نکاح کے بعد دو مرد و عورت آپس میں میاںبیوی بن جاتے ہیں اور یہی دونوں ایک دوسرے کے حقوق زوجیت کی ادائیگی کے واحد ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس طرح ان دونوں کے آپس کے حقوق زوجیت کے ادا کرنے سے شہوانی ہیجان ختم ہوتا رہتا ہے اور عفت و عصمت کی راہیں مضبوط ہوتی رہتی ہیں۔جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک دنیا کے تمام انسانوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ نکاح اعلانیہ طور پر کرتے ہیں اس کی نہ صرف اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دوسروں کو اطلاع دی جاتی ہے بلکہ اس تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ ناراض رشتہ داروں ہر ممکن طریقے سے راضی بھی کیاجاتا ہے۔
کسی مرد و عورت کا بغیر عقد نکاح کے جوکہ ایجاب و قبول پر مشتمل ہوتا ہے آپس میں ہم بستری کرنا زنا کہلاتا ہے۔زنا ایک ایسا مکروہ، قبیح اور بُرا فعل ہے کہ جس کی خود زانی اور زانیہ فخریہ طور پر اعلان نہیں کرتے بلکہ چھپ چھپا کر خفیہ طور پر اس عمل کو کیا جاتا ہے گویا کہ انسانی فطرت بھی اسی سے نفرت کرتی ہے اور اس کے غلط اور بُرا ہونے کا احساس رکھتی ہے۔ اگر ان کے نزدیک یہ اچھا کام ہوتا تو وہ ضرور شادی کی طرح اس کا اعلان کرتے اور اس سے پہلے تقریب کا اہتمام کرتے۔
شریعت میں زنا کی ممانعت:
قرآن مقدس میں جگہ جگہ زنا کی مذمت بیان کی گئی ہے، کہیں فرمایا
زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقیناً وہ بڑی بےحیائی اور بُری راہ ہے۔ (بنی اسرائیل 32)
کہیں فرمایا:
بے شک یہ بری بے حیائی اور نفرت کی بات تھی اور بہت بُرا طریقہ تھا۔ (نساء 22)
کہیں فرمایا:
اور (ایمان والے)زنا نہیں کرتے۔ (فرقان 68)
احادیث میں زنا کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : شرک کے بعد کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑھ کر گناہ نہیں ہے جس کو کوئی شخص کسی ایسے رحم میں رکھے جو شرعاً اس کے لیے حلال نہ تھا۔ (بحوالہ تفسیرابن کثیر جلد3صفحہ38)
نبی ۖ کا ایک اور ارشاد ہے: زناکار جس وقت زنا کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا۔ (مشکوٰة، باب الکبائر)
اس کی وضاحت نبی اکرم ۖ نے اپنے ایک اور فرمان میں اس طرح فرمائی: (مشکوٰة باب الکبائر)
'بندہ جب زنا کرتا ہے اس وقت ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور اس کے سر پر سایہ بن کر ہوتا ہے اور زانی جب فعل زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف پلٹ آتا ہے۔نبی جب کسی عورت سے بیعت لیتے تھے تو انہیں چند باتوں سے منع کیا جاتا تھا، جن میں زنا بھی شامل ہے:
اور (وہ عورتیں) بدکاری نہیں کریں گی اور اپنے بچوں کو قتل (بھی) نہیں کریں گی۔ (الممتحنہ 12)
نبی اکرم کا ارشاد ہے: زنا کسی قوم میں عام نہیں ہوتا مگر ان میں بکثرت موت ہوتی ہے۔(مشکوٰة ،صفحہ 459)
اسی طرح نبی کا ایک اور ارشاد ہے : جس قوم میں جب زنا پھیل پڑتا ہے تو اُسے قحط سالی کی مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے اور رشوت کی گرم بازاری ہوتی ہے تو اس پر خوف طاری کردیا جاتا ہے۔ (مشکوٰۃصفحہ 313)
حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا : جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اﷲ تعالیٰ اس قوم میں مصیبت کو پھیلا دیتا ہے۔ (تاریخ ملت، جلد2صفحہ40)
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ
کسی بستی میں سود اور زنا جب پھیل پڑتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس بستی کی ہلاکت کی اجازت مرحمت فرما دیتا ہے۔ (الجواب الکافی، صفحہ 220)
واقعہ معراج میں نبی ۖ کا گزر ایک ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت رکھا ہوا تھا اور دوسری ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا بدبودار گوشت پڑا تھا اور ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ کچا اور سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے اور پکا ہوا نہیں کھا رہے تھے، حضورۖ نے پوچھا کہ یہ لوگ ہیں؟ جبرئیل امین نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں کہ جو حلال بیوی یا شوہر کو چھوڑ کر حرام کاری اور زنا میں مبتلا رہتے ہیں یعنی زناکار مردوں اور زناکار عورتوں کی مثال ہے۔ (تفسیرروح البیان جلد5صفحہ 111)
زنا کے نقصانات:
زنا کے ذریعے سے پیدا ہونے والی اولاد کا نسب مشتبہ ہوجاتا ہے ۔جب بچے کا نسب مشتبہ ہوگیا تو اس کی پرورش کا ذمہ دار کوئی مرد نہیں بنتا اس طرح ایک بچے کا ضائع ہوجانے کا یقینی خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور وہ بچہ سرپرست نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوکر ردنیا کے امن و چین کی تباہی کا ذمہ دار بنتا ہے۔اگر زنا کے ذریعے سے حمل ٹھہرجائے اور زانیہ اسقاط کرادے اور وہ حمل چار ماہ سے زائد کا ہو تو زنا کے ساتھ ساتھ زانیہ قتل کی مجرم بھی ہوگی اور یہ نسل انسانی کے انقطاع کا ذریعہ بھی بنے گی۔زانیہ ایک سے زائد افراد کے ساتھ اپنے ازدواجی تعلقات قائم کرتی ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر اس عورت پر کسی کو بھی دسترس حاصل نہیں ہوسکتی۔ تمام مرد اس پر قبضہ کرنے کی طرف کوشش کریں گے اور وجہ ترجیح کسی کو بھی حاصل نہ ہوگی۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں کشیدگی پھیلے گی بلکہ قتل وغارت گری کا بازار بھی گرم ہوگا۔جس عورت کو زنا کی لَت پڑ جاتی ہے کوئی بھی شریف النفس آدمی اُسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ معاشرے میں ایسی عورت سے نفرت کا اظہار دیکھا جاتا ہے۔ اور وہ ذلت آمیز نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔زنا کے اس عمل کے نتیجے میں کسی خاص مرد کو کسی خاص عورت سے کوئی خاص محبت باقی نہیں رہے گی جس کو جہاں موقعہ مل گیا جس کو چاہا بلا لیا، اپنی مستی نکال لی، نتیجے میں انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔زنا کے ذریعے سے صرف جنسی تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں ایک انسان باکردار شخصیت کا رُوپ نہیں دھار سکتا۔ جبکہ معاشرے میں باکردار انسان ہی تعمیر انسانیت اور تعمیر معاشرہ کے کام آتا ہے۔
دنیامیں زنا کی سزا:
اسلام کو سزائیں دینے سے ایسا شغف نہیں ہے جتنا جرائم کے سدباب سے ہے۔ لہٰذا زنا کے ثبوت کے لیے اسلام نے شرائط بہت سخت رکھی ہیں جو درج ذیل ہیں:
1…زانی اور زانیہ کو زنا کرنے کی حالت میں چار مرد دیکھیں۔ سوچنے کی بات ہے! اسلام نے نکاح جس کے ہزاروں گواہ بن سکتے ہیں وہاں دو ہی گواہ رکھے ہیں اور زنا جس کا ایک گواہ بھی ملنا مشکل ہے اس کے ثبوت کے لیے بیک وقت چار گواہ مانگے ہیں۔
2…یہ چار گواہ اپنی گواہی میں معتبر بھی ہونے چاہییں۔ اگر ان میں سے کوئی گواہ جھوٹا ثابت ہوا تو اُسے قاضی اَسّی(80) کوڑوں کی سزا دے گا اسے اصطلاح میں حدقذف کہتے ہیں اور اس ڈر سے کوئی آدمی بغض، حسد عداوت، کینہ کو بنیاد بناکر جھوٹا الزام لگا ہی نہیں سکتا۔
3…ان گواہوں کی گواہی کے بعد زنا ثابت ہوجانے پر جو شرعی سزا دی جائے گی اس کی تکمیل سے پہلے اگر کوئی گواہ اپنی گواہی سے دستبردار ہوجائے تو زانی اور زانیہ کی سزا بھی موقوف ہوجائے گی۔ مندرجہ بالا ثبوت کی شرائط کی روشنی میں زنا کی سزا جو رکھی گئی ہے وہ(١)غیرشادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے سو سو (100) کوڑوں کی سزا ہے(٢) اگر زانی اور زانیہ شادی شدہ ہیں تو انہیں سنگسار کرنا کیاجائے گا،یعنی لوگ پتھرمار مار کران کاخاتمہ کردیں گے۔
دورِحاضر میں یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ زنا کے ثبوت پر دی جانے والی اسلامی سزا ایک وحشیانہ فعل ہے (نعوذباﷲ) جبکہ اگر قتل کر دینا ہی مقصود ہے تو آج دیگر کئی آسان ذرائع یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عرض ہے کہ جب اسلام نے اس سزا کو نافذ فرمایا اس وقت بھی قتل کردینے کا دوسرا آسان ذریعہ موجود تھا یعنی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جاتا ،لیکن اس ذریعے کے موجود ہونے کے باوجود سنگسار کی سزا کا نافذ ہونا اس مصلحت کی بناپر ہے کہ اگر کوئی گواہ منحرف ہوجائے تو سزا موقوف ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمتیں ہوتی ہیں،جنہیں اس علیم وخبیر کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔بندہ کہتے ہی غلام کو ہیں، غلام اگر آقاکی باتوں میں حکمتیں ڈھونڈنااور اعتراض کرنا شروع کردے تووہ فرماں بردارغلام نہیں کہلاتا،ہم بھی اس ذات احد وصمدکے بندے ہیں ،ہمیں بھی اس کے ہر حکم کو بلاچون وچراتسلیم کرلینا چاہیے، زنا کی مذکورہ سزا بھی اﷲ تعالیٰ کی نافذ کردہ حد ہے اور اس کے بارے میں شک و شبہ یا انکار کرنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔
تبصرہ لکھیے