دور جدید کا چیلنج ایسا ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے. اس کے معاشرتی اور اجتماعی مسائل اس کی نظریاتی اور فکری جہتیں اتنی وسیع ہیں کہ ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے دینی مدارس کے فضلاء کو روایتی انداز فکر سے بلند ہوکر،مسائل ومعاملات کے سارے پہلووں کے ادراک کی صلاحیت کا حامل ہوکر، قرآن و سنت کی روشنی میں ان کے حل کی صورت نکال کر، جدید انسان کی رہنمائی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے.
اب فقہی دبستان میں محدود ہوکر خاص فقہی تناظر میں جدید دور کے نئے مسائل کو دیکھنے، سمجھنے اور حل نکالنے کا دور نہیں رہا،قرآن وحدیث جو ہر دور کی رہنمائی کے علمبردار ہیں اس کی نصوص کی روشنی میں نئے مسائل کے حل کی صورتیں نکل سکتی ہیں اس کے لیے تبحر علمی کے ساتھ ساتھ وسعت فکرونظر اور جدید مسائل کی پیچیدگیوں کے فہم کی بھی ضرورت لاحق ہے ایک مفسر قرآن نے قرآن سے رہنمائی کے سلسلہ میں کتنا اہم نکتہ بیان فرمایا ہے مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں.
حقیقت یہ ہے کہ آیات احکام وایمانیات کو چھوڑ کر باقی پچاسوں سیکڑوں آیتیں قرآن مجید کی ایسی ہیں جن میں کسی واقعہ کائناتی طبعی تاریخی وغیرہ کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی تفسیر ہر زمانے اور ہر دور میں علوم حاضر اور مسلمات وقت کی روشنی میں نئی کرنا پڑے گی اور جو کتاب ہر دور ہر زمانے اور ہر ملک کے لیے نازل ہوئی ہے اس کی تفسیر کو صدیوں کے رجال واکابر کی فہم کا پابند اور اس سے محدود کر دینا قرآن مجید کی آفاقیت اور ہمہ گیری پر ظلم کرنا ہے بس ہمیں احتیاط اتنی رکھنی پڑے گی کہ یہ نئی تفسیر و تعبیر لغت یا کسی دوسرے نص کے مخالف نہ پڑے بڑے بڑے محتاط متقی حضرات کے ذہن کو اس بنیادی حقیقت کی طرف سے ذہول ہو جاتا ہے تفسیر قرآن کے سلسلہ میں حقیقت دونوں انتہاوں کے درمیاں ہے لغت عربی سے انحراف تو بیشک جائز نہیں لیکن خود لغت اور محاورہ کے اندر بڑی لچک موجود ہے اور جب سوالات نئے نئے پیدا ہونگے تو لغت ومحاورہ کی اس وسعت سے فائدہ اٹھانا جائز ہو جائے گا ہر دور کے مخاطبین اپنا ایک مخصوصی دماغی وذہنی سانچہ رکھتے ہیں تفہیم وتعبیر مطالب میں اس سے بالکل قطع نظر کیوں کر کی جا سکتی ہے البتہ یہ احتیاط لازم ہے کہ کوئی بھی تعبیر حدودلغت سے باہر اور کسی نص سے معارض نہ ہونے پائے.
مولانا عبدالماجد دریا آبادی مزید لکھتے ہیں.
جہاں تک قرآنی فہم کے ادراک کا تعلق ہے تو اس کے لیے ان علوم ومعارف کا حامل ہونا ضروری ہے جو فہم قرآن کے مبادی مسلم ہو چکے ہیں بقول امام راغب اصفہانی کےانزل الكتاب والميزان-اس میزان سے مراد وہی علوم ہیں جو قرآن فہمی کے لیے ضروری ہیں البتہ وعظ ونصیحت کے لیے يسرنا القرآن لذكر کا اعلان واضح ہے نئے دور کے مسائل میں قرآن وسنت سے رہنمائی سے ہمارا مقصود ازسرنو غوروفکر اور فقہائے امت کے اجتہادات سے صرف نظر کرنا نہیں ہے بلکہ اہم بنیادی مسائل میں جو ہر دور میں یکساں رہے ہیں. ان میں تو قرآن وسنت کی وہی تعبیر وتشریح اور وہی اجتہادات مسلمہ قابل قبول ہوں گے جو ائمہ عظام اور فقہائے امت کے ہیں البتہ ان مسائل میں بھی چاروں ائمہ کے ہاں سہولت کا پہلو غالب ہے جدید انسان کی حالت کے پیش نظر اس سہولت کے پہلو کے مطابق فتوی کو ترجیح دینا حکمت ودانائی سے زیادہ قریب ہوگا اس سلسلہ میں امام ربانی حضرت مجددالف ثانی اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی خود اسی حکیمانہ پہلو کو اختیار کرنے پر زور دیا ہے.
تبصرہ لکھیے