بچہ جب تین سے چھ سال کا ہوتا ہے تو یہ اپنی والدہ سے پریوں کی کہانیاں سننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ شروع میں والدہ اسے سلانے کے لیے یہ کہانیاں سناتی ہے لیکن پھر اسے اس کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ اگلے لگ بھگ تیس سال یہ قصے، کہانیاں اور تجربات سننا اپنا مستقل معمول بنا لیتا ہے. سات سال سے بلوغت تک کی عمر میں یہ دادا جان سے ان کی جوانی کے قصے سنتا ہے اور ہر دادا جان اپنے پوتے کو ایسے قصے ضرور سناتے ہیں جن میں وہ فلموں والے ہیرو کی طرح دس دس لوگوں کو پچھاڑتے نظر آتے ہیں. دادا جی نے جوانی میں دس دس بندے پچھاڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ خود کو ہیرو ثابت کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچہ یہ جان جائے کہ انسان کو حریف کی طاقت سے نہیں گھبرانا چاہیے اور بے خوف ہونا چاہئے کیونکہ اگر ایسا ہو تو خود سے بڑی قوت پر بھی غالب آیا جا سکتا ہے. پندرہ سے چوبیس سال کی عمر میں یہ بچے اب نوجوان ہوجاتے ہیں اور اب ان میں سے اکثر اپنے کسی ٹیچر کے قریب ہوجاتے ہیں۔ چونکہ مرحلہ اعلیٰ تعلیم کا درپیش ہوتا ہے اس لئے اپنے ٹیچر سے ایسا ہر نوجوان زیادہ تر ان کے دور طالب علمی کے واقعات سننے میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ اس کی روشنی میں وہ اپنا لائحہ عمل طے کر سکے۔ پچیس سے پینتیس سال کی عمر کے جوان عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں جس کا انہیں تجربہ نہیں ہوتا سو یہ بڑی عمر کے لوگوں سے ان کے تجربات سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ ان کے تجربات سے استفادہ کر سکیں۔ ایسے جوانوں کو آپ دس مشورے دیدیں اور ساتھ ایک ذاتی تجربہ بتادیں تو یہ دس قیمتی ترین مشوروں سے زیادہ اہمیت آپ کے اس ایک ذاتی واقعے کو دینگے۔ اب چونکہ آپ جانتے ہیں کہ میں تو فیس بک پر مخاطب ہی نوجوانوں سے ہوتا ہوں اور حتیٰ المقدور انہی کو کوئی فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں اس لئے اکثر "میں" کا صیغہ استعمال کرتا ہوں اور اپنے تجربات بیان کرتا ہوں کیونکہ یہ نوجوانوں کے لئے وعظ و نصیحت اور مشورے سے بھی زیادہ کار گر رہتے ہیں۔ ایسی ہر پوسٹ پر نوجوانوں کے کمنٹس میں ان کے جذبات چھلک چھلک کر یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ تیر نشانے پر لگا ہے اور "میں" کے نتائج مرتب ہو رہے ہیں جبکہ پینتیس سے پینتالیس سال والوں میں سے بعض کو لگتا ہے کہ میں یہ ذاتی تجربات خود کو کوئی ہیرو شیرو ثابت کرنے کے لئے سناتا ہوں۔ یہ لمبی تمہید ایک "میں" کے لئے باندھی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ نوجوان اس پر غور فرمائیں اور اگر مناسب سمجھیں تو عمل کی کوشش کریں۔
میں کسی قومی یا بین الاقوامی سطح کے واقعے پر فوری ردعمل نہیں دیتا۔ جبکہ آپ نوجوانوں میں سے اکثریت یہ غلطی کر رہی ہے کہ ایک جانب نیوز چینلز کو بریکنگ نیوز میں سبقت کی کوشش میں حقائق کو مسخ کرنے یا جھوٹی خبر کا طعنہ بھی دیتے ہیں اور پھر خود بھی فیس بک پر یہی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اُدھر کسی نیوز چینل پر خبر بریک ہوتی ہے کہ فلاں جگہ دھماکہ ہو گیا ہے اور اِدھر آپ دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی تشویش کا اظہار فرمانا شروع کردیتے ہیں کہ ضربِ عضب کے باوجود آج کا یہ واقعہ کیسے رونما ہوگیا ؟ اور یہ کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں ؟ ابھی آپ کے فرینڈ آپ کے جذبات پر پھول نچھاور کر کر کے آپ کی "فہم و فراست" کی داد سے فارغ بھی نہیں ہوئے ہوتے کہ اُدھر خبر آجاتی ہے کہ کچھ دیر قبل ہونے والا دھماکہ گیس سلینڈر پھٹنے سے ہوا۔
ترک بغاوت کے معاملے میں تو یہاں تک ہوا کہ پانچ سے دس سال کے صحافتی تجربے سے خود کو "سینئر صحافی" سمجھنے والوں نے فوج کے اقتدار پر قبضے کی خبر بھی اپنی وال پر بریک کی جبکہ اردگان کے لیے ایسے جذبات کا بھی اظہار کرنا شروع کردیا جو کسی مرحوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس واقعے میں میرا طرزِ عمل یہ رہا کہ میں نے خبروں میں بغور دیکھا کہ ترکی میں انفولڈ ہوتے اس ایونٹ میں اب تک کیا کیا ہوچکا۔ میں نے دیکھا کہ
(01) ترک فوج کے کچھ یونٹ نے دو پل بند کیے ہیں اور اور دو شہروں میں ٹینک لے کر نمودار ہوئے ہیں۔
(02) ترک وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ پوری کابینہ باغیوں سے محفوظ ہے۔
(03) ترک صدر بیرون ملک ہیں اور باغیوں کی دسترس سے باہر ہیں۔
(04) ترک دارالحکومت میں لڑاکا طیارے اور کچھ ہیلی کاپٹر نیچی پروازیں کر رہے ہیں۔
(05) ترک آرمی چیف کا کوئی بیان جاری ہوا ہے اور نہ ہی ان کا کچھ اتہ پتہ ہے۔
یہی کچھ میں نے دیکھا اور یہی کچھ آپ نے بھی دیکھا۔ آپ نے اس کے نتیجے میں خبر دی کہ اقتدار پر قبضہ ہوگیا اردگان حکومت ختم ہوگئی جبکہ میں نے ان پانچ باتوں سے پانچ نتائج اخذ کیے۔
(01) وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کے بجائے دو پلوں کے کنٹرول کو ترجیح دینے سے لگتا ہے کہ یہ بغاوت نہ صرف کسی جونیئر کے ہاتھوں ہو رہی ہے بلکہ وہ ہے بھی پرلے درجے کا احمق۔
(02) اگر صدر اور وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ اقتدار کے دونوں ایوان اور جمہوریت کا اہم ترین ادارہ یعنی پارلیمنٹ باغیوں کے قبضے میں نہیں ہیں تو نہ ترک حکومت ختم ہوئی ہے اور نہ ہی باغیوں کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
(03) ہیلی کاپٹر آرمی کا ہتھیار ہے جبکہ لراکا طیارہ ایئرفورس کا لھذا یہ عین ممکن ہے کہ ٹینکوں کو وارننگ دینے کے لئے ترک فضائیہ حرکت میں آگئی ہو۔
(04) ماضی میں ہر بحران کے موقع پر اردگان نے عوام کو کال دی ہے اور وہ ہر کل پر لاکھوں کی تعداد میں نکلے ہیں۔ اردگان آج بھی ضرور کال دے گا اور عوام آج بھی نکلے گی۔ ترک فوج 14 سال سے اردگان کا کچھ اسی لئے نہیں بگاڑ پائی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ہر شہر میں لاکھوں انسانوں کا سیلاب آجائے گا۔ جسے کنٹرول نہیں کیا جاسکے گا۔
(05) یہ موجودہ صورتحال ایک بے یقینی کی صورتحال ہے۔ ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
یہ پانچ نتائج اخذ کرنے میں مجھے دس سے پندرہ منٹ لگے اور صاف ظاہر تھا کہ ابھی کوئی رائے قائم کرنا یا وہ رائے پیش کرنا ایک گمراہ کن حرکت ہوگی۔ چنانچہ میری وال خاموش رہی۔ بالآخر اردگان نے قوم کو کال دیدی اور لوگ نکلنے شروع ہوئے۔ جونہی ٹینکوں پر قبضے کی ابتدائی تصاویر آئیں۔ تب میں نے پہلی پوسٹ کی اور صرف اتنا کہا کہ لوگ نکلنے شروع گئے ہیں باغیوں کے ٹینک عوام قبضے میں لے رہے ہیں "لیکن کامیابی کس کو ہوگی یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا" پھر جوں جوں صورتحال واضح ہوتی گئی میری تحریری پوسٹیں بھی آنی شروع ہویں۔ میری درخواست ہے کہ فوری ردعمل نہ دیا کیجئے اس سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اور آپ کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ آپ میں سے جس جس نے ترک حکومت کے خاتمے کی خبر اپنی وال پر دی تھی، اگر وہ پوسٹیں اب بھی ہیں تو ایک نظر ان پر ڈال کر دیکھ لیجئے کہ آپ کیسا فیل کرتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے