میں دھرنے میں شرکت ضرور کروں گا، کرپٹ حکومت روک سکتے ہو تو روک لو.
ان شاءاللہ اپنے لیڈر کی قیادت میں ہم روشن پاکستان کی بنیاد رکھیں گے.
وہ پرجوش گھر سے نکلا مگر چار کندھوں پر واپس آیا تھا.
حالات کافی کشیدہ تھے.
پتھراؤ، لاٹھیاں، آنسو گیس کی شیلینگ، فائرنگ،
حکومت اپنی کرسی بچانے کے لیے ہر حد پار کر گئی تھی.
ادھر انقلابی سوچ کو موت نے نگل لیا تھا،
روشن پاکستان کا خواب لیے دو آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی تھیں.
یہ موت بھی نا..
جب جینے کا طریقہ آ جائے، اپنا حق مانگنا آ جائے، ظلم کے خلاف کھڑا ہونا آ جائے، انسان کامیابی حاصل کرنے والی خود اعتمادی کی زنجیر سے بندھ جائے، تب موت ہی وہ واحد شے ہے جو اس زنجیر کو توڑتی ہے.
اس نوجوان کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا تھا.
اسے اپنے گزرے ہوئے سالوں پر افسوس تھا، گزری ہوئی زیست پر ملال تھا.
اس نے اپنے ووٹ کا صحیح استمال نہیں کیا تھا تو ہی تو غربت جان نہیں چھوڑ رہی، غلط لوگ منتخب ہو کر عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں.
لیکن اب اسے عقل آ گئی تھی، وہ اپنے مستقبل کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے تیار تھا لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ جس مستقبل کے وہ سپنے دیکھ رہا، جس جگہ جن لوگوں کے درمیان رہ کر دیکھ رہا ہے، انھیں اس کی کوئی پروا نہیں.
اس نوجوان کی ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی، اس کی دنیا اجڑ گئی تھی، کتنی مشکل سے فاقے کاٹ کاٹ کے بیٹا پڑھایا تھا کہ پڑھ لکھ کر ان کی غربت دور کرے گا، بڑھاپے کا سہارا بنے گا.
جس کا بیٹا بھائی مرتا ہے، اسی کی زندگی مرتی ہے، اسی کو دکھ ہوتا ہے، دوسرے لوگ وقتی ہمدردی اور رسمی بول ادا کر کے اپنی زندگی میں واپس مگن ہو جاتے ہیں.
چین تو اس کا لٹتا جس کا بیٹا مرتا ہے.
وقت گزرتا رہا.
چند سالوں بعد اس نوجوان کی ماں بہت خوش تھی، مرحوم بیٹے کا خواب جو پورا ہوا تھا، اس کا پسندیدہ لیڈر وزیراعظم بن گیا تھا.
لیکن محض چند سالوں بعد ہی اس ماں کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، سالوں پہلے مرے بیٹے کا ماتم، آج اس کا دل چاہتا تھا کہ چیخ چیخ کر منائے، اذیت بڑی تھی، اس لیڈر پر بھی اربوں روپے کی کرپشن ثابت ہوئی تھی البتہ حکومت گرانے کے لیے دھرنا اب کوئی اور لیڈر دے رہا تھا..
تبصرہ لکھیے