قندیل کا نام آتے ہی ہمارے چہروں پہ طنزیہ مسکراھٹ اور لبوں پہ کڑوے کسیلے جملے آپوں آپ جگہ بنا لیتے تھے. اس کی حرکتوں سے کسی معقول آدمی کو دلچسپی نہیں تھی لیکن کیا کیجیے کہ ہر شریف آدمی اس کی ویڈیوز و تصاویر سے استفادہ ضرور کر رہا تھا.
قندیل کے معاملے کو میں نے ہمیشہ مختلف تناظر میں دیکھا. پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی قندیل کی الگ ہی نفسیاتی الجھنیں تھیں. راویتی مرادنہ معاشرہ، غربت اور اس کی نہ پوری ہونے والی خواہشوں نے فوزیہ کو قندیل بلوچ میں تبدیل کیا اور یوں لطف، طنز و استہزاء، شیطنت اور غیرت کے اس سفر کا آغاز ہوا جس کا انجام کم از کم مجھے دکھی کرگیا.
قندیل شہرت و دولت کی بھوکی تھی، کم و بیش ہر انسان ہی ایسا ہوتا ہے البتہ اس کے لیے جو راستہ اس نے اختیار کیا، اس کا اختتام زیادہ اچھا نہیں ہوتا. یورپ و امریکا میں درجنوں قندیلیں پائی جاتی ہیں لیکن وہاں کے معاشرے میں یہ سب معمول جیسی بات ہے البتہ ہمارے یہاں اس سے دھماکہ ہی ہونا تھا جو بالاخر ہو کر رہا
میں قندیل کے بھائی سے زیادہ سماج و میڈیا کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہوں جن کی اکثریت اس سے لطف اندوز ہوتی رہی، اور آخر میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوا جیسا ایس ایس پی رائو انوار جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کے ساتھ کیا کرتا ہے. ریٹنگ و مزے لیتے میڈیا اور معاشرے میں کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اس کی اصلاح کرتے، سید ھا راستہ دکھاتے. ہاں اب اس کی ھہاکت کے بعد غیرت ضرور جاگ گئی کہ اچھا ہوا اس کا انجام یہی ہونا چاہیے تھا. قندیل کو قندیل ہم نے بنایا، اسے استعمال کیا، کہیں مفتی قوی کے تماشے تھے کہیں سہیل وڑائچ کے، کبھی عمران کی شادی پہ اسے میڈیا والے براہ راست لیتے تو کبھی ٹاک شوز کی زینت بنتی اور ان سب سے بچ جاتی تو سوشل میڈیا پہ ہم جیسے اس کی تصاویر و ویڈیوز ادھر ادھر کرکے وقت گزارا کرتے بھلا اس کے خدو خال و حرکتوں سے زیادہ مزیدار تبصرے اور کس چیز میں تھے ؟؟
افسوس کہ جنوبی پنجاب کی فوزیہ کو مولانا طارق جمیل جیسا واعظ بھی نہ مل سکا جو اسے کسی ذاتی مقصد کے بغیر سمجھانے کی کوشش کرتا. قندیل سے دوبارہ فوزیہ بناتا، اس کے جائز مقام پہ پہنچاتا، اس کی آخری ہیجان انگیز ویڈیو کے بعد معاملات سنگین ہی تھے، اسے تو اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ جس آگ سے کھیلنے جارہی ہے، ایک دن اس کی لپیٹ میں آکر رھے گی.
مجھے اس کی حرکتیں کبھی پسند نہیں تھیں لیکن مان لیجیے کہ یہ ہم جیسے ہی تھے جو اسے موضوع بحث بنا کر رکھتے اور یہی قندیل کا مقصد تھا جسے ہمارا سماج اور ہم مل کر پورا کر رھے تھے. قندیل اپنے روایتی معاشرے کے خلاف ایک بغاوت تھی جس نے ردعمل میں ایسا راستہ اختیار کیا کہ اس کے نتیجے میں خود ہی کو برباد کر ڈالا. ایسی عورت جسے علاج و توجہ کی ضرورت تھی اسے ہم نے تیزی سے فوخت ہونے والا کیک بنا ڈالا.
وقت ابھی بھی ہاتھ سے نہیں نکلا ہمارے اردگرد بہت سی قندیلیں موجود ہیں جنھیں ایسے معالجوں اور اصلاح کرنے والوں کی ضرورت ہے جو انھیں مسائل کے گرداب سے نکال سکیں اور حرص و ہوس کی دنیا سے بچا کر پاکیزہ ماحول کا حصہ بنائیں. اس سے پہلے بہت زیادہ ضروری ہوگا کہ ہم اپنے اندر چھپی غلاظت کی صفائی کریں تاکہ کل کو کوئی دوسری قندیل اس انجام تک نہ پہنچے اور اپنی زندگی جی لے. کتنے افسوس کی بات ہے نا کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو خراب کردیتی ہے ، لیکن تالاب کی ساری مچھلیاں مل کر اسے سیدھا نہیں کرسکتیں؟
تبصرہ لکھیے