بھول گیا کہ آج مؤرخہ 8 نومبر تو لیفٹ ونگ سے میرے پسندیدہ ترین شاعر جون ایلیا کی برسی ہے۔وہی مجنوں قسم کا عجیب و غریب شخص: ”جون بہت عجیب ہوں میں، اتنا عجیب ہوں کہ بس – خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں“ کے خالق۔ ایک ایسا منفرد اور یگانہ شاعر جس کا انداز نہ پہلے گزرے کسی شاعر سےمیچ ہوا، نہ بعد میں کسی صاحب کو ان کے لب ولہجے بات کر تے دیکھا گیا۔ یوں، جون ایک عجیب و غریب شے تھے۔کسی نے درست کہا: "وہ اپنے سلسلہ کے آپ ہی موجد اور آپ ہی خاتم ہیں۔"
وہی جن کی ایک طویل نظم 'اعلانِ رنگ' مجھے زبانی یاد ہے، اور جن کا مجموعہ کلام"شاید" کبھی حرف بہ حرف پڑھا تھا۔فیس بک پر برادر صفتین خان کی ایک با کمال پوسٹ پر نظر پڑی تو دماغ جاگا۔ ویسے کیا خوبصورت جملہ کہا صفتین خان نے:
'جون مرتا ہے تو اقبال جنم لیتا ہے۔' بادی النظر میں یہ سٹیٹمنٹ محض 8 اور 9 نومبر کا اشارہ دیتی ہے۔اگرچہ ہے ذرا گہری بات کہ: کفر/انکار مرتا ہے، تب ایمان جنم لیتا ہے۔یا یوں کہ جون ایلیا مایوسی کی علامت ٹھہری ، جبکہ اقبال رجائیت و امّید کی۔
جون ایلیا کے نزدیک
' حاصل کُن ہے یہ جہانِ خراب – اتنی عجلت میں یہی ممکن تھا،'
تو اقبالؒ کے ہاں 'سرّآدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی' یا 'قلزمِ ہستی سے تُو ابھرا ہے مانندِ حباب – اِس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی'یا 'فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی' ایسی سٹیٹمنٹس خون گرما دیتی ہیں۔
زندگی کی گہما گہمی میں رجائیت کا ساتھ ہو یابے جذبہ یاسیت کا، یہ ہر طرح گزر جاتی ہے، تاہم پُر امّید رہنے والے یہی وقت بہتر احساسات کیساتھ گزارتے ہیں۔اقبالؒ کے یہاں کائنات اور اس اندر موجودات و لوازمات خاص مقصدیت لیے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف جون ایلیا ایسے لوگ اور ان کی شاعری میں عدمِ مقصدیت پر اصرار ہی سب سے بڑی مقصدیت ہے۔
خیر، جون ایلیا بوجوہ دنیائے حرف و خیال میں ایک بڑا نام ہے۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایلیا کی شادی مشہور لیفٹسٹ کالمنسٹ زاہدہ حنا سے ہوئی تھی ، 1970 میں۔ کچھ عرصہ بعد علیحدگی ہو گئی تھی۔یہ بھی کم کم لوگ جانتے ہیں کہ جون ایلیا کی عربی اور فارسی زبانوں میں قابلیت کا یہ عالم تھا کہ مرحوم نے متعدّداہم کتابوں کے تراجم بھی کیے، اور اردو زبان میں متعدّد نئے الفاظ متعارف کرائے۔ سسپنس ڈائجسٹ میں ان کا انشائیہ کمال کی تحریر ہوا کرتی۔ان کے قارئین جانتے ہیں وہ ایک صاحبِ طرز ادیب تھے۔مجرمانہ حد تک اپنی شاعری کی نشر و اشاعت سے پہلو تہی کرنے والا یہ مردِ قلندر دنیائے اردو زباں میں اپنا نقش بڑی مضبوطی سے جما گیا ہے، جو انمٹ ہے۔
میری پسندیدہ نظم 'اعلانِ رنگ' میں سے چند لائنیں ذوقِ طبع کے لیے:
ہجوم گنجان ہو گیا تھا عمل کا اعلان ہو گیا تھا
تمام محرومیاں ہم آواز ہو گئی تھیں کہ ہم یہاں ہیں
ہمارے سینوں میں ہیں خراشیں ،ہمارے جسموں پہ دھجیاں ہیں
ہمیں مشینوںکا رزق ٹھہرا کے رزق چھینا گیا ہمارا
ہماری محنت پہ پلنے والو ہمارا حصہ تباہیاں ہیں!
مگر یہ اک خواب تھا، وہ اک خواب جس کی تعبیر خونچکاں تھی
رقم جو کی تھی قلم نے سرمایے کے وہ تحریر خونچکاں تھی
سفید پرچم نے خونِ محنت کو اپنے سینے پہ مل لیا تھا
یہ وقت کی سربلند تدبیر تھی یہ تدبیر خونچکاں تھی
دیارِ تاریخ کی فضائوں میں سرخ پرچم ابھر رہا تھا
یہ زندگی کی جلیل تنویر تھی یہ تنیر خونچکاں تھی
یکم مئی خون شدہ امنگوں کی حق طلب برہمی کا دن ہے
یکم مئی زندگی کے زخموں کی سرخرو شاعری کا دن ہے
یکم مئی اپنے خونِ ناحق کی سرخ پیغمبری کا دن ہے
یکم مئی زندگی کا اعلانِ رنگ ہے زندگی کا دن ہے
یہ زندگی خون کا سفر ہے اور ابتلا اس کی رہگزر ہے
جو خون اس سیلِ خون کی موجوں کو تند کر دے وہ نامور ہے
یہ خون ہے خون سر زندہ ، یہ خونِ زندہ ہے خونِ زندہ
وہ خون پرچم فراز ہوگا جو خونِ زندہ کا ہمسفر ہے
علی زریون نام کے شاعر نے جون ایلیا کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے:
کیا عجب ہے کہ وہ جو تھا ہی نہیں
لے کے "ہونے" کا معجزہ آیا
صاحب ِ کیفیت بہت ہیں ،مگر
لطف آیا تو جون کا آیا
تبصرہ لکھیے