تعلیم اور تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات آنے والے مستقبل کی نوید ہوا کرتے ہیں۔اگر تعلیمی ادارے اپنے فرائض بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہو ں تو بیس پچیس سال کے اندر اندر اس معاشرے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ پچیس تیس سالوں میں پرانے لوگوں کی جگہ نئے آنیوالی نسل سنبھال لیتی ہے۔اس لیے والدین، خاندان، معاشرہ اور ملک مل کر ایسا نظام ترتیب دیتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ان خصوصیات کے حامل لوگوں کو تیار کیا جا سکے جو معاشرے کی ضرورت ہوں۔ لیکن ہمارے ہاں معاملہ کچھ مختلف ہے اور ستر سال کے بعد بھی ہمارا نظام تعلیم اس بات کا متقاضی ہے کہ یکساں نظام تعلیم ملک کو دیا جائے جو ایک ہی سوچ اور فکر کو جلا بخشے۔لیکن آئی پی ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق 26سے زائد قسم کے مختلف نظام اس ملک میں چل رہے ہیں ایک روز قبل ایک سروے نے کہ جس کے اندر چونکا دینے والے انکشافات نے مجبور کیا کہ ان نکات کو اہل فکر و دانش کے ہاں جگہ ملنی چاہیئے۔ان نکات پر کوئی ’’قومی کانفرنس‘‘ بلائی جائے اور کوئی متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ پانچ ہزار طلبہ و طالبات پر کی گئی اس تحقیق کے مطابق پاکستان کے طلبہ میں بنیادی اور اطلاقی ذہانت کی سطح کم ہو رہی ہے۔ جب کہ طالبات میں بنیادی ذہانت کی سطح بلند ہو رہی ہے دوسری طرف طلبہ میں جذباتی ذہانت کی سطح بلند جب کہ طالبات میں جذباتی ذہانت کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے۔اسی تحقیقا تی رپورٹ کے مطابق ملک عزیز میں ترین لاکھ (3,00,000) سے زائد ایسے نوجوان موجود ہیں جن کے پاس ماسٹر کی ڈگری موجود ہے لیکن روزگار ندارد۔ اسی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دور حاضر کی نوجوان نسل اور خاص طور پر ہمارے طلبہ و طالبات مختلف قسم کے تعلیمی، معاشرتی اور جذباتی مسائل کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بچوں میں انصاف، سچائی، ایمانداری، اخوت ، عزت، ادب و احترام محبت اور شفقت جیسی حقیقی انسانی قدریں کم ہو رہی ہیں۔ جب کہ طاقت و شہرت اور دولت کے حصول جیسی خواہشات زور پکڑ رہی ہیں۔ اسی وجہ سے 90فیصد لڑکے اور 35فیصد لڑکیا ں نامناسب سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ان کی شخصیت میں غیر مناسب اور صاف مثلاً حد سے زیادہ سختی یا نرمی، احساس برتری یا احساس کمتری، وقت کا غیر منظم استعمال ، سوشل میڈیا کا بے جا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔نتیجتاًبری صحبت اور بری عادات کی وجہ سے بچے پسماندگی، اکیلا پن اور ذہنی اضطراب اور سوچ میں کشیدگی جیسی کئی نفسیاتی بیماریوں کا شکار بن رہے ہیں۔
سی ایس ایس کا امتحان کسی بھی ملک و قوم کے لیے بہترین افرادی قوت کو منتخب کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک بھر سے باصلاحیت اور ذہین افراد کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ اور پھر منتخب شدہ افراد کو سول سروسز اکیڈمی میں ملت کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہو جاتی ہے۔ یہیں سے سفارت کار، بیورو کریٹ اور دیگر محکموں کو افرادی قوت مہیا ہوتی ہے۔ لیکن 2016ء کے سی ایس ایس کے امتحان میں حصہ لینے والے امیدواران میں سے صرف 2% لوگ ہی تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کر پائے جب کہ بقیہ اعداد و شمار کو دیکھنے کے لیے آپ متعلقہ ادارے کی ویب سائٹ کو وزٹ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق سعید بک سنٹر جو کہ ایک معتبر نام ہے Books کے حوالہ سے ، پشاور میں اس نے اپنی برانچ کو بند کر دیا کیوں کہ مطالعہ کی عادت خطرناک حد تک کم ہونے کی وجہ سے اس کو اپنے اخراجات چلانا مشکل تھا۔ جب کہ اسی شہر میں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی CDsفروخت کرنے والی دکانوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ان تمام اعداد و شمار کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سطح پر کچھ اقدامات تجویز کیے جائیں۔ سینٹ اور قومی اسمبلیوں میںاس پر بحث و مباحثہ ہو اخبارات اور ٹاک شوز میں اس کو موضوع سخن بنایا جائے ۔ لیکن جو حشر ملک عزیز میں برپا ہے اس میں اس آواز کو کون سنے گا؟لیکن کوئی سنے نہ سنے ، کوئی نماز کے لیے مسجد کا رخ کرے یا میخانے کامؤذن اور پکارنے والے کا یہ کام ہے کہ وہ صدا لگاتا رہے اور اپنے حصے کا کام کرتا رہے۔ لیکن اے کاش!کہ دھرنے پر لگائی جانیوالی رقم کا عشر عشیر بھی کبھی اس قوم کے مستقبل پر لگایا جا سکے۔ کسی جلسے اور جلوس پر لگائی جانے والی رقم کا آدھا حصہ ہی قومی سلامتی کی ان چیزوں پر غور و فکر کے لیے لگایا جا سکے۔ کاش ! میٹرو اور اورنج ٹرین کے منصوبے کی طرح کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل بک اسٹریٹ کو قائم کیا جائے۔ کاش !ٹیلی ویژن چینلز اپنی ریٹنگ سے بالا تر ہو کر سوچ سکیں۔ کاش! کوئی ٹاک شو ان موضوعات کو جگہ دے سکے۔
آج کے اس دور میں کہ جب انسانی قدریں کم ہو رہی ہیں اور کمرشل ازم فروغ پا رہا ہے ۔ لہذ ا ہر چیز اور انسانی تعلقات کو نفع اور نقصان کی بنیادپر ماپا جاتا ہے۔مغربی تہذیب کے غلبے نے ہماری معاشرتی اقدار کو بہت بری طرح مسخ کیا ہے اور پورا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مادیت پرستی نے انسانی قدروں کو بہت بری طرح پامال کیا ہے۔لہذا ہر انسان کا قد کاٹھ اس کی دولت اور اس کے سماجی مقام اور مرتبے سے ماپا جاتا ہے اور اگر یہ دونوں چیزیں ناپید ہوں تو چاہے وہ انسان باطنی طور پر کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، معاشرے میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہ ہو گی۔ دنیا پر موجود سرمایہ دارانہ نظام نے انتہائی برے طریقے سے دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہے اور انسان کو انسانی شرف سے نیچے گرا دیا ہے۔ جبکہ ہماری تہذیب جن بنیادوں پر کھڑی ہے ان میں سچائی، ایمانداری، بڑوں کا ادب و احترام، شرم و حیا، چھوٹوں پر شفقت اور پیار ، صلہ رحمی وہ بنیادی انسانی اوصاف ہیں کہ جن کے بغیر کوئی بھی معاشرت پنپ نہیں سکتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں کہ جب کسی کی مدد بھی کی جاتی ہے تو چاروں طرف کیمروں کی چکا چوند روشنی جہاں اس امداد دینے والے کے مقام اور مرتبے کو اور چار چاند لگا دیتی ہے وہیں لینے والے کو مزید چھوٹا کر دیتی ہے، جب تک ہم اپنے گھر ، سکول اور معاشرے کے ساتھ ہم آھنگ نہیں ہوں گے تب تک ان بنیادی انسانی اوصاف کے بغیر اسلامی تہذیب کا تصور نا ممکن ہے۔ آگے بڑھیے اور معاشرے کی اس ڈوبتی ہوئی نبض پر ہاتھ رکھیے تا کہ اس کو سکون کے لمحات میسر آ سکیں۔ کاش! دوبارہ سے کوئی اقبال اور کوئی سید مودودی ؒ اس قوم کو اللہ تعالیٰ عطا کرے جو ان بھٹکے ہوئوں کو سوئے حرم لے جا سکے۔۔۔ اے کاش! اے کاش!
کاش اے کاش! نصراللہ گورائیہ

تبصرہ لکھیے