جب بھی ترقی کی بات ہوتی تو ہمیں اس میدان میں اپنا مقام بہت پیچھے نظر آتا ہے۔ ترقی کی شاہراہ پر ہماری سواری ایک انجانی سی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے، کہ ہم اس شاہراہ کو عبور کرنے سے پیچھے ہیں؟ کوئی اس کا الزام ہماری سیاست کے سر کرتا ہے، اور کوئی احکام ِشریعہ کی پاسداری کو قصور وار سمجھتا ہے، کسی کے نزدیک پردہ ترقی میں حائل ہے اور کوئی داڑھی، ٹوپی کو اس کی وجہ کہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام درست نہیں، اور کوئی ماحول کو بُرا بتلاتاہے۔ کسی کی نظر میں ہمارے سیاستدان نااہل ہیں، اور کوئی مدارسِ دینیہ کوسب سے بڑی رُکاوٹ گردانتا ہے۔
میرے خیال سے اس کی بنیادی وجہ ہماری تعلیم ہے۔ تعلیم کا لفظ پڑھتے ہی بہت سے ذہنوں نے نظامِ تعلیم کی طرف سبقت کی ہوگی، لیکن اصل خرابی اس نظام میں نہیں، بلکہ اس نظام سے منسلک ہم طلبہ کے حصولِ تعلیم کے مقاصد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک سوال بہت مشہور ہے جو کہ بچوں سے کیا جاتا ہےکہ یٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ بچپن میں اس سوال کی حقیقت سے انجان بچے بڑی خوشی خوشی جواب دیتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بنوں گا، میں انجینیر بنوں گا، میں سائنسدان بنوں گا، اور اس وقت ان کےاس سوال کے مفہوم سے نا آشنا ذہن ، بڑے پختہ عزم کے ساتھ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں پائلٹ بنوں گا، میں فوج میں جاؤں گا، اور میں لوگوں کی خدمت کروں گا، لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد جب حقیقی تعلیمی زندگی میں قدم رکھنے کے لیے اپنی فیلڈ اور کسی خاص پروفیشن کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، تو اس چناؤ میں ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور ترقی کوایک طرف رکھ کر صرف اس بات کو مدّ نظر رکھا جاتا ہے کہ کس فیلڈ میں زیادہ اسکوپ ہے، اورکون سی فیلڈ روزگار میں زیادہ مددگار ثابت ہوگی۔ بچپن میں ملک و قوم کے لیے کیےسارے عہد و پیمان ایک خوشگوار یاد کی طرح ذہن کے کسی کونے میں دَفن ہوجاتے ہیں۔ اور حصول تعلیم کا صرف ایک ہی مقصد طے پاتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے مشیر حضرات کے بھی تمام مشورے اسی بنیاد پر ہوتے ہیں، اور یہیں سے ہمارے نزول کی ابتداء ہوتی ہے۔
پھر جب اسی سوچ کے ساتھ تعلیمی مراحل سے گزر کر عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو یہ فیلڈ اور پروفیشن کا لفظ بھی ختم ہو جاتا ہے، اور اب صرف ایک ہی مقصود باقی رہتا ہے، اور وہ ہے پیسے کمانا۔ اس قسم کی سوچ کے ساتھ پروان چڑھنے والا شخص صرف ایک ہی سوچ لے کر جوان ہوتا ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر حلال، حرام، جائز، ناجائز، صحیح، غلط راستے اختیار کرنے سےگریز نہیں کرتا۔ اور چھوٹی موٹی ہیرا پھیری سے لے کر بڑی سے بڑی کرپشن کرنے سے نہیں کتراتا، اس مقصد کے حصول کے لیے اگر ملک کی نیلامی بھی کرنی پڑے تو کوئی پرواہ نہیں کرتا، اور پھر ملک کو منی لانڈرنگ، پانامہ پیپرز اور کرپشن جیسے مختلف عذابات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جو چند گنےچنے لوگ اس ملک کو ترقی کے تھوڑا قریب لے کر آئے ہیں، وہ بھی اسی تعلیمی نظام سےگزرے تھے، تعلیمی نظام کو کوسنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنےحصولِ تعلیم کے مقصد کو تبدیل کریں، جب ترقی کی بنیادی سیڑھی پر درستگی کے ساتھ قدم رکھا جائےگا تو باقی ساری منازل بآسانی طے ہوتی چلی جائیں گی، اور ہم بھی ترقی کی راہ پر دوسروں کی رفتارکے ساتھ سفر کر سکیں گے۔
تبصرہ لکھیے