پھر آگیا عورت کے حقوق کا دن۔ کیوں مناتے ہیں اس دن کو دنیا بھر میں؟
کیا ملتا ہے یہ دن منانے سے؟
کیا عورت کی تمام حق تلفیوں کی تلافی ہوجاتی ہے اس ایک دن کے منانے سے؟
بس عورت سے حقوق کے نام پر وہ کچھ کروا لو جو کسی طرح اس کے مرتبہ کے شایان شان نہیں، برابری کا جھانسا دے کر اسے سڑکوں پر لے آؤ یا خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے نام پر اس کے جسم کی قیمت لگا دو، چاہے ایک روپے والی ٹافی ہی کیوں نہ ہو۔ کتنی سستی خریدی جا رہی ہے آج کی عورت، مگر افسوس کہ اسے ادراک ہی نہیں۔
رابیل غصے میں بولتی ہی چلی گئی. ابھی تو وہ ثمرا کے گھر جانے کا سوچ رہی تھی مگر فون کرنے پر پتہ چلا کہ وہ کسی این جی او کے ساتھ خواتین ڈے منانے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں گئی ہوئی ہے۔
اس نے فون رکھا اور اور سارا غصہ سامنے بیٹھی شانزے پر نکال دیا۔
شانزے ہلکے سے مسکرائی اور کہنے لگی، عورت کو وہ تمام حقوق تو چودہ سو سال پہلے بتا دیے گئے تھے، جن کی تلاش میں یہ نادان سرگرداں ہیں، اور آج اس سے بھی کم ان لوگوں سے مانگنے چلے ہیں جو عورت کو کچھ دینے نہیں بلکہ اس سے سب چھیننے کے درپے ہیں۔
کیا صرف حقوق بتا دینے سے حقوق مل جاتے ہیں؟ رابیل نے شانزے کی بات کاٹتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں سوال کرڈالا۔
کیا مطلب کیا کہنا چاہتی ہو ؟ شانزے نے چونک کر پوچھا۔
مطلب یہ کہ اگر یہ این جی اوز اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ایک مشرقی عورت کو حقوق کا جھانسا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو کیوں آخر؟
کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ جن حقوق کی بات چودہ سو سال پہلے کی گئی تھی، ان میں سے کتنے حقوق ہیں جو آج یہ معاشرہ عورت کو دے رہا ہے؟
کیا اس معاشرے نے عورت کو اس کے وہ سب حقوق دے دیے ہیں جو اسے اسلام نے دیے تھے؟
ایک عورت جس کے لیے کہاگیا کہ ماں ہو تو پیروں تلے جنت، بیٹی ہو تو دوزخ سے آزادی کا پروانہ، بیوی ہو تو بہترین متاع، بہن ہو تو عزت، کہاں ہے آج وہ جنتیں؟ جائیں ذرا جا کر اولڈ ہاؤسز میں دیکھیں، ان دیمک لگتی جنتوں کو جو اپنی اولادوں کے ہاتھوں اس انجام سے دوچار ہوئی ہیں.
وہ رحمتوں کی قدر کرنے والے کہاں ہیں؟ میں کبھی بھی نہیں بھول سکتی وہ روح کو ہلا دینے والا واقعہ جب ثمینہ کے پڑوس میں پانچویں بیٹی پیدا ہونے پر باپ نے تیل گرم کر کے کھولتے تیل میں نومولود بچی کو ۔
آہ ۔۔۔
رابیل کی آواز رندھ گئی تھی اور آنکھیں بہنے لگی تھیں۔
اور بہن جو عزت کہلاتی ہے مگر سب کچھ کھلے عام کرتا پھرتا بھائی جب بہن کے بارے میں کوئی ایسی بات سن لیتا ہے تو اس کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور وہ تصدیق کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا اور غیرت کے نام پر اپنی ہی بہن کا قتل کرنے سے نہیں چوکتا۔
یعنی اپنے لیے کچھ اور معیار اور بہن کے لیے کچھ اور۔
وجہ یہ کہ وہ ایک عورت ہے؟
دنیا کی بہترین متاع وہ ہے جس کے لطیفہ بنائے جاتے ہیں، قہقہہ لگائے جاتے ہیں، اور پبلک میں ایسے ڈسکس ہوتی ہے جیسے اس کی کوئی عزت نفس ہی نہیں، گھر کی عزتوں کے چوک میں بیٹھ کر ٹھٹھے نہیں اڑائے جاتے۔ اسے ایسا بنا دینا جیسے ہر برائی کی جڑ بس ایک بیوی ہی ہے۔ جس کی خوبیوں کو سراہنے کا، اس کی تعریف کرنے کا، اسے محبت دینا فرض کر دیا شوہر پر، مگر شوہر اس کی ہر خوبی کو نظر انداز کرنا اور ہر خامی کو اجاگر کرنا فرض عین سمجھتا ہے۔
جو سجی سنوری بیوی پر ایک نگاہ نہیں ڈال سکتا، اس کی نظریں دور جاتی ماسی کو بھی گلی نکڑ تک چھوڑنے جاتی ہیں۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی تو میں اور سارا ایک ساتھ پارلر گئے تھے، جب پارلر والی نے اس کی آئی بروز زیادہ باریک کردی تھیں تو میں نے اسے کہا کہ لو آج تمھارا شوہر تمہیں نہیں پہچانے گا، بالکل ہی لک چینج آ رہی ہے۔
اس کے لہجہ سے جھلکتی احساس محرومی کو میں نے خوب محسوس کر لیا تھا.
وہ بولی، ان کو تو اس وقت بھی نہیں پتہ چلتا اگر یہ میری پوری آئی بروز بھی غائب کر دیتی۔ ان کو نہیں پتہ ہوتا کہ میں کیا پہنتی ہوں، کیسی لگتی ہوں؟ وہ بولتے ایک دم چپ ہوگئی تھی۔ شاید پارلر میں بیٹھی دوسری خواتین کی موجودگی کے احساس سے.
ایک دم مجھے ساتھ والی مسز گل یاد آئیں کہ اکثر اپنے شوہر کی بات کرتے ہوئے کہتی تھیں کہ گل کا تو یہ حال ہے کہ وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس کو ساتھ والی گاڑی میں بیٹھی عورت کی لپ سٹک کا کلر بھی پتا چل جاتا ہے، کہتا ہے اس کی لپ اسٹک کا کلر دیکھو کتنا اچھا ہے، تم ایسی کلر کی کیوں نہیں لگاتی۔ میرا خون جل جاتا ہے کہ ابھی بھی میں نے اسی کلر کی لگائی ہوئی ہے، تم نے دیکھا بھی ہے۔ ایک کے حقوق ادا نہیں کرسکتے اور شوق چار چار کا۔ مسز گل بڑ بڑاتیں۔
میں نے اس وقت تو ان کی بات سن کر ہنسی میں اڑا دی تھی مگر آج مجھے لگتا ہے کہ وہ ان کی اندر کی خواہش تھی محبت کی، سراہے جانے کی، جو اب دکھ بن کر نکل رہی تھی۔
مگر یہ حقیقت ہے شانزے کہ جاہل سے جاہل مرد جسے قرآن کی کوئی آیت یاد نہ ہو مگر اسے یہ ضرور یاد ہوگا کہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے، اسے یہ نہیں معلوم کہ اگر دونوں بیویوں میں عدل نہیں کرپایا تو قیامت کے دن آدھے دھڑ سے اٹھایا جائےگا۔ اور یہ کہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم دوسری بیوی لانے کا اردہ کرلو تو جو کچھ پہلی کو دے چکے ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔
یاد ہے بشری باجی کی بہن، چار سال سے شوہر طلاق دیتا ہے نہ ساتھ رکھتا ہے، خود دوسری شادی کر چکا اور اپنا دیا ہوا سامان دینا تو درکنا وہ تو اس کے جہیز کا سامان تک دینے کو تیار نہیں، چار سال سے خلع کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے۔ کیا قصور اس کا، یہی نا کہ بس ایک عورت ہے؟
ایک درجہ ہی زیادہ دیا ہے نا اللہ پاک نے مرد کو۔
مگر بیوی سے محبت سے پیش آنے اور اس کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے، کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی اجازت تو نہیں دی نا، ایک انسان ہونے کے ناتے تو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ پھر جو سارا دن گھر میں ماسی بھی بنی رہے تو بھی اس کی ماسی جتنی عزت بھی نہیں۔ پچیس تیس سال کی ازدواجی زندگی میں بہترین ماہ و سال دینے کے بعد بھی مرد کا پہلا طعنہ اور دھمکی یہی ہوتی ہے نا کہ نہیں کر سکتی گزارا تو جاؤ، یہ راستہ ہے، جاؤ اپنے باپ کے گھر۔
پھر کہتے ہیں کہ معاشرے میں طلاق کا ریشو بہت بڑھ گیا۔
کیا یہ بھی سوچا کہ کیوں بڑھا ہے؟ یہی ہیں وہ وجوہات جو گھروں کو گھر نہیں بننے دیتیں۔
معاشروں میں بگاڑ حق تلفیوں کی وجہ سے آتے ہیں، عورت محبت چاہتی ہے اور وہ محبت جو صرف اس کا شوہر دے سکتا ہے مگر آج جب اسے وہ محبت وہاں سے نہیں ملتی تو شیطان اسے دوسری طرف لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
تمہیں یاد ہے نا شاہین خالہ کی بیٹی رضیہ، چار بچوں کی ماں، بڑی بیٹی بارہ سال کی اور سب سے چھوٹا بیٹا تین سال کا، یاد ہے ہم پچھلے مہینے جب گاؤں گئے تھے تو میں رات اسی کے ساتھ سوئی تھی، اس نے جو کچھ بتایا، میرے لیےوہ سب ناقابل یقین تھا۔
اس کی فیس بک پر کراچی کے کسی لڑکے سے دوستی ہوگئی تھی جو ڈاکٹر بن رہا تھا اور وہ اس سے شادی کا وعدہ کر چکا تھا۔
میں سن کر چونک گئی کہ تم شادی شدہ ہو۔
اس نے کہا کہ میں نے خلع لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مگر کیوں؟
اس نے اپنے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہا، شاید مجھ سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی، تم جانتی ہو نا میری شادی کو تیرہ برس ہونے کو آئے ہیں، اور میں نے آئی آر میں ماسٹرز کیا تھا، اور پوزیشن ہولڈر ہوں اپنی یونیورسٹی کی، مگر آج مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں گھر کی ہر خرابی کی ذمہ دار، ایک جاہل، پھوہڑ، ناسمجھ اور بدتمیز نافرمان عورت ہوں، اور یہ سب کون مجھے اٹھتے بیٹھتے باور کرواتا ہے، وہی جس کو اللہ نے میرا لباس بنایا اور مجھے جس کا لباس بنایا، جس کو مجھ سے محبت کرنے کہا گیا، مگر وہ مجھے ہر ایک کے سامنے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، اس وقت مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں بے لباس ہوگئی ہوں، میرا لباس پھٹ گیا ہے، میری روح تار تار ہوگئی ہے ۔ میری تعلیم، میری عبادتیں، میرے لیے طعنہ بن چکی ہیں، جب بھی کوئی بات ہونے لگتی ہے، میں کچھ کہوں تو جواب ملتا ہے، اپنی ڈگری کی دھونس مت دو، اپنے پاس رکھو، مجھے مت پڑھاؤ، مجھے پتہ ہے تم کتنی نیک ہو۔
میں خاموشی سے اس کا ایک لفظ پنے اندر گرتا محسوس کر رہی تھی۔
میں نے ٹوٹے ٹوٹے لہجے میں اس سے پوچھا تمہاری تیرہ برس کی ازدواجی زندگی میں کوئی محبت کے لمحات نہیں آئے، تمہارے چار بچے ہیں؟
اس نے میری بات کاٹ کر کہا، تم جسے ازدواجی تعلقات کہتی ہو، وہ مرد کی ضرورت تو ہو سکتی ہے مگر محبت نہیں۔ وہ ضرورت تو جانوروں کی بھی ہوتی ہے، بچے ان کے بھی ہوتے ہیں مگر یہ محبت ہی ہے جو انسان اور جانور کے درمیان تمیز کرتی ہے، محبت چند لمحوں کے لیے نہیں ہوتی، محبت اور عزت ساتھ ہوں تو گھر بنتے ہیں، جہاں عزت نہ ہو وہاں محبت پیدا ہونے کا امکان بھی نہیں ہوتا۔
وہ کون ہے جو تمہیں یہ سب دے سکتا ہے؟ میں نے سوال کیا۔
وہ میڈیکل کے فائنل ائیر میں ہے، وہ میری ہر بات سمجھتا ہے، میری کیفیات کو محسوس کرتا ہے، وہ میری عزت کرتا ہے، وہ سب جانتا ہے میرے بارے میں، اس کے باوجود مجھے اپنانے کو تیار ہے۔
تم جانتی ہو، یہ سب گناہ ہے؟ میرا اگلا سوال تھا۔
ہاں! میں جانتی ہوں مگر رابیل، اگر وہ نہ ہوتا تو میں شاید خودکشی کر لیتی یا میرا نروس بریک ڈاون ہوجاتا۔
وہ مجھے وقت دیتا ہے، مجھے سنتا ہے، اس نے مجھ میں زندگی کی خواہش پیدا کی، میں بھی اسی گناہ سے بچنے کے لیے خلع لینے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔
میں سناٹے میں تھی، رضیہ جہاں تک پہنچ چکی تھی، وہاں اسے سمجھانا بےکار تھا۔ مگر یہ سوچ رہی تھی کہ دونوں طرف سے وہ مرد ہی کے ہاتھوں پامال ہو رہی تھی، ایک طرف ایک مرد اگر اس کی عزت نفس کو مجروح کر رہا تھا، اسے اس کا جائز مقام نہیں دے رہا تھا، اور اسے اس مقام تک لانے والا تھا، تو دوسری طرف اسے بےراہ روی پر ڈالنے اور خواب دکھانے والا بھی اک مرد ہی تھا۔
رضیہ یہ دنیا بھول بھلیوں کی طرح ہے، کبھی کبھی جو نظر آرہا ہوتا ہے، حقیقت میں وہ ویسا ہوتا نہیں، اور کبھی ہم ان پگڈنڈیوں سے بچنے کی چاہ میں انھی میں کھو جاتے ہیں اور کبھی ان ہی میں رلتے ہوئے پھر وہیں آ کھڑے ہوتے ہیں، جہاں سے نکلے تھے، اپنی زندگی کو ان پگڈنڈیوں سے بچانے کے لیے بس اللہ کی ذات کا سہارا اور اسی پر بھروسہ کام آسکتا ہے، میں بس اسے اتنا ہی کہہ پائی تھی۔
دیواروں سے صرف مکان بنتے ہیں شانزے! انھیں گھر بنانا ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے سے اور محبتوں کے تبادلے سے بنتا ہے۔
محبتیں جن کا حق ہوں ان کے لیے ناپید ہوجائیں تو پھر ایسے معاشرے ناسور بن جایا کرتے ہیں۔
رابیل کا چہرہ بولتے بولتے سرخ ہوچکا تھا اور آج لگا تھا جیسے وہ ساری دنیا کی عورتوں کی وکیل بنی کھڑی ہے اور اس نے آج سب حساب چکا دینے کی ٹھانی ہے۔
شانزے نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنے ساتھ لگا لیا۔
دھیرے سے بولی، اچھا تم بتاؤ کہ اس میں اسلام کا کیا قصور؟
میں نے اسلام کو کچھ نہیں کہا مگر میں صرف اتنا کہتی ہوں آپ آج اس معاشرے میں اسلام کے دیے ہوئے حقوق عورت کو دینا شروع کر دیں تو آپ کی عورت مغربی تہذیب کے جھانسے میں نہیں آئے گی، وہ ان سب کو دھتکار دے گی مگر یہ تب ہوگا جب ماؤں کی جنت تلاش کرنے والے اس وقت اس کے پاس ہوں گے جب اس کا ساتھ اس کے اپنے اعضاء بھی نہیں دیتے۔
بہترین متاع کو بہترین متاع بنانا ہوگا، سمجھنا ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ عورتیں سب ٹھیک کرتی ہیں مگر میرے نبی ﷺ نے تو لونڈی تک کی تربیت کر کے اس سے نکاح کرنے کا کہا، تو کیا اس بہترین متاع کی تربیت نہیں ہوسکتی؟
ہوسکتی ہے شانزے! عورت سب کچھ چھوڑ دیتی ہے، سراپا تبدیل ہو سکتی ہے، مگر محبت سے، نفرت، سختی اور تذلیل سے نہیں۔
جھوٹ جوگناہ کبیرہ کہا گیا، مگر میاں بیوی کے درمیان جو محبت کے لیے بولا جائے، اسے جھوٹ نہیں کہا گیا۔
کیا کہتا ہے رب کہ اگر تمہیں اپنی بیوی کی ایک بات نہ پسند آئے تو درگزر کرو کہ نجانے اور کتنی خوبیاں اس میں ہوں گی۔
سختی کا تو حکم اللہ نے بھی نہیں دیا، نبی ﷺ نے بھی فرمایا کہ عورت کی تخلیق پسلی سے کی گئی، اس لیے اس میں ٹیڑھ ہے، اس کے ساتھ نرمی سے رہو۔
جس کی تخلیق اللہ نے ہی ایسی کی ہو، اس میں اس عورت کیا کیا قصور۔
جو مرد اپنی بیویوں کی عزت کرتے ہیں، انہیں محبت دیتے ہیں، ان کے گھر جنت ہوتے ہیں، اگرچہ ایسی مثالیں بہت کم ہی ہیں، مگر ہیں تو سہی نا۔ کیا ہمارے نبیﷺ کی مثال ہمارے سامنے نہیں، ان کا اسوہ ﷺ کہ کیسے انہوں نے اپنی ازواج سے محبت کی؟ کیسے ان کی تربیت کی اور کیسے انہیں رکھا؟ سب کچھ ہے بس، اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے،
بیٹی کو دوزخ سے آزادی کا پروانہ بنانا ہوگا، اس کی بہترین تربیت کر کے۔ بہن کو عزت بنانے کے لیے بھائی کو عزت دار بننا ہوگا۔ معاشرہ مردوں کا نہیں بلکہ اسلامی معاشرہ بنانا ہوگا۔
تب ہی ہم اسلام کے چودہ سو سال پہلے کے دیے ہوئے حقوق عورت کو دے سکیں گے ورنہ مزید چودہ سو سال تک بھی اگر ہم صرف یہ پڑھ پڑھ کر سناتے رہے تو بھی کچھ نہیں ہوگا۔ صرف سنانے سے حقوق نہیں مل جایا کرتے، حقوق و فرائض ادائیگی کے لیے ہیں، دوسروں کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ اصلاح کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی غلطیوں کوتاہیوں سے صرف نظر کیا جائے، پہلے اسے یہ یقین دیا جائے کہ سامنے اس سے محبت کرنے والا اور اس کی پرواہ کرنے والا ہے جو کبھی اس کی تذلیل نہیں چاہے گا، اور جو اس کے لیے سب بہتر سوچ رکھنے والا ہے، ایک عورت کو یہ یقین اور اعتبار دینا ہوگا، جب یہ دے دیا جائےگا تو تم یقین جانو شانزے! عورت خود کو اس کے لیے قربان کر دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی اور عورت کا یہ اعتماد ایک نسل اور قوم کا اعتماد بن جائے گا.
شانزے اس کی تمام باتوں کے جواب میں صرف آمین کہہ پائی کہ ان میں سے کسی بات سے اختلاف ممکن نہ تھا۔
تبصرہ لکھیے