جی تو آج بات کرتے ہیں امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پڑنے والے قحط کے بارے میں:
جزیرۃ العرب میں اسلام سے پہلے یعنی دور جاہلیت میں جب کبھی قحط پڑتا تو قبائل اپنے پاس جمع شدہ مال پر گزارہ کیا کرتے تھے اور جب ایک قبیلے کا ذخیرہ ختم ہو جاتا، گھروں میں بھوک ناچنے لگتی اور اپنی جانوں کے لالے پڑ جاتے تو لوگ اسلحہ سے لیس ہو کر دوسرے قبائل کو لوٹنے نکل پڑتے، تلواریں خون سے لال ہوجاتیں، بندے کٹ مر جاتے، مائیں بے اولاد ہوجاتیں، عورتیں بیوہ ہو جاتیں، بچے یتیم ہو جاتے پھر کہیں جا کر کچھ دن کا لوٹا ہوا راشن نصیب ہوتا، وہ راشن بھی بس اتنا ہی ہوتا کہ کچھ دن بعد پھر بات لوٹنے پر جا پہنچتی
اس سب میں منافع خوروں کا کردار بھی نمایاں ہوتا، اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ کر دیا جاتا، خوراک تک رسائی صرف امیروں کو ہی ہوتی، غریب بیچارہ یا دوسرے قبائل کو لوٹتے ہوئے جان گنوا دیتا یا پھر گھر میں بیٹھے بلک بلک کر جان دے دیتا
ایسے میں عرب میں طیبہ کا چاند صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چمکا، ہر طرف نور ہی کی برسات ہونے لگی، ایسی پرافروز ساعت پر لاکھوں سلام اور ایسے خوشنصیبوں پر سلام جنہوں نے ایسی ساعت سے اپنی آنکھوں کو منور کیا... دیکھتے ہی دیکھتے یہ نور پورے خطہ عرب میں پھیل گیا اور پوری آب و تاب سے قائم ہو گیا
اسلام کے قیام کے بعد سب سے پہلا قحط سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پڑا، الحمدللہ ثمہ الحمدللہ امام وقت اور خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے ایسی کسی بھی گھڑی سے نمٹنے کے لیئے پہلے سے ہی انتظامات کر رکھے تھے، بیت المال میں اتنا کچھ موجود تھا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے پریشانی لاحق نا ہو سکے، کچھ عرصہ تو ایسے ہی گزر گیا لیکن قحط طول پکڑنے لگا امیر المومنین اور انکی شوری میں اضطراب بڑھنے لگا
اس بار قحط پڑا تو اطمینان کا باعث یہ بات بنی کہ عرب قبائل ایک دوسرے سے نبردآزما ہونے کی بجائے مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اطراف پہنچنے لگے اور خیمہ زن ہوگئے، اہل حل و عقد کے لیئے یہ بات کسی کامیابی سے کم نا تھی اور ساتھ ہی یہ پریشانی بھی لاحق تھی کہ اگر خدانخواستہ قحط طول پکڑ گیا اور بیت المال ختم ہونے لگا تو کیا کیا جائے گا، خود امیر المومنین کا یہ عالم تھا کہ گوشت و دیگر "پرتکلف" کھانے بلکل چھوڑ کر سوکھی روٹی اور تیل کھا کر گزارا کیا کرتے تھے تاکہ ان کی وجہ سے کوئی بھوکا نا سو جائے، راتوں کو خیمہ بستیوں میں جاتے، اشیاء خورد و نوش پہنچاتے، لوگوں کے ساتھ کھانا پکاتے اور خود لوگوں کو کھلاتے
اسی طرح امیر المومنین دوپہر کے وقت تپتی دھوپ میں آرام کرنے کی بجائے مسلمانوں کے معاملات دیکھنے کے لیئے گلیوں اور بازاروں میں پھرتے رہتے، حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرتے، ایک دن دوپہر کو امیر المومنین میدان میں پہنچے جہاں مسلمانوں کے اونٹ بندھے تھے، دیکھا کہ باقی اونٹ تو دبلے پتلے ہیں یعنی قحط کے آثار ان پر نمایاں ہیں لیکن ایک اونٹ موٹا تازہ ہے، حیرانگی کے عالم میں انہوں نے پتہ کروایا کہ یہ اونٹ امیر المومنین کے بیٹے سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہے، آپ فوراً ابن عمر کے پاس پہنچے اور کہا کہ اونٹوں کے رکھوالوں نے تمہارے اونٹ کو میری حیثیت کا خیال رکھ کر کھلایا پلایا ہے اس لیئے مسلمانوں کا حق غصب ہوا ہے، ساتھ ہی نصیحت کی کہ اونٹ کو بیچ کر صرف قیمت خرید واپس لیں باقی کی رقم بیت المال میں جمع کروا دیں
ایک بار امیر المومنین کے غلام حضرت اسلم نے گوشت بھون کر امیر المومنین کو پیش کیا تو امیر المومنین نے کھانے سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ اس گوشت کو مدینہ میں آ کر بسنے والوں کو دے دیا جائے، کافی عرصہ صرف سوکھی روٹی اور تیل پر گزارا کرنے کی وجہ سے امیر المومنین کے چہرے کی رنگت بھی زرد پڑنے لگی، انکی صحت بھی پہلے جیسی نا رہی، وہ راتوں کو اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے، رو رو کر داڑھی تر ہو جاتی، وہ کہتے کہ اگر مسلمانوں پر وبال عمر کے گناہوں کی وجہ سے آرہا ہے تو ائے اللہ عمر کو اٹھا لے تاکہ مسلمانوں کے اوپر سے یہ وبال جاتا رہے
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس تب وافر مقدار میں دولت موجود تھی، انہوں نے شام سے سینکڑوں اونٹ سامان سے لدے ہوئے منگوائے، جب اونٹ مدینہ کی سرحد پر پہنچنے لگے تو چند سرمایہ داروں اور منافع خوروں کی اس کی خبر جا پہنچی، سب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا پہنچے، کسی نے کہا عثمان یہ سب مجھے بیچ دو میں اس سب کا دوگناہ منافع دوں گا، کسی نے کہا مجھے دے دو میں تین گناہ منافع دوں گا یہاں تک کے بات سو گناہ منافع تک پہنچ گئی لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بضد رہے کہ انکو اس سے بھی زیادہ منافع مل رہا ہے، سب منافع خود مایوس ہو کر چلے گئے، اگلی صبح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کے حضور پہنچ کر اعلان کیا کہ مدینہ میں جس کسی کو بھی جتنا مال اپنی ضرورت کے لیئے درکار ہے وہ آکر حسب ضرورت بغیر کوئی رقم ادا کئے لے جائے، جب منافع خوروں نے کہا کہ آپ تو ایک سو گناہ منافع ٹھکرا کر کہتے تھے آپ کو زیادہ منافع مل رہا ہے اور اب یہ سب مال بغیر کسی منافع کے دے رہے ہیں تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اللہ تعالٰی سات سو گناہ منافع دے رہا ہے، اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی
یہ تو تھا دور خلافت راشدہ کا جہاں سب مسلمان برابر کے حقوق کے تحت جی رہے تھے اب بات کرتے ہیں آج کے دور کے چند دانشوروں کی ممدوح جمہوریت کا... ہاں جی اسی جمہوریت کا جس کے بغیر سیاست دانوں اور بھولے بھالے مسلمانوں کے مطابق ملک چل نہیں سکتا اس جمہوریت میں ملک خداداد پاکستان پر آنے والی مصیبتوں کے وقت سیاست دانوں اور ان سے چمٹے منافع خوروں اور علماء کا کردار آپکے سامنے ہی ہے
یہاں زلزلہ آئے، لاکھوں لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھیں تو سیاست دان زلزلے پر اپنی سیاست چمکانے لگتے ہیں، زلزے کو سیاسی طور پر استعمال کر کہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ڈزاسٹر مینجمنٹ نام کی کوئی بھی شے نظر نہیں آتی، منافع خور قیمتیں بڑھا دیتے ہیں لیکن میں زلزلے پر زیادہ بات اس لیئے نہیں کروں گا کیونکہ چند لوگوں کے مطابق بوقت زلزلہ پاکستان کا حکمران جمہوری نہیں تھا
آپ پاکستان کے جمہوری ادوار میں آنے والی مصیبتوں کو دیکھ لیں، یہاں سیلاب آئے، یہاں تھر میں قحط سالی ہوئی، یہاں کراچی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ سیاست دانوں نے اپنے گندے مقاصد کے حصول کے لیئے لگوائی، یہاں دہشتگردی ہزاروں بے قصوروں کو نگل گئی، یہاں انسانی زندگی کی ضروریات سیاست دان پوری نہیں کر پاتے اور پھر الیکشن میں سیاست بھی انہی چیزوں کے نام لے کر کرتے ہیں یعنی جلتی پر تیل ڈالتے ہیں، سیاست دان جب مسند حکومت پر بیٹھتا ہے تو امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے، ان سے حساب مانگنے والوں کو ذلیل کروایا جاتا ہے، سیاست دانوں کے پالتو علماء ایسے لوگوں کا مذاق اپنی محفلوں میں اڑاتے ہیں جو عوام ہی کے مال کا حساب عوام کے سیاست دانوں سے نانگتے ہیں
میاں... لکھنے پر کتابیں لکھی جائیں لیکن عرض یہ کرنی تھی کہ کہاں نبوت کر طریق پر ادا ہونے والی خلافت راشدہ... اور کہاں... کہاں فرعونیت کو بھی شرمسار کر دینے والی جمہوریت... موازنہ کرنے والوں کو بھی کوئی شرم ہونی چاہیے کوئی حیا ہونی چاہیے
تحریر: فاروق الخطاب
تبصرہ لکھیے