مظہر حسین اسلام آباد کے نواحی علاقے ڈھوک حیدر علی کا خوشحال شخص تھا، ذاتی گھر کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی زمین بھی تھی، پھر ایک ٹرک بھی تھا، باحیا باوفا بیوی اور تین پھول سے بچوں کے ساتھ زندگی مالی پریشانیوں سے فاصلے پر بڑے سکون سے گزر رہی تھی لیکن یہ فاصلہ اس وقت اچانک ختم ہو گیا جب 1997ء میں مظہر حسین کا کسی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا، یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے ڈھوک حیدر علی کے دو خاندانوں کو آمنے سامنے لے آیا، تعلقات ملنا جلنا ختم ہوگیا، دونوں خاندانوں کے لوگوں کا سر راہ سامنا بھی ہو جاتا تو نظریں پھیر لی جاتیں، یہ رنجش وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھنے لگی اور پھر وہ ہوا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔
اس جھگڑے کو آٹھ ماہ ہوئے تھے کہ مظہر حسین کے مخالف کے چچا محمد اسماعیل کا قتل ہو گیا، مقتول کے بھائی منظور نے مقدمے میں مظہر حسین پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ملزم نامزد کر دیا، پولیس نے پھرتی دکھائی، مظہر حسین کو محمداسماعیل کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا، تفتیش ہوئی اور پولیس نے مظہر حسین کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کر دیا، پھر رائج طریقہ کار کے مطابق مظہر حسین پر فرد جرم عائد کردی گئی جس کا اس نے انکار کیا اور مقدمے کی سماعت کے لیے ایک اچھا وکیل کر لیا، مقدمہ چلتا رہا، عدالت میں پیشیوں پر پیشیاں پڑتی رہیں، مظہر حسین کی مالی آسودگی تنگ دستی میں بدلنے لگی، مظہر حسین کا بوڑھا باپ عدالتوں کے چکر پر چکر کاٹنے لگا، وہ اپنے بوڑھے وجود کے ساتھ ہر پیشی کی صبح مظہر حسین کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھ کر امید دلاتا ہوا گھر سے عدالت کے لیے نکل جاتا اور شام ڈھلے ڈھلکے ہوئے کاندھوں کے ساتھ واپس آتا تو مظہر حسین کی اہلیہ سمجھ جاتی کہ آج پھر تاریخ پڑ گئی ہے۔
دوسری طرف مقتول کے خاندان والوں نے مظہر حسین کو پھانسی دلوانے کا مصمم اراداہ کر رکھا تھا، انہوں نے عینی شاہدین پیش کر دیے، گواہوں نے قرآن اٹھا کر حلفیہ بیان دے دیا کہ جی قاتل مظہر حسین ہی ہے، اسی نے محمد اسماعیل کا خون کیا ہے، پولیس کے پیش کیے جانے والے شواہد اور گواہوں کے بیان پر عدالت نے ملزم مظہر حسین کو مجرم قرار دے دیا اوراکیس اپریل2004ء کو مظہر حسین کو تین لاکھ روپے جرمانہ اور سزائے موت سنا دی۔
جس وقت مظہر حسین کو سزا سنائی گئی، اس کی اہلیہ کی عمرمحض چھبیس برس تھی، اس کا بیٹا شہباز صرف آٹھ سال کا تھا، منجھلی بیٹی ارم پانچ برس اور چھوٹا بیٹا زعفران تو صرف چھ ماہ کا شیر خوار تھا، مظہر حسین کا بوڑھا باپ فائلیں اٹھا اٹھا کر وکیلوں کے آسرے دلاسے پر عدالتوں کے چکر کاٹتا رہا اور پھر ہمت ہی نہیں زندگی بھی ہار گیا. مظہر حسین کے والد کے انتقال کے بعد اس کے تایا اور چچا نے مقدمے کی پیروی کی لیکن ہمارے ملک میں انصاف کے حصول کے لیے مینار پاکستان جیسے دس میناروں کی سیڑھیاں بھاری جیبوں کے ساتھ ساتھ غیر شروط طور پر چڑھنا پڑتی ہیں، ان بوڑھوں میں اتنی سکت بھلا کب تھی، وہ گھسٹ گھسٹ کر چلتے رہے اور زندگی ہار کر اپنے بھائی کے پاس اس جہاں میں پہنچ گئے۔
مظہر حسین کا اب کوئی پرسان حال نہیں تھا، ساری جمع پونجی خرچ ہو چکی تھی، بچے رل گئے تھے، اہلیہ شوہر کے ہوتے سوتے بیوہ ہو چکی تھی، جب تک مظہر حسین کے والد تایا اور چچا زندہ تھے، وہ مظہر حسین کا مقدمہ لڑ رہے تھے، ان کی آنکھیں بند ہوئیں تو ان کی اولادوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں کہ کون کب تک ساتھ دیتا. مظہر حسین کی ’’بیوہ‘‘ اور بیٹی ہاتھوں کے کشکول اٹھائے اللہ تعالی سے دعائیں مانگتے رہتے کہ قدرت کوئی معجزہ دکھا دے، ہماری عدالتوں سے انصاف کا حصول معجزہ ہی تو ہے۔ مقدمہ سیشن کورٹ کی حدود پھلانگ کر ہائی کورٹ پہنچ گیا، ادھر مظہر حسین کے بچے بھی لڑکپن کی حدود پھلانگ چکے تھے، باپ کی جیل نے ان کی معاش ہی نہیں ان کی زندگی بھی تباہ کر کے رکھ دی تھی، وہ اسکول جا سکے نہ اپنا کیرئیر بنا سکے. ایک کے حصے میں کرین کے گیئر اور دوسرے بھائی کے ہاتھوں میں ٹرک کا اسٹیئرنگ آیا اور ’’مجرم باپ‘‘ کی شہزادی بیٹی بالوں میں چاندی کے تار آنے کا انتظارکرنے لگی۔
مقدمہ اسی طرح چلتا رہا، مظہر حسین کے بھائی محمد افضل نے اپنے بھتیجوں بھتیجی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس برے وقت میں ان کا ساتھ دینے لگا، وہ بھائی کا مقدمہ کسی نہ کسی طرح لڑتا رہا، اس عرصے میں مقدمہ کی فائل سیشن کورٹ سے ہوتی ہوئی ہائی کورٹ اور پھر وہاں سے سپریم کورٹ آچکی تھی. محمد افضل نے سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی تھی، سیشن کورٹ سے سپریم کورٹ تک اس مقدمے کی عمر انیس برس ہو چکی تھی لیکن یہ انیس برس ایک بےوسیلہ شہری کی زندگی کا فیصلہ کرنے کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں؟ معزز عدلیہ ابھی تک حتمی فیصلہ نہ کر سکی فیصلہ کیا کرتی، مقدمے کی پیشی ہوتی تو سماعت بھی ہوتی، یہاں تو سماعت ہی نہیں ہو رہی تھی، فیصلہ تو بعد میں ہوتا کہ مظہر حسین مجرم ہے یا اسے باعزت بری کر دیا جائے۔
مظہر حسین کے بھائی نے 2010ء میں اپنے بھائی کی پھانسی کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی تھی، یہ اپیل چھ برس تک فائلوں میں کہیں دبی رہی، جن فائلوں کو اٹھانے والے بااثر ہاتھ نہ ہوں، ان فائلوں کا نصیب ایسا ہی ہوتا ہے، اسے اتفاق کے سوا کیا نام دیا جائے کہ چھ اکتوبر 2016ء کو سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کے سامنے یہ فائل آگئی، جسٹس آصف سعید کھوسہ بنچ کے سربراہ تھے، پولیس کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف پیش ہوئے لیکن مدعی اور مجرم کی طرف سے حیرت انگیز طور پر کوئی پیش نہ ہوا، اس عرصے میں مجرم کے وکیل شاہد عباسی صاحب جج بن چکے تھے اور صرف جج ہی نہیں ہائی کورٹ کے جج ہو چکے تھے، ایک جج کس طرح عدالت میں وکیل بن کر پیش ہوتا سو وہ پیش نہ ہوئے، جسٹس کھوسہ کے دل میں جانے کیا آئی، وہ سماعت ملتوی کرنے کے بجائے مقدمے کی فائل کھول کر بیٹھ گئے، وہ جیسے جیسے فائل پڑھتے گئے ان کی آنکھیں کھلتی چلی گئیں، تھوڑی ہی دیر میں بنچ کو اندازہ ہوگیا کہ مجرم کو اس مقدمے میں پھنسایاگیا ہے اور وہ بےگناہ ہے. جسٹس کھوسہ نے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ
’’ہم نے فلموں میں سنا تھا کہ جج صاحب مجھے میری زندگی کے بارہ برس لوٹا دیں لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک شخص انیس برس سے جیل میں بے گناہ پڑا ہے، اسے اس کے یہ انیس برس کون لوٹائے گا؟‘‘
سپریم کورٹ نے مظہر حسین کو باعزت رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے لیکن مظہر حسین تو ان احکامات سے پہلے ہی رہا ہوچکا تھا، اس کے دل نے دو برس قبل ہی اس کا مزید ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا، اسے مارچ 2016ء کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ وہ بےجان لاش بن کر جہلم جیل کے پھاٹک سے باہر آگیا، مظہر حسین کی زندگی ہی میں بیوہ کی زندگی گزارنے والی اس کی اہلیہ حقیقی معنوں میں بیوہ اور اس کے بچے یتیم ہوگئے. مظہر حسین کو اس کے اہل خانہ نے چارکندھوں پر لیا اور اسے منوں مٹی تلے دفنا دیا، جیل انتظامیہ نے ڈیتھ سرٹیفکٹ بھی جاری کر دیا لیکن کسی وجہ سے یہ سرٹیفکٹ مظہر حسین کی فائل میں نہ لگ سکا اور وہ فائل سرکتی کھسکتی ہوئی جسٹس کھوسہ کے سامنے آگئی، شاید قدرت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کے ساتھ ہونے والا کھلواڑ دکھانا مقصود تھا۔
اب اسی اکتوبر2016ء کا ایک منظر یہ بھی دیکھ لیں، یہ ایک کھلا میدان ہے جس میں ایک شخص کوگھٹنے موڑ کر بٹھایا گیا ہے، اس کا سرجھکا ہوا اور ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے، چہرے پر چڑھے نقاب کے سبب اس کے پیلے زرد چہرہ اور تھرتھراتے ہوئے لب نہیں دیکھے جا سکتے، اس کے پیچھے ایک تنومند جلاد ننگی تلوار لیے کھڑا ہے اور پھر وہ چمکتی ہوئی تلوار بلند ہوتی ہے، بجلی کی سرعت سے اپنے ہدف کی طرف لپکتی ہے اور شخص کا سر کندھوں سے کاٹ کر زمین پر گرا دیتی ہے. جانتے ہیں یہ قلم ہونے والا سر کس کا تھا؟ یہ سعودی شاہی خاندان کے نوجوان ترکی بن سعود الکبیر کا تھا، سعودی شاہ کے عزیز پر الزام تھا کہ اس نے تین برس قبل اپنے دوست کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا، مقدمہ اس ملک کی عدالت میں پیش ہوا جہاں جمہوریت کی ’’ج‘‘ بھی نہیں، کھلی بادشاہت ہے. مقدمہ قاضی کے پاس پہنچا، ملزم کے گھر والوں نے قصاص دینا چاہا، ملزم اور وہ بھی شاہی خاندان کا اور شاہی خاندان بھی سعودیہ کا، صرف سوچا ہی جا سکتا ہے کہ ملزم کے ورثا نے کیا کیا پیشکش نہ کی ہوگی، اگر کوئی یہ کہے کہ ڈالروں سے بھرے ٹرک کی چابیاں سامنے رکھی ہوں گی تو غلط نہیں ہوسکتا، ان کی حیثیت اس سے بھی زیادہ تھی اور پھر سعودی شہزادے کی عمر بھی بمشکل بیس بائیس برس رہی ہوگی، ماں باپ عزیز و اقارب نے کیا کیا نہ کوششیں کی ہوں گی لیکن مقتول کے گھر والوں نے قصاص میں سعودی شہزادے کے سر کے سوا کچھ قبول کرنے سے انکار کر دیا، سو تین برس بعد ہی فیصلہ ہوگیا، سعودی شہزادے کا کٹا ہوا سر زمین پر تھا اور یہ زمین وہی ہے جہاں 73ء کے آئین کے تناظر میں کوئی حیلہ بہانہ تراشتا ہے نہ کوئی این آر او کے تحت جیل کے پھاٹک کھول کر قاتلوں کو رہا کردیتا ہے۔
سیلانی کو مظہر حسین اور ترکی بن سعود ایک بہن کی ٹیلی فون کال پر یاد آگئے، بلدیہ ٹاؤن سے فون کرنے والی بہن کا کہنا تھا کہ اس کے کزن نے مردان میں ان کے والد کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے، ڈیڑھ سال ہونے کو ہے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو رہا، ان کے شوہر کا ایک پاؤں کراچی میں ہوتا ہے اور دوسرا مردان میں، اس مقدمے بازی سےگھریلو حالات متاثر ہو رہے ہیں، وہ بیچاری سیدھی سادی گھریلو خاتون معلوم ہو رہی تھیں. سیلانی سے عمران خان کا نمبر مانگنے لگیں کہ ان سے عدالتوں کی شکایت لگائیں گی اور جلد انصاف مانگیں گی جو ان کا حق ہے۔ سیلانی کو سادہ مزاج بہن کی اس سادگی پر بےاختیار مظہر حسین یاد آگیا، اس نے چاہا کہ وہ بہن کو مظہر حسین کی کہانی سنائے اور بتائے سمجھائے کہ وہ سعودی عرب کی بادشاہت میں نہیں جمہوریت کی فضا میں سانس لے رہی ہے، وہ جمہوریت جو بدترین ہو کر بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے صرف ملک ریاض اور پرویز مشرف ہی استفادہ کر سکتے ہیں، آپ نے مقدمہ جیتنا ہے تو اپنے بیٹے کو ملک ریاض یا پرویز مشرف بنائیں ورنہ جس حال میں ہیں، رب کا شکر ادا کریں۔ یہ سوچتے ہوئے سیلانی چشم تصور سے بنا جرم کیے انیس برس کی قید کاٹنے والے مظہر حسین کا جنازہ جہلم جیل کے پھاٹک سے نکلتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
ہوم << جمہوری تماشا - احسان کوہاٹی
تبصرہ لکھیے