کہتے ہیں کہ ایک ملک کا بادشاہ بہت سخی دل تھاجو بھی حاجت روائی کے لیے بادشاہ تک رسائی حاصل کر لیتا تو وہ بادشاہ اس کے دامن کو بھر دیتا۔ اسی سخاوت اور دریا دلی کی وجہ سے بادشاہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ ایک د ن بادشاہ اپنے وزراء اور درباریوں کے ساتھ اپنا دربار لگائے بیٹھا تھا کہ بہترین لباس زیب تن کیے، ٹائی لگائے اور قیمتی جوتے پہنے ایک شخص ا س کے دربار میں حاضر ہو ا لیکن یہ کیا اس بظاہر امیر ترین شخص کے ہاتھ میں تو کشکول ہے تو کسی بھکاری کے ہاتھ میں ہوتاہے۔ دربار میں بیٹھا ہر شخص حیرانی کے عالم میں کبھی اس شخص کے بننے سنورنے کو دیکھتا تو کبھی اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس کشکول کو۔ ۔ ۔ ۔دربار میں ایک سناٹا طاری تھا ہر کوئی محو حیرت تھا کہ یاخدا !یہ ماجرا کیا ہے؟ بھکاری ہے کہ بادشاہوں کے روپ میں آیا ہے۔ ’’ مانگو! کیا مانگتے ہو؟‘‘ اچانک دربار میں ایک گرج دار آواز گونجی۔ ۔ ۔ یہ بادشاہ سلامت تھے۔ ۔ ۔ بہترین لباس میں ملبوس اس شخص نے نہایت ہی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنا کشکول آگے بڑھایا اور گویا ہوا ’’ حضور ! اللہ آپ کی بادشاہت کو تا قیامت شاد و آباد رکھے، آپ کی سخاوت کا ڈنکا بجتا رہے بس مجھ عاجز کا کشکول بھر دیں‘‘بادشاہ نے ایک نظر اس بھکاری کی طرف دیکھا اور پھر فوراًاپنے گلے کے ہاراتارے، انگوٹھیاں اتاریں ، جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور اس کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم، لہذابادشاہ نے فوراً خزانے کے انچارج کو بلایا اور حکم دیا کہ اس آدمی کے کشکول کو بھر دیا جائے ۔ خزانے میں جو کچھ موجود تھا انچارج لے کر حاضر ہو گیا لیکن کشکول ابھی بھی نہ بھر پایا بادشاہ کو اپنی بے عزتی کا احساس ہوا اور اس نے تما م خزانوں کے منہ کھول دیئے لیکن کشکول تھا کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ خزانے کے وزراء کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی لیکن کشکول خالی کا خالی رہا۔ اتنے میں ایک درباری سب لوگوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور بلند آواز میں بولا کہ ’’اے بادشاہ ! آپ کے تخت کی خیر ہو، یہ شخص دنیا ئے عالم کے ایک عظیم ملک پاکستان کا وزیر خزانہ ہے اس کے کشکول کو دنیا بھر کی تجوریاں نہیں بھر سکیں کیوں کہ ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، امریکہ ، چائنہ ، ایشین ڈویلپمنٹ بنک الغرض دنیا کا کونسا ایسا مالیاتی ادارہ ہے کہ جس سے اس شخص نے بھیک نہ مانگی ہو لیکن اس کا کشکول ہے کہ خالی کا خالی ہی رہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ملک کی ہر آنے والی حکومت سار ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال کر سرخرو ہو جاتی ہے اور پھر نئے عزم اور ارادے سے یہ پیشہ ور بھکاری،بہترین لباس زیب تن کیے ، دنیا کے مہنگے ترین جوتے پہنے اپنی قوم کے نام پر گداگری کا کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
چائنہ، ملائشیا، جاپان اور دیگر ممالک سے اگر موازنہ کریں تو ہمارا ملک ہر حوالے سے ایک بہترین ملک ہے ۔ بیک وقت چاروں موسموں کی رنگینی اس کے درو بام سے چھلکتی رہتی ہے کہیں یہ خر پوش وادیاں تو کہیں گنگناتے جھرنے اور کہیں لہلہاتی فصلیں اس کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ یہاں کی مٹی فصلیں نہیں سونا اگلتی ہے۔ بہترین اور ذہین افرادی قوت سے مالا مال یہ سر زمین اتنی بانجھ تو کبھی نہ تھی ۔ پاک سر زمین کی دھرتی کے لاکھوں نوجوان ہیں کہ جنہوں نے اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا ہے۔ دنیا ان کی صلاحیت اور ذہانت کی معترف ہے لیکن وطن عزیز کی سرزمین پر ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔وہی موروثی نظام جو انگریز اپنے ورثے کے طور پر ہمیں دے گیا تھا آج بھی اپنی بدترین اور مکروہ شکل کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ایک اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس خاندان ہیں جو پچھلے ستر سالوں سے اس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ لیکن حالات ہیں کہ سدھرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ کچھ لوگوں کی جائیدادیںدنیا کے تمام ممالک میں پائی جاتی ہیں اور پانامہ لیکس سے لے کر ایگریکلچر لیکس تک ان کے نام نمایاں اور موٹے حروف میں لکھے ہوئے ہیںلیکن ملک کی کوئی عدالت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کچھ دن پہلے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سکول کے شہداء کی میتوں کو ان کے آبائی علاقوں کی طرف بھیجا جا رہا تھاتو ہائی ایس ویگنوں کی چھتوں پر ان کے لاشے ان کے گھروں کو بھیجے گئے۔المیہ تو یہ ہے کہ اس پولیس ٹریننگ سکول کی چار دیواری تک نہ تھی جب کہ رائیونڈ جاتی عمرہ، بنی گالہ، سرے محل لاڑکانہ اور وزیر اعظم ہائوس سے لے کر وزراء کی رہائش گاہوں تک لگے ہوئے بیریئر ، سکیورٹی کیمرے، ٹھنڈے کمرے اور چاک و چوبند کھڑے ہوئے گارڈز ان لوگو ں کی حفاظت پر معمور ہیں۔
آخر وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے تین مرتبہ وزیر اعظم اور دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے والے نواز شریف کو بلیک میل کیے رکھا اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہونے دیا۔ ہم شدید مذمت کرتے ہیں ان عناصر کی کہ جنہوں نے پیپلز پارٹی کو سند ھ کی دھرتی کو چار چاند لگانے سے روکے رکھا حالانکہ پچھلے پچیس سال سے پارٹی سندھ پر برسراقتدار ہے جب کہ تھر میں سینکڑوں بچے آج بھی بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں۔دنیا آج چاند سے آگے مریخ تک کا سفر طے کر رہی ہے اور ہمارے ہاں ٹرین کے سگنل ہی کام نہیں کرتے اور سینکڑوں لوگ حاد ثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔اور ہمارے متحرک خادم اعلیٰ اس کے گھر حاضر ہو تے اور اس خاندان کو پانچ لاکھ کا چیک دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے والے اس خادم اعلیٰ نے کسی ایک محکمے کو بھی اپ گریڈ نہیں کیا اور تمام اختیارات کا منبع و محور اپنے خاندان کو بنائے رکھا۔ کو ئی ایک وزارت بھی ایسی نہیں کہ جو مناسب انداز میں کام کر رہی ہو تمام اختیارات کا گھنٹہ گھر یہ اور ان کا خاندان ہے اور اس سب کے باوجود بھی معتبر ہے تو صرف انہی کا فرمایا ہوا۔
یہ داستان بہت لمبی ہے جب کہ صرف پندرہ سال کے عرصے میں ترکی کو دنیا کی بہترین معیشت اور معاشرت سے مالا مال کرنے والا ایک شخص کہ جسے دنیا رجب طیب اردگان کے نام سے جانتی ہے اس نے سالوں کا سفر مہینوں میں اور مہینوں کاسفر دنوں میں طے کر کے بتا دیا کہ قیادت کسے کہتے ہیں۔ اپنی قوم کو ایک باوقار اور مہذب قوم کیسے بنایا جاتا ہے۔ کیا اس ملک کی بیس کروڑ آبادی میں ایک بھی طیب اردگان نہیں ہے؟ کیا کوئی ایک بھی عمر بن عبدالعزیز نہیں ہے؟ کیا یہ مٹی بالکل بانجھ ہو چکی ہے؟ کیا قدرت ہم سے کوئی انتقام لے رہی ہے؟ آئیے ان سوالات کے جوابات تلاش کریں اور 2018ء کے الیکشن تک اپنے اردگرد کوئی ایسا قائد تلاش کریں جو ہمیں ہماری منزل مقصود تک پہنچا دے۔ کوئی اقبال، کوئی قائد، کوئی سید مودودی، کوئی طیب اردگان ڈھونڈیںجو ہمارے بھی دکھوں کا مداوا کرسکے۔ کوئی ایسا مسیحا تلاش کریں جو اس مٹی کو سونے میں تبدیل کر دے لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنی فکر اور سوچ کو تبدیل کر نا ہوگا۔ برادری ، خاندان، پارٹی اور ان تمام چیزوں سے بالا تر ہو کر سوچنا ہو گا۔ یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔۔۔۔ تو آئیے! ان اندھیروں سے چھٹکارا حاصل کریں اور کوئی مومن صفت انسان تلاش کریں۔
تبصرہ لکھیے