’’ایمل‘‘ اماں کی آواز پر چونکی، جب اس نے ایمل کو تیار ہونے کا کہا۔ اس بار بھی ایمل نے بددلی سے جواب دیا۔ اب کی بار کون سا اس کی قسمت کے تارے جگمگانے والے تھے، ہونا تو وہی تھا جو دو سال سے ہوتا آرہا ہے۔ ’’بیٹا تیار ہو جاؤ، دیکھو کتنی دیر ہوچکی ہے۔‘‘ پانچ منٹ میں اماں کی یہ تیسری آواز تھی۔ ’’ان لوگوں نے کون سا مجھے پہلی نظر میں ہی پسند کر لینا ہے، اوروں کی طرح یہ بھی ٹھاٹ باٹ سے آئیں گے اور تواضع مدارات کروا کے آخر میں کوئی خامی نکال کے اپنی راہ لیں گے۔‘‘ تلخ تجربات کا سامنا کرتی ایمل کے دل میں پھر طرح طرح کے وساوس اور خدشات سر ابھارنے لگے تھے۔
یہ صرف ایک ایمل نہیں، پاکستان میں ہزاروں ایسی ایمل ہیں جو اپنے رشتے کے انتظار میں بیٹھی اِن کٹھن ترین حالات کا مقابلہ کررہی ہیں اور نہ نجانے ہر بار انہیں کتنے ہی تیز و تند اور تلخ سوالات کے نشتر سہنے پڑتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی اپر کلاس تو کیا، مڈل کلاس میں بھی یہ رجحان ختم ہونے کے بجائے اور جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ رشتے کی تلاش میں نکلنے والے لڑ کی سے ایسے سوالات کرتے ہیں جیسے اسے فوج میں بھرتی کرنا ہو۔ کم ظرفی اور بے حسی دیکھیے کہ لڑکے کے رشتہ دار اور والدین اپنی بیٹی کو بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایک دن ایسے مراحل سے گزرنے والی ہے۔ کتنی عمر، کتنا قد، کتنی تعلیم اور کیا نوکری جیسے سوالات کا تانتا لگا ہوتاہے، جیسے لڑکی نہیں، کسی پلاٹ یا گاڑی کا سودا کرنے آئے بیٹھے ہوں۔
لڑکا کتنا ہی نکما، اَن پڑھ اور بدشکل کیوں نہ ہو، اسے ہمیشہ کسی ’’تعلیم یافتہ حور‘‘ کی تلاش ہوتی ہے۔ اس کے گھر والے اس وقت یہ بات بھول چکے ہوتے ہیں کہ ان کا لڑکا ’’کوہ قاف‘‘ سے آیا شہزادہ نہیں جو آن کی آن ہر جگہ پسند کر لیا جائے۔ معاشرے کی قدامت پسندی کا یہ حال ہے کہ لڑکی کا رشتہ دیکھنے والی خاتون اپنے اُس ماضی کو بھلا دیتی ہے جس سے وہ خود نمٹ کر آئی ہوتی ہے اور ایک بار پھر اسی روایت کو دوہراتے ہوئے وہی معیار اور وہی مطالبہ ہوتاہے کہ لڑکی خوبصورت ، تعلیم یافتہ اور کم عمر ہو۔ لڑکے والوں کی انہی نخرے بازیوں سے نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کے سروں میں چاندی اتر آتی ہے۔ جس کے سبب بےبس اور مجبور والدین بیٹی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی دلی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔
یہ تو لڑکے والوں کا لڑکی والوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظلم اور سکّے کا ایک رخ تھا۔ لیکن سکے کا دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ کچھ خاندان بیٹیوں کو زیادہ پڑھا لکھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اسی لیول کے رشتے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً اسٹیٹس کے چکر میں وہ بہت سے عمدہ رشتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور بیٹی کی شادی کی اصل عمر گزرجاتی ہے یا پھر خود کے طے کردہ پیمانے اور شرائط سے سمجھوتا کرکے اسے اپنے سے کم اسٹیٹس والے لڑکے سے بیاہنا پڑتاہے۔
پھر اس سے اگلے مرحلے کے توکیا ہی کہنے! کڑی شرائط کے باوجود اگر رشتہ طے ہو جائے تو اب فرسودہ معاشرے کی ایک روایت سر اٹھاتی ہے۔ لڑکے والوں کی طرف سے انتظامات کی لمبی فہرست تھمادی جاتی ہے، جسے پورا کرنا لڑکی کے والدین کے بس سے باہر ہوتاہے۔ اس کے لیے انہیں چارو ناچار قرض کی کڑوی گولی نگلنا پڑتی ہے۔ یہ سوچ معاشرے کو ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف لے جارہی ہے ۔ یہ باتیں یقینا ایک صحت مند معاشرے کی عکاسی نہیں کرتیں۔
اگرمعاشرے کی ان غلیظ اور فرسودہ روایات اور اقدامات کو روکنا ہے تو اس کی ابتدا خود سے کرنا ہوگی۔ لڑکی والوں کو چاہیے کہ وہ لڑکی کو ’’شوپیس‘‘ نہ بنائیں۔ لڑکی والوں کے اس طرز عمل سے لڑکے والوں کو شہ مل جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ لڑکی والوں کی مجبوری ہے۔ اسی سے وہ جائز ناجائز مطالبات منوانے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ بیٹی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، اسے بوجھ سمجھ کر جلد گھرسے نکالنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے،جب شادی کا وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے بخوبی یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔
لڑکے والوں کو سوچنا چاہیے کہ’’حور‘‘ تو صرف جنت میں ہی ملے گی، یہاں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی لڑکی پیدا ہی نہیں کی جس میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں نہ ہوں۔ اس لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں کو برداشت کرنا ہوگا۔ لہذا لڑکی کے منفی پہلوؤں سے پہلو تہی کرتے ہوئے اس کی مثبت اور تعمیری خوبیوںپر توجہ مرکوز رکھیں۔ تبھی جاکر گھرانے خوش گوار زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پائیں گے اور آئندہ نسلیں اعلیٰ روایات کی امین ہوں گی۔
یہ بات تو رشتہ طے کرتے وقت پائے جانے والی خرابیوں سے متعلق تھی، لیکن شادیوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ پاکستانی معاشرے نے شادی کو شادی نہیں، عذاب بنا رکھاہے۔ یہ سوچ ذہن کے نہاں خانوں میں جاگزیں ہوچکی کہ جب تک لاکھوں روپے پاس نہ ہوں گے، شادی کا تصور بھی گناہ ہے۔ کیونکہ نکاح سے پہلے تقریبات کی بھرمار ہے ، ان تقریبات میں سرخ رو ہونے کے لیے پیسہ تو لازمی درکار ہوگا۔ چنانچہ پہلے منگنی کی رسم ہوگی، اس پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جائے گا۔ اس سے فراغت ہوئی تو مہندی کی رسم سر پر منڈلانے لگے گی۔ اس پر ہزاروں پیسے جلائے جائیں گے۔ اس سے سانس لینے کی مہلت ملی تو بارات کے پٹاخوں اور باجوں کی باری آئے گی۔ پھر دلہے کی سجاوٹ و بناوٹ کی خرچے اٹھائے جائیں گے۔ دلہن کو زیورات سے لادا جائے گا۔ یہ سب گل چھرے اڑانے کے لیے پیسہ ہونا تو لازمی ہے، پھر اسی پر بس نہیں، دنیا جہاں میں بسنے والے تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو ان کی نجی مجبوریوں اور پریشانیوں کا لحاظ کیے بغیر شرکت کی پرزور دعوت دی جاتی ہے۔ نہ آنے پر رشتہ ناتا توڑنے کی سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
یہ معاشرے کے بھیانک پن کی نہایت ہی مختصر تصویر کشی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کی نعمت سے نوازا ہے، وہ لازمی خرچ کرے، لیکن فضول رسموں پہ خرچ کرنے سے اس کا تو صرف پیسہ ضایع ہوتاہے جبکہ غریب کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔یہ شاہ خرچیاں جب دوسرے لوگ دیکھتے ہیں تو اسے معاشرے کی روایت سمجھ کر ہر غریب و لاچار پر نافذ کردیتے ہیں۔ ہمارے دین میں ایسی کوئی پابندی نہیں جس کی وجہ سے شادی کو عذاب بنا لیا جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفt مسجد نبوی میں نماز کے لیے تشریف لائے، آپe نے ان کے کپڑوں پر زرد رنگ کی خوشبو لگی دیکھی تو پوچھا تمہارے کپڑے پر زرد رنگ کیسا؟ انہوں نے عرض کیا، یارسول اللہe میں نے ایک خاتون سے نکاح کیا ہے، اس نکاح کے وقت یہ خوشبو لگائی تھی۔
ذرا سوچیے! بہت ہی لاڈلے صحابی جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، انہوں نے نکاح کر لیا اور بلانا تو کیا، اطلاع تک نہیں کی۔ لیکن حضورe نے کوئی شکایت نہیں کی کہ بھائی تم نے ہمیں کیوں نہیں بلایا؟ یہ ساری سردردیاں ہم نے خود ہی پالی ہیں۔ یہ ہماری ذ ہنی اختراع ہے کہ جب تک فضول اور گھٹیا رسومات سے نہ گزرا جائے، شادی کا تصور بھی مشکل ہے۔
اسلام کے بتائے طریقوں پر ہم چلیں اور ہر قسم کے معاملات میںدین اسلام کو سامنے رکھیں تو نہ رشتوں کے ڈھونڈنے میں پریشانی ہوگی اور نہ ہی شادی بیاہ کی سنت پوری کرنے میں۔
تبصرہ لکھیے