ہوم << شوہر نے رخ پھیر لیا، بزنس میں ہوا نقصان - فرح رضوان

شوہر نے رخ پھیر لیا، بزنس میں ہوا نقصان - فرح رضوان

ارشاد صرف نام ہی نہیں تھا اریبہ کی ملازمہ کا بلکہ کام بھی یہی تھا، ہر بات میں مفت اور فوری مشورہ ارشاد فرما دینا اپنا بنیادی حق اور فرض عین سمجھتی، اور اس وقت بھی تن دہی سے اسی کام میں لگی، بےتکان کسی اللہ والی باجی کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی.
”باجی میں کوئی اندھی تھوڑی ہوں کہ تیرا دکھ نہیں دیکھ سکوں، سالوں سے تیرے ساتھ ہوں تو کچھ نہ بھی بولے میں تو سمجھ سکتی ہوں ناں.“
باجی تو وہ اسے عادتا بولتی لیکن اریبہ کو بیٹی کی طرح پیار کرتی تھی، سو باجی کے ساتھ تو تڑاک کا انداز کچھ انوکھا نہ تھا، اور آج تو انوکھے سے کہیں زیادہ خفیہ دکھائی دے رہا تھا،
”باجی تو مانے یا نہ مانے پر کسی نے حسد اتاری ہے اپنی، کچھ کرا دیا ہے تیرے پر، تو بائی سے بات تو کر ساتھ چلنےکی، قسمے اتنا کوئی دور نہ ہوتا تو میں اپنی بیٹی کے ساتھ خود بس پکڑ کے چل پڑتی، لیکن سنا ہے ایک ایک مریض کے اتارے پر گھنٹہ لگ جاتا تو کوئی بات ہی نہیں، تو نہ جانے لمبر وی کون سا لگے اپنا، پتہ ہے ارلے پاسے جو نیلی کوٹھی اے، میری دیرانی اوس دے نال..“
اریبہ نے قدرے جھلا کر اسے دوسروں کی بات کرنے سے روک دیا، ”نہیں سننی مجھے کسی کے گھر کی بات اور تم پھر میرے گھر کی بات بتانا بیٹھ کر دوسروں کو.“
ارشاد اس کے تیور دیکھ کر وہاں سے کھسک گئی، لیکن اریبہ کی سوچ میں تلاطم بکھر چکا تھا. وہ ایک مثبت سوچ رکھنے والی عورت تھی، زندگی کی ہر مشکل کو اس نے چیلنج جان کر قبول کیا تھا اور ہمیشہ کامیابی اس کا مقدر رہی تھی. غم کیا ہوتا ہے؟ مصیبت کسے کہتے ہیں؟ اسے جیسے پتہ ہی نہ تھا. سبھی جاننے والے اس کی کامیاب و خوشحال زندگی پر رشک کرتے تھے ...... لیکن اب جو حالات کا رخ تھا، وہ اس کی سمجھ اور ضبط سے باہر دکھائی دے رہا تھا .... محبت کرنے والا شوہر ہر دم شاکی ہی رہتا، بات ہوتی کچھ سمجھتا کچھ اور پھر اریبہ کو جس انداز اور زبان میں سمجھاتا وہ اس کی روح کو چھلنی کر ڈالنے کو کافی ہوتا. اس کی اپنی صحت نامعلوم طریقے سےگرتی جا رہی تھی، بچوں کی لڑائی دشمنی کی حد تک پہنچ چکی تھی کہ اسے خوف لاحق ہونے لگا تھا کہ دونوں بھائی آپس میں گتھم گتھا ایک دوسرے کو شدید نقصان ہی نہ پہنچا بیٹھیں، بزنس الگ گھاٹے کا شکار تھا، تو دوسری جانب اس کے اپنے والدین بات بات پر اس سے خفا، جب ملنے جاتی اس کے خلاف ایک مقدمہ تیار کھڑا ملتا، وہ نماز تو پابندی سے پڑھتی تھی، صبح کو روز یس شریف بھی عرصے سے پڑھ رہی تھی، اب تو کسی نے دو وظیفے بتائے تھے، وہ بھی بڑے دل سے پڑھ رہی تھی، لیکن گزشتہ کئی ماہ سے تو یہ معمول بن گیا تھا کہ اس کا خاوند کام پر روانہ ہوتا، تب بچے اور ملازمہ کوئی گھر پر موجود نہ ہوتے تب وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رو کر اپنے اللہ سے مدد مانگتی، اپنے رویوں پر خوب غور کرتی کہ کس انداز سے اپنے شوہر کو راضی رکھے کہ اتنے میں ارشاد کام کرنے آن دھمکتی، اس جہاندیدہ عورت نے معاملہ تو کئی دن پہلے ہی جان لیا تھا لیکن آج جب کھل کے بات کی تو اریبہ کو بھی اپنے کچھ قریبی عزیزوں کے رویوں پر یقین کی حد تک حسد کا گمان ہونے لگا تھا.
...........................
بات ناممکن تھی لیکن اس کے شوہر تیمور کوگزشتہ روز کاروبار میں اس قدر گھاٹا ہوا کہ وہ اریبہ کے ساتھ ”باجی“ اور انک ے میاں شیخ صاحب کے گھر جانے پر راضی ہوگیا. صبح سے بیٹھے قریباً بارہ بجے ان کی باری آئی، تیمور کے ذہن میں شیخ صاحب کا حلیہ جو بھی تھا، وہ اس سے یکسر مختلف، اسے عام سے انسان دکھائی دیے، بہت تپاک سے اس سے مصافحہ کیا جیسے برسوں کی جان پہچان ہو، لیکن کوئی کرتب نہیں دکھایا کہ اس کے ماضی حال مستقبل کے بارے میں سب کچھ فرفر بتا رہے ہوں بلکہ ان کی شخصیت میں ایسی اپنائیت تھی کہ تیمور ہی ان سے بہت کھل کے بات کر رہا تھا، جسے وہ بہت تحمل اور غور سے سن رہے تھے.
اریبہ کے ذہن میں باجی کا خاکہ کسی چارپائی سے لگی عمر رسیدہ خاتون کا تھا لیکن وہ اس کے برعکس دکھائی دیں. رسمی تعارف کے فورا بعد ہی انہوں نے کوئی چھوٹی سی دعا تین بار پڑھ کر اس پر پھونکی اور اس کا ہاتھ ہاتھوں میں لے کر سہلاتے ہوئے بس اتنا ہی پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ اور جواب میں خود اریبہ کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو مہینوں سالوں سے کسی سے کچھ نہیں کہہ رہی تھی، ان کے سامنے بچوں کی طرح رو رو کر شکایتیں کرے گی، باجی بھی اسے بچوں کی طرح ہی تسلی دیتی اور چمکارتی رہیں.
.......................................
تیمور کو اندازہ نہیں تھا کہ شیخ صاحب کے اندر اتنا بڑا بزنس مین چھپا بیٹھا ہے، وہ اتنی سی دیر میں اسے کئی گر کی باتیں بتا چکے تھے اور تیمور دل ہی دل میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے ان پر پچھتا رہا تھا، پھر اس نے اپنی محنت و جانفشانی کے دفتر کھول ڈالے کہ دن رات کیسے گھن چکر بنا رہتا ہے اور ساتھ ہی بیوی کی لاپرواہی کا رونا کہ اسے اس کی محنت کی قدر ہی نہیں، بچوں کو بےجا ڈھیل دے رکھی ہے کہ ان کی نظر میں اچھی بنی رہے اور میں روک ٹوک کروں تو بچے مجھے ظالم سمجھیں، کبھی استری کھلی چھوڑ دیتی ہے، بجلی ضائع ہوتی رہتی ہے، رات کو گھر کے لاک تک نہیں چیک کرتی جبکہ میں تو ایک ایک کھڑکی روشن دان کو ٹھیک سے بند کرتا ہوں کہ کوئی چور نہ گھس آئے گھر میں .....
تیمور سانس لینے کو رکا تو شیخ صاحب نے گلا صاف کرتے ہوئے اس سے کہا،
”تیمور صاحب! یہاں آپ ایک نہیں بلکہ تین روشن دان بند کرنا بھول جاتے ہیں، چور آکے صفایا کر جاتا ہے اور آپ کو خبر تک نہیں ہوتی.“
تیمور نے حیرت سے دیکھا تو وہ بولے
”دیکھو بیٹا! یہ جو ہمارا دل ہے ناں، ایک گھر ہے، اس کا ایگزاسٹ فین انسان کی زبان ہوتی ہے جو اگر اپنے برابر یا اپنے سے زور آور کو تو کچھ نہیں کہتی لیکن اپنے سے کمزور پر بھرپور زور آزمائی کیے بنا چین نہیں پاتی تو سمجھو اخلاق کے پرچے میں لال رنگ سے فیل لکھ دیا گیا اور اگر درمیانہ اخلاق برتنے میں کامیاب تو ہو جاتی ہے مگر اللہ کے ذکر سے تر نہیں رہتی تو بھی لال دوات سے لکھا فیل سمجھ لو، اور خدانخواستہ لغو مذاق، لطیفے،گالی تب تو سمجھو اس سے بھی بدتر. ہماری آنکھ اور کان اصل میں دل کے روشن دان ہیں، جب تم ان سے وہ سب سنو گے اور دیکھو گے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے تو فرشتے اس گھر میں بسیرا کریں گے اور دل و دماغ میں فلاح کے مشورے پنپنا شروع ہو جائیں گے، لیکن دن رات آپ مصروف اتنا رہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو مسجد میں جا کر نماز باجماعت پڑھنے کا حکم دیا ہے، اسے چھوڑ کر اپنے آرام کے لحاظ سے گھر یا دفتر میں ہی پڑھ لو، اور پھر تھکن دور کرنے کو ان سب لوگوں کے تیار کردہ مواد سے لطف اندوز ہو، جن پر اللہ تعالیٰ نے قران کے شروع میں ہی بتا دیا ہے کہ یہ لوگ، اللہ کی اس کے فرشتوں اور مقرب بندوں کی لعنت کے مستحق ہیں، آپ خود بتاؤ کہ آپ اپنے بچے سے کہو کہ سکول روز جانا لیکن وہ ہفتے میں ایک بار جائے، آپ کہیں امتحان کی تیاری کرو، فلاں بہت آوارہ ہے اس سے نہ ملو مگر اس کو اس کے بغیر قرار ہی نہ ہو..“
تیمور نے ان کی بات بیچ میں سے اچکتے ہوئے کہا کہ میں سب سے پہلے جیب خرچ بند کروں گا .... اور یہی شاید میرے ساتھ ہو رہا ہے کہ جب تک میں دین میں صحیح غلط جانتا نہیں تھا، مٹی کو ہاتھ لگاتا تو سونا بن جاتی تھی، لیکن رفتہ رفتہ میں نے دین کے بارے میں جانا تو صحیح لیکن عمل کو اپنے بڑھاپے کے لیے اٹھا رکھا تو میرے رب نے اس منہ زور گھوڑے کی لگام کو کھینچنا شروع کر دیا .... بات دل کو کیا لگی کہ رقت اور شرمندگی کے آنسوؤں کے ساتھ تیمور سے بات کرنا محال ہو گیا، اس نے استغفار پڑھنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے وعدے ..... کچھ حالت سنبھلی تو شیخ صاحب کا خوب شکریہ ادا کیا. وہ اسے دیر تک مختلف نصیحتیں کرتے رہے حتی کہ اریبہ کا فون آگیا کہ وہ اس کا انتظار کر رہی ہے.
.......................................
باجی نے اریبہ کے کندھے تھپکاتے ہوئے اس سے پوچھا،
”اریبہ آپ نے اپنے میاں کی خوشی کے لیے اتنی قربانیاں دیں، اپنی اولاد کے لیے، اپنے والدین کی اولاد کے لیے، اور اپنے شوہر کے والدین کی اولاد کے لیے ... اور بدلے میں سب نے الزامات لاد دیے آپ پر، آپ کو نہیں لگتا کہ کاش آپ نے اللہ کو خوش کیا ہوتا ان سب کی جگہ؟“
اریبہ نے حیرت اور دکھ سے بی بی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ،
”ان سب کو میں نے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا پانے کے لیے خوش کیا اور میری کوئی نیت نہیں تھی.“
باجی نے جگ میں سے پانی گلاس میں ڈالتے ہوئے بغور اس کا چہرہ دیکھا اور پانی کا گلاس اسے پکڑاتے ہوئے پوچھا،
”اپنے جیب خرچ سے صدقہ کتنا کرتی ہو؟“
اریبہ نے بتایا کہ ”میں خود نہیں کماتی ہوں، میرے شوہر اور میں مل کر طے کرتے ہیں کہ کسے کتنا دینا ہے، باقی میرا جیب خرچ تو اتنا کم ہے کہ...“
”پارلر پر ہر ماہ کتنا خرچ ہو جاتا ہوگا؟“باجی کا یہ سوال بہت اچانک اور زیادہ ہی پرسنل تھا لیکن ابھی تک جو کچھ خود اس نے بتایا تھا، وہ اس سے کہیں زیادہ نجی نوعیت کی باتیں تھیں .... سو اس نے صاف صاف بتا دیا. باجی نے یہ سنتے ہی کسی کا نمبر ڈائل کیا اور کہا کہ،
”آپ اس بچے کی فیس کی پرواہ نہ کریں، ان شا اللہ آپ کو ہر ماہ یہ رقم مل جائے گی.“
فون رکھ کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئیں اور بولیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو سجنے سے نہیں روکا لیکن اس کی حدود ہیں، اور، جو کچھ پارلرز میں کیمیکلز کی صورت میں ملتا ہے، وہ اصل صورت میں تقریبا ہر گھر میں موجود ہوتا ہے، اگر ذرا سی حکمت سے انہی سے کام چلا لیا جائے تو وہی پیسے جو فقط دو مہینے بھی کسی کے چہرے کو بشاشت نہیں دے سکتے، کسی معصوم کی زندگی بنانے اور آپ کی آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کے نور کا باعث بن سکتے ہیں .... اور سب سے بدترین بات ان پارلرز اور ہماری خواتین کی یہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے، وہ بھنوئیں نوچنے والیوں اور نوچوانے والیوں پر لعنت فرما گئے ہیں اور ایسا ہو نہیں سکتا کہ قرآن میں ہو کہ تم سنتوں سے محبت کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور یہاں میری بہنیں وہ کام کریں جن پر لعنت کی گئی ہے، اور اللہ ان سے محبت کرے بھی، اور ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں بھی ڈال دے؟
میرے پاس کوئی طلسمی چھڑی نہیں لیکن آپ کے پاس اختیار کی قوت ہے کہ جس بات کو آپ جادو سمجھ رہی ہیں، اس کی جڑ کو پکڑ لیں، اپنی محبوب خواہشات کو اپنے قدموں میں لا ڈالیں، چست لباس، زینت سے آراستہ ہو کر کھلے عام پھرنا، وہی تصاویر ہر ایک کو دکھانا، عورتوں ہی کی محفل کیوں نہ ہو، وہاں ناچنا اور مستی کرنا، وہ بات جسے آپ فحش نہ بھی سمجھتی ہوں لیکن آپ کا دین اسے لغو اور فحش بتاتا ہے تو اسے اپنی زندگی سے کاٹ دیں، اللہ کی طرف پلٹ جائیں جسے ہم سچی توبہ کہتے ہیں. اللہ ہی تو ہر شے پر قادر ہے تو کیوں لوگ سب سے بنا کر رکھتے ہیں اور اللہ کو راضی کرنا انہیں دشوار لگتا ہے؟ خواتین کو جوان نظر آنے کا جو شوق ہے، وہ جدید طریقوں سے بھی آخر کو کتنے سال جوان نظر آسکتی ہیں بھلا؟ جبکہ ان شاءاللہ جنت میں گئیں تو ہمیشہ ہمیشہ جوان رہ پائیں گی تو اپنے اس شوق کو دیرپا بنائیں، اتنا عارضی اور اس قدر مصنوعی اور ...... خیر چھوڑو.
اریبہ خاموشی سے ان کی بات سن بھی رہی تھی اور خود کو بھی سمجھا رہی تھی، خود ہی کہنے لگی،
”میں ہر دو سال بعد روٹین لائف سے اکتا کر باہر گھومنے چلی جاتی ہوں، ہزاروں کے گفٹس لا کر بانٹتی ہوں، پر وہی کچھ دن بعد میں بھی سب بھول جاتی ہو،ں لوگ بھی قدر نہیں کرتے، معاملہ اگر دیرپا ہی کرنا ہے تو اتنی بڑی رقم سے تو واقعی بہت سی جنت کمائی جا سکتی ہے، شاید میری روح کو قرار اسی سبب سے نہیں مل پا رہا کہ میں مسکینوں کی راحت کا سامان نہیں کرتی. اسی کو خوش کرنے کی کوشش کرتی ہوں جس سے بدلے میں مجھے عزت محبت سب مل سکے .... شاید مجھے زندگی گزارنے کا ہنر نہیں آیا....“
افسوس اس کے لہجے اور چہرے دونوں سے عیاں تھا. باجی نے لوہا گرم دیکھ کر ایک لمبی سانس لی، پھر بہت دھیمے لہجے میں بولیں، اب ایک بات گرہ میں باندھ لو، وہ جو ایک حدیث ہم بچپن سے جانتے ہیں پر عمل نہیں کرتے، اس پر عمل شروع کر دو. اریبہ نے حیران سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ جس کا مفہوم ہے کہ سورہ البقرہ اور آل عمران کی تلاوت باعث رحمت اور ان کا چھوڑ دینا باعث حسرت ہے.
غور طلب بات کیا ہے بھلا؟ کہ ہم تلاوت کا مطلب محدود کر کے صرف خوش الحانی سے قرآن پڑھنے یا رٹ لینے کو سمجھتے ہیں جبکہ اس لفظ تلاوت میں اس کی باتوں کو سمجھ کر ان پر عمل کرنا بھی شامل ہے. تو ہر روز، کچھ ہی سہی لیکن ضرور ان آیات کا غور و فکر اور تدبر اور عمل کے ارادے اور دعا کے ساتھ پڑھنے کا وعدہ کرو مجھ سے ..... اریبہ نے کچھ وقت لیا، اتنا بڑا وعدہ کرنے سے قبل تو باجی نے ان کے فضائل بتانے شروع کر دیے اور پھر یک دم ان کے چہرے پر مسلسل جمی مسکراہٹ کچھ دیر کو غائب ہو گئی، وہ انتہائی رنجیدہ لہجے میں بولیں،
”اللہ پاک نے تو شروع قرآن میں ہی دنیا کو برتنے کے تمام گر سکھا دیے، یہ سوال پوچھتے ہیں. اس کا یہ جواب ہے، فلاں بارے میں اس کا یہ طریقہ ہے .... اور ہم کہ زندگی گزارنے والی باتوں کو میت کی بخشش کے لیے ہل ہل کے مل مل کے بےسمجھے من گھڑت رسمیں ایجاد کر کے نسل در نسل پڑھے جاتے ہیں.“
اس دوران اریبہ اپنا ذہن بنا چکی تھی. اس نے بی بی سے مصافحہ کرتے ہوئے ان سے پکا وعدہ کیا کہ اللہ نے چاہا تو مرتے دم تک اس روٹین کو نہیں چھوڑے گی، اور آپ کا ساتھ بھی، ابھی تو مجھے آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے، رخصت ہوتے ہوئے پھر اس کی آنکھیں بھر آئیں، تو وہ تیزی سے ان کے کمرے سے باہر آگئی. اسے باہر نکلتے دیکھ کر ایک سادہ لوح عورت نے نزدیک آکر بہت رازداری سے پوچھا.
”بی بی جی! کیا تھا، کوئی بندش تھی؟ جن یا جادو، آپ کا اتارا ہوگیا؟“