کے حسن کو نکھرنا ہے، اور حسن کا یہ نکھرنا بھلے خوابوں میں ہی ہو۔ مگر ہو ضرور۔
پندرہ، سولہ سال پہلے جب میری ملاقات روبینہ فیصل سے ہوئی تو اُس وقت خاموش، شرمیلی اور گھبرائی گھبرائی سی لڑکی کو دیکھ کر میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ لڑکی اپنے خوابوں کے تعاقب میں اس تیز رفتاری سے بھاگے گی کہ مجھ جیسے لکھنے والے اسے ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے۔ کچھ عرصے کے بعد ایک دن روبینہ نے مجھے پہلا افسانہ ”برف“ میری جیسی تیسی رائے کے لیے پڑھنے کو دیا جسے پڑھ کر میں چونک اٹھا۔ پھر فورا ہی دوسرا افسانہ اپنے ”آنگن کے اجنبی“۔ اس دوسرے افسانے کو پڑھ کر مجھے جہاں ایک تازگی کا احساس ہوا، وہاں یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ اس لڑکی میں ضرور کوئی بات ہے اور ایک دن یہ لڑکی مجھے بہت حیران کر نے والی ہے۔ اور وہی ہواجب روبینہ نے مجھے بتایا کہ اس کے افسانوں کا مجموعہ شائع ہو نے والا ہے۔ اس دن مجھے حیرت سے زیادہ خوشی ہوئی کہ چلو اس کے کسی ایک خواب نے تو اس کا ہاتھ پکڑا۔
اس کتاب میں شامل اٹھارہ افسانوں میں زیادہ تر ان عورتوں کی کہانیاں ہیں جو کینیڈا یا پاکستان میں ہوتے ہوئے بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے روپ میں اپنا اصل وجود کہیں کھو بیٹھی ہیں۔ ان کے مسائل مختلف نوعیت کے ہونے کے باوجود کہیں نہ کہیں پہنچ کر خوابوں کی شکل میں مشترکہ ہو جاتے ہیں۔ قصور میں اپنی شادی کے انتظار میں بیٹھی وہ لڑکی جو کہ خوبصورت نہیں تو بد صورت بھی نہیں ہے، اُسے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ قصور کے کھسے اس سے بہتر ہیں یا وہ کھسوں سے زیادہ اچھی ہے؟
پھر کینیڈا میں رہنے والی تہمینہ جس کا خاوند اور بچے اسے چھوڑ جاتے ہیں، اور وہ اپنی مرضی یا مجبوری سے ایک ذلت آمیز زندگی کو اپنا لیتی ہے۔ خواب تہمینہ کے بھی ہیں اور افسانہ ”نیا جنم“ کی امرت کور کے بھی ہیں، جس کا خاوند اسے مشکل حالات میں تنہا چھوڑ کر جب واپس آجاتا ہے، تو امرت کور رات کو اپنے خاوند کے ساتھ گزرنے والے لمحات میں مرنے کے خواب دیکھتی ہے۔
ان کہانیوں میں راحت کا کرب بھی دکھائی دیتا ہے جو پاکستان میں مقیم ہے۔ شادی کے بعد اس کا اپنے ہی گھر کے معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس کے دبے دبے احتجاج پر اس کا خاوند اور خود اس کی بہن اسے ناشکری کے طعنے دیتے ہیں۔ راحت کے خواب اس ماں کے خواب سے زیادہ مختلف نہیں ہیں جو اپنے ”آنگن میں اجنبی“ بن کر تنہائی کا شکار ہے۔ اس طرح افسانہ ”بد رنگ صوفہ“ میں نگہت خود کو ایک بیٹی، بیوی اور پھر ایک سنگل مدر کی صورت میں دیکھتی ہے۔ وہ اپنے باپ کے گھر سے لے کر کینیڈا میں اپنے شوہر کےگھر تک اپنی تلاش کے خواب دیکھ رہی ہے۔
روبینہ فیصل نے ایک عورت ہونے کے باوجود صرف عورتوں کی مجبوریوں، محرومیوں اور آزمائشوں کو ہی نہیں دیکھا بلکہ غیرجانبدار ہو کر ان پر تنقید بھی کی ہے۔ روبینہ کی کہانیوں میں عورت کو مظلومیت کی تصویر بنا کر محض مردوں پر طنز و تنقید کی شعوری کوشش کلیشے کی صورت میں کم از کم مجھے دکھائی نہیں دی۔ عورت ہو یا مذہب، ان کی کہانیاں کیمرے کی غیر جانبدار آنکھ سے زندگی کے مختلف مناظر پیش کرتی ہیں۔ محبت کے جذبے اور رشتے چاہے خون کے ہوں یا محض انسانی، بات جب ان جذبوں کی ہو تو روبینہ محبت میں ڈوب جاتی ہے۔ تب یہ رشتے روبینہ کے قلم سے ٹپک کر آپس میں گھل مل جاتے ہیں اور ایک ہو کر صرف کاغذ پر ہی نہیں بلکہ قاری کے دل میں بھی اتر جاتے ہیں۔
بھانجی اور دوست کی بیٹی کی محبت میں ممتا کی تڑپ کا اظہار روبینہ نے اس ہنر مندی سے کیا ہے کہ افسانہ "جھوٹے وعدوں کی کر چیاں" اس کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ”لایموت“ بھی ایسا ہی ایک افسانہ ہے جس میں دو چاہنے والے اپنی اس محبت کی موت کا سوگ مناتے نظر آتے ہیں جو کھبی مری ہی نہیں تھی اور شاید کھبی مرے گی بھی نہیں۔
بات اگر محبت کی ہو تو روبینہ کا فن اپنے عروج پر ہو تا ہے۔ میں نے اس کتاب کے تمام افسانوں پر تفصیلی گفتگو سے پرہیز کیا ہے مگر ابھی میں نے محبت کے حوالے سے روبینہ کے فنی عروج پر بات کی تو ازارہ ِکرم مجھے اجازت دیں کہ میں ”محبت کی آخری کہانی“ پر مزید کچھ کہہ سکوں۔
اس کہانی کو روبینہ نے کتاب کی پہلی کہانی بنایا ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جسے پڑھ کر میں گُم صم رہا۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ جو کہانی میرے اندر موجود تھی۔ جسے میں نے ابھی لکھنا تھا۔ وہ کہانی روبینہ نے مجھ سے پہلے کس طرح لکھ ڈالی۔ آسکر وائلڈ کے ہیپی پرنس اور اس پرندے سے تو میں بھی مل کر آچکا ہوں، مگر روبینہ کس طرح ہیپی پرنس کے قدموں میں بیٹھی رہ گئی اور کس طرح اس کہانی کو جنم دیا؟
”اچھا ہے تم نے ابھی تک خود کو جھیل کے پانی میں نہیں دیکھا ورنہ خود سے محبت کرنے کے علاوہ تم کسی کام کی نہیں رہ جاتیں۔“
”میں جھیل میں اپنا عکس دیکھ کر منجمد نہیں ہونا چاہتی، میں اڑنا چاہتی ہوں۔“
دیکھا آپ نے؟ ابھی جو مکالمے میں نے پڑھے ان میں کس قدر بر جستگی۔ خوبصورتی اور بے ساختگی ہے۔
”وہ چلتی ہے تو سب مناظر چلنے لگتے ہیں، وہ رکتی تو اس کے ساتھ سب کچھ تھم سا جاتا، وہ بھاگتی تو کائنات اس کے ہاتھوں سے نکل کر بھاگنے لگتی اور وہ سوچتا۔ کیا وہ اس کائنات کے ساتھ بھاگنے کی سکت رکھتا ہے۔؟“
اس کہانی کا اسلوب، ایک ایک لفظ اور ایک ایک منظر نے مجھے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔ محبت اور قربانی کے جذبوں کو جس خوبصورتی اور فنی مہارت سے روبینہ نے اس افسانے میں پیش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ یہ افسانہ لکھ کر میری نظر میں روبینہ ان چند افسانہ نگاروں میں شامل ہوگئی ہے جن پر مجھے رشک آتا ہے۔ میں روبینہ فیصل کو خواب سے لپٹی کہانیوں کی کتابی صورت پر دلی مبارکباد پیش کر تا ہوں۔
تبصرہ لکھیے