ویسے تو بہت سے لکھنے والوں نے اس پر بہت کچھ لکھا اور چینلز نے بہت کچھ دیکھا یا بھی ہے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اگر میں کچھ لکھوں تو میں سمجھونگی دل سے برا جانا یا پھر میں نے بھی ایک معاشرتی برائی کے خلاف جہا د کی ۔ میرا قلم شائید آج بہت سے رشتوں کو بے نقاب کردے یا پھر ان کی آنکھیں کھولنے میں معاون ثابت ہو جو اپنے ارد گرد میں موجودبہت سے رشتوں سے غا فل ہیں یا پھر اندھا اعتماد کرتے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے !یہ وہ جملہ ہے جو ہم اکثر وبشتر سنتے ہیں ۔ انسان کی رگ رگ میں شیطانیت موجود ہوتی ہے ۔ لیکن شیطان ہاوی صرف اس وقت ہی ہوتا ہے جب کوئی تیسرانہیں ہوتا ، مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی یہ برائی ایسی ہے جو بہت کم ہی منظر عام پر آتی ہے۔اسکی وجہ صرف اور صرف اپنی اور اپنے خاندان کے نام کا بھرم قائم رکھنا ہے کہ لوگ سنیگں تو کیا کہنگے ہمار ی عزت کا تو جنازہ نکل جائے گاا! بہت ہی افسوس کا مقام ہوتا ہے جب اپنے ہی کسی پیارے نے اپنے ہی کسی پیارے کو اپنی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہو تا ہے یہ وہ لمحہ ہے جب انسان بے بس ہوتا اتنا بے بس کے بہت کچھ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود کچھ بھی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا باپ، بھائی ، چاچا ، دادا، ماموں ، بہنوئی یہ وہ رشتے ہیں جنھیں ہم بہت تقدس کے نظر سے دیکھتے ہیں شیطانیت کا حملہ بھی زیادہ تر ان ہی رشتوںکی جانب سے ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان کا اس میں بڑا عمل دخل ہے دوسری بڑی وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟
حد سے ذیادہ اندھا اعتماد یا پھر والدین کی بے جا مصروفیات ؟
یا پھر اسلاف کے سرمائے کو طاق میں رکھ دینا ؟
بہنوئی کے علاوہ باقی رشتے تو ہمارے محرم ہوتے ہیں پھرمحرم سے ایسی غیرشرعی غیر اخلاقی غلطی کیسے سرذد ہوجاتی ہے ؟
انسانیت پر شیطانیت کیسے حاوی ہوجاتی ہے یہاں اگر ان تمام کا ذمہ دار میں تنہائی کو ٹہرادوں تو شائید غلط نہ ہوگا ،تنہائی خود کو جاننے کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ خود سے اپنے رب سے یا پھر برائی سے بہت قریب ہوجاتے ہیں اگر آپ خود سے رب سے قریب نہیں ہیں تو اس تنہائی کو فوری طور پر ختم کردیںاس سے پہلے کے آپ انسانیت کھودیں !دنیا میں تقریبا 9.7 % بچیاں7.9% بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔جن میں سے 30 فیصد اپنے ہی پیا رے رشتوں کے ہاتھو ںہی بر باد ہوتے ہیں ۔60%وہ ہوتے ہیں جن سے سرسری تعلق ہو تا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگ معاشرے کا ناسور ہیں جو اس معاشرے کو کینسر زدہ بنارہے ہیں ۔ہم میں بہت سی بری بیماری جیسی برائی کا جنم تب ہی ممکن ہوتا ہے کب ہم اپنے دین سے دور ہوتے ہیں ، دنیا کا کوئی بھی مذہب ہمیں اسطرح کی برائی کی اجازت نہیں دیتا ہے اس کے باوجودہر مذہب کے لوگوں میں یہ برائی موجود ہے کیا ہمیں تربیت کا انداز بدلنا ہوگا؟ کیوں کہ ہمارے یہاںہم بچوں سے کھلے لفظوں میں بات نہیں کرپاتے ہم انہیں آنے والے برے حالات یا لمحات کے بارے میں وقت سے پہلے آگا ہی نہیں دے پاتے ہم اپنے بچوں سے حقا ئق کو چھپا رہے ہوتے ہیںاس کے برعکس دور جدید میں بچے کسی چیز سے انجان نہیں ہیں لیکن پھربھی بچے تو بچے ہیںانھیں ایک صحیح سمت کی ضرورت زندگی کے ہر موڑ پر رہتی ہے ۔
والدین کو چائیے وہ اپنے بچوں کو وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف امور پر آگاہی دیتے رہیں ضرورت سے زیادہ تنہائی انسان کو مجرم اور ملزم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں دوسری طرف نشانہ بننے والے وہ بچے ہوتے ہیں جو گھروںسے دور ہوتے ہیں child labourممنوع ہونے کے باوجود آپ مختلف جگہوں پر ’’چھوٹو‘‘کو کام کرتے ہوئے پائنگے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ان بچوں کی راتیں آسیب ذدہ سائے تلے گذرتی ہیں خوف ہراس کے دلدل سے گذرتے ہوئے تاریک ماضی کو پیچھے دھکیلتے ہیں اور مستقبل کی جانب گامزن ہوتے ہیں ایسے بچے جب بڑ ے ہو جاتے ہیں تو ان میں کچھ ماضی کی تکلیف دہ باتوں کو یاد کرتے ہوئے ان چھوٹو پر ترس کھاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا بدلا مستقبل کے چھوٹو سے لیتے ہوئے اپنے دل کو تسکین دے رہے ہوتے ہیں،یہ ایک سائیکل ہے جس کا چکرشاید ختم نہ ہو آبائو اجداد نے جو بویا ہے وہ تو بحرحال کاٹنا ہی پڑے گا اور اسے کاٹنے میں ہاتھ پائوں بلکہ پورا وجود لہو لہان ہو سکتا ہے بلکہ ہو رہا ہے اگر اس کا سدباب کیا جائے توہمیں اس کے لیے کیا کرنا ہوگا ؟
ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں ایسے مکالمہ شامل کرنے ہونگے جوا نھیں ظلم اور برائی کے خلاف بولنا سکھائیں ان کے دلوں کے وہ ڈروہ خوف نکالنا ہوگا جو انھیں اپنی زبان بندرکھنے پر مجبور کرتے ہیں اپنے بچوں سے نرم ولطیف لہجہ میں بات چیت کرنا ہوگی تاکہ وہ اپنے مسائل والدین کی ہی مدد سے حل کر سکیں ۔ہمارے یہاں بچوں کی باتوں کو اہمیت نہیںدی جاتی اکثر و بیشتر انکی باتیں سنی ہی نہیں جاتی ۔بہت سے موقع پر انھیں تلقین کی جاتی ہے کہ وہ خاموش ہوکر بیٹھیںانھیں بہت کم اجازت ہوتی ہے اپنے خیالا ت کا اظہار کریں جس کی وجہ سے وہ خاموش ہوتے چلے جاتے ہیں اس طرح کہ بچے پھر نشانہ بنتے ہیں ،۔ہمارے ماضی نے ہمارے مستقبل کے لیئے ببو ل بویا ہے نا جانے ہم کب تک اس ببل کو کاٹتے رہینگے خداراببول بونا بند کردیں تاکہ آنے والے وقتوں میں ہم اس کے نتائج مثبت طور پرطور پر حاصل کر سگیں ۔معصومیت کو کسی بھی آنچ کا خطرہ نہ ہو!
تبصرہ لکھیے