ہوم << اگر دھرنا ناکام ہو گیا-جاوید چوہدری

اگر دھرنا ناکام ہو گیا-جاوید چوہدری

566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
ہم اب فرض کرتے ہیں عمران خان کا دھرنا کامیاب نہیں ہوتا‘ یہ عوام کا سمندر اسلام آباد لانے میں ناکام ہوجاتے ہیں‘ شہر بند نہیں ہوتا‘ اسکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں‘ سرکاری دفتر‘ پرائیویٹ آفسز‘ مارکیٹیں‘ شاپنگ سینٹرز اور دکانیں کھلی رہتی ہیں‘ میڈیا دھرنے کو سپورٹ نہیں کرتا اور ایم کیو ایم میئر وسیم اختر کی رہائی کے بدلے سینیٹ اور اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوتی‘ پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں تقسیم ہو جاتی ہے۔
وزیراعلیٰ پرویزخٹک گورنر اقبال ظفر جھگڑا کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دیتے ہیں اور یہ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے ساتھ پریس کانفرنس بلا لیتے ہیں اور فارورڈ بلاک میڈیا کے سامنے چیف منسٹر کی ایڈوائس واپس بھجوانے کی درخواست کر دیتا ہے‘ مسئلہ آئینی اور قانونی بن کر عدالتوں میں پہنچ جاتا ہے‘ مولانا فضل الرحمن آگے بڑھتے ہیں‘ اپوزیشن جماعتوں‘ جماعت اسلامی‘ شیرپاؤ گروپ اور پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کو ساتھ ملاتے ہیں اور وزیراعلیٰ بدل دیتے ہیں۔
یہ اسپیکر اسد قیصر کو وزیراعلیٰ بنا دیتے ہیں یا پھر جماعت اسلامی کو وزارت اعلیٰ دے دیتے ہیں اور یوں صوبائی اسمبلی بھی بچ جاتی ہے‘ کے پی کے بھی عمران خان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور ان کی توجہ اسلام آباد سے بھی ہٹ جاتی ہے‘ سپریم کورٹ بھی روزانہ کی بنیاد پر کیس نہیں سنتی‘ یہ پٹیشنز کو قانونی رفتار سے چلنے دیتی ہے ‘ سپریم کورٹ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا حکم دے دیتی ہے یا پھر حکومت کریک ڈاؤن کے ذریعے کارکنوں کو گرفتار کر لیتی ہے۔
یہ قائدین کو نظر بند کر دیتی ہے اور بلاول بھٹو ‘ خورشید شاہ اور چوہدری اعتزاز احسن ان کی رہائی کے لیے پریس کانفرنسیں شروع کر دیتے ہیں جنھیں یہ چور‘ ڈاکو اور مک مکا قرار دیتے رہے تھے اور سردی بھی بڑھ جاتی ہے اور بارشیں بھی شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سارے معاملات آگے چل کر دھرنے کی ناکامی کا باعث بن جاتے ہیں تو کیا ہو گا؟ فائنل شٹ ڈاؤن اور لاک ڈاؤن کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہ سوال دلدل ہے اور ملک‘ عمران خان اور جمہوریت تینوں اس دلدل کی خشک سطح پر کھڑے ہیں‘ بس ایک کروٹ لینے کی دیر ہے اور یہ تینوں دلدل کا رزق بن جائیں گے۔
عمران خان کے دھرنے کی ناکامی کا پہلا نقصان جمہوریت کو ہوگا‘ ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں سلطنتیں ہیں اور ان کے قائدین بادشاہ ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے 37سال بعد بھی زندہ ہیں‘ زندہ بھٹو کی روح کبھی آصف علی زرداری میں حلول کر جاتی ہے اور یہ کبھی بلاول زرداری کو بلاول بھٹو بنا دیتی ہے‘ یہ پارٹی سیاسی جماعت کم اور تخت زیادہ ہے اور اس تخت کا وارث بہرحال کوئی نہ کوئی بھٹو ہی ہو گا جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن بنی ہی میاں نواز شریف کے نام پر تھی لہٰذا پارٹی کے تمام جملہ حقوق ان کے پاس ہیں۔
پارٹی کے تمام فیصلے صرف اور صرف یہ کرتے ہیں اور یہ میاں صاحب کا فیصلہ ہے ملک اور پارٹی کے تمام کلیدی عہدے شریف فیملی‘ خواجگان‘ بٹ صاحبان‘ کشمیریوں اور پنجابیوں کے پاس ہوں گے‘ یہ کیونکہ پنجاب کو اپنا سیاسی کعبہ سمجھتے ہیں چنانچہ سیاسی کعبے کی کنجی شریف فیملی کے پاس رہے گی‘ پارٹی ان کی جاگیر ہے چنانچہ یہ جاگیر حمزہ شہباز چلائیں گے اور پیچھے رہ گئے ملک کے اعلیٰ عہدے تو ان کے فیصلے بھی میاں نواز شریف کریں گے‘ یہ بادشاہ کی طرح جس سے خوش ہوں گے یہ اسے کسی بڑے شہر کا میئر بنا کر کوئی نہ کوئی ریاست سونپ دیں گے۔
پارٹی کے ایم پی ایز‘ ایم این ایز‘ سینیٹرز‘ وزراء‘گورنرز‘ وزراء اعلیٰ اور صدر کھمبے ہیں‘ میاں صاحب جس کھمبے پر جو پرچم باندھ دیں گے وہ کھمبا وہ بن جائے گا اور یہ جس عہدیدار سے جو پرچم اتار لیں گے‘ وہ عہدیدار دوبارہ کھمبا بن جائے گا‘ عمران خان حبس کے اس موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھے‘ ان کی وجہ سے سیاست کے بتوں میں لکیریں آنے لگی تھیں‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں اپنے ساتھیوں کو عزت دینے لگے تھے‘ میاں نواز شریف نے دھرنے کی وجہ سے ساڑھے تین سال بعد پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا۔
یہ پارٹی کے اندر الیکشن پر بھی مجبور ہو گئے‘ یہ کابینہ کے اجلاس بھی بلانے لگے‘ یہ پارلیمنٹ میں بھی آنے جانے لگے اور انھیں اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت بھی نظر آنے لگی‘یہ ساری تبدیلی عمران خان کی مہربانی تھی‘ عمران خان کا یہ دباؤ اسی طرح جاری رہتا تو مجھے یقین تھا یہ دونوں پارٹیز حقیقی سیاسی جماعتیں بن جاتیں‘ یہ شریف اور بھٹوز سے باہر آنے پر بھی مجبور ہو جاتیں اور یہ بٹ اور سائیں سے بھی باہر نکل آتیں لیکن عمران خان جلدی کر بیٹھے اور یہ اگر اب ناکام ہو جاتے ہیں تو یہ دونوں پارٹیاں مزید مضبوط ہو جائیں گی۔
میاں نواز شریف کا نخرہ غرور بن جائے گا اور آصف علی زرداری کا تیر تلوار اور اس کا نقصان جمہوریت کو ہوگا‘ پاکستانی جمہوریت بدترین سیاسی آمریت بن جائے گی اور یہ لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے ’’اگر عمران خان اپنے ایمپائر کے ساتھ مل کر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو کوئی اور کیا بگاڑ لے گا‘‘ اور یہ طعنہ اور یہ سوچ ملک کو خوفناک جمہوری آمریت کا شکار بنا دے گی۔
دو نومبر کے دھرنے کی ناکامی کے دوسرے شہید خود عمران خان ہوں گے‘ یہ ناکامی انھیں ’’بڑھ بولا‘‘ ثابت کر دے گی‘ عوام اس کے بعد ان کی تقریر‘ جلسے اور دھرنے پر یقین نہیں کریں گے‘ لوگ آج بھی انھیں سیریس نہیں لے رہے‘ دھرنے کی ناکامی کے بعد یہ تھوڑا بہت بھرم بھی ختم ہو جائے گا اور یوں یہ پشاور میں بھی جلسہ نہیں کر سکیں گے‘ پارٹی کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ بھی بڑھ جائے گی‘ موسمی پرندے اڑان بھر جائیں گے‘ چوہدری سرور واپس لندن چلے جائیں گے‘ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین بھی نئے امکانات پر غورشروع کردیں گے۔
کے پی کے میں فارورڈ بلاک بن جائے گا اور یہ بلاک صوبے کے تمام فیصلے بنی گالا کے بجائے پشاور میں کرائے گا‘ ایمپائر بھی عمران خان سے مایوس ہو جائیں گے‘ عمران خان کے عزیز ترین اینکر بھی غائب ہو جائیں گے اور یوں عمران خان اصغر خان بن کر تاریخ کے کھردرے صفحات میں گم ہوتے چلے جائیں گے اور دھرنے کی ناکامی کا تیسرا ’’وکٹم‘‘ پاکستان ہو گا‘ ملک میں بڑی مشکل سے سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آئی تھیں۔
نوجوان طبقہ طویل بے حسی اور لاتعلقی کے بعد عملی میدان میں آیا تھا‘ یہ ووٹ کے لیے پولنگ اسٹیشن گئے تھے‘ یہ جلسوں اور دھرنوں میں شریک ہوئے تھے اور ملک میں لوگ پہلی مرتبہ کرپشن‘ اقرباء پروری‘ نظام کی خرابی اور سیاسی جماعتوں کی بادشاہت کے خلاف بولنے لگے تھے‘ یہ بہت اچھی شروعات تھیں‘ یہ اگر اسی طرح جاری رہتیں اور عمران خان الیکشن ریفارمز کرا لیتے‘ یہ نئی ووٹر لسٹیں بنوا لیتے‘ یہ ملک میں مردم شماری کرا لیتے‘ الیکشن میں بائیو میٹرک سسٹم آ جاتا‘ یہ الیکشن کمیشن کو ٹائیٹ کرا لیتے اور یہ عدلیہ کو جلد فیصلوں پر مجبور کر دیتے تو ملک میں حقیقی تبدیلی آ جاتی۔
عمران خان اگر خیبر پختونخوا پر توجہ دیتے‘ یہ اپنی اور اپنی پارٹی کی ساری توانائیاں وہاں صرف کرتے تو ان کا صوبہ پوری دنیا کے لیے آئیڈیل بن جاتا‘ دوسرے صوبوں کو تحریک ملتی‘یہ بھی ان کی تقلید کرتے اور پورا ملک بدل جاتا۔
یہ اگر اسی طرح پارٹی کی تنظیم سازی پر توجہ دیتے‘ یہ ملک کے تمام شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں پارٹی دفاتر بناتے‘ نوجوانوں کی باڈیز بناتے‘ پارٹی کے سیاسی اسکول اور کالج بناتے‘ اپنے تمام ورکروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے آپس میں جوڑ دیتے اوریہ اپنی ووٹر لسٹیں بناتے اور حلقوں کے لیے بہتر امیدوار تلاش کرتے تو یہ ملک میں 2018ء تک قائد انقلاب اور ان کی جماعت انقلابی پارٹی بن چکی ہوتی لیکن عمران خان سیدھے راستے کے بجائے اس راستے پر چل پڑے جس پر چل کر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اقتدار تک پہنچے تھے۔
آپ آج پاکستان تحریک انصاف کا ملک کی دونوں پرانی جماعتوں کے ساتھ تقابل کر لیں‘ آپ تینوں کو ایک جیسا پائیں گے‘ آپ کو تینوں کے نام‘ چہرے اور بیانات تک ایک ملیں گے‘ مخدوم اُدھر بھی ہیں اور مخدوم اِدھر بھی ہیں‘ اے ٹی ایم اُدھر بھی ہیں اور اے ٹی ایم اِدھر بھی ہیں اور جینوئن کارکن اُدھر بھی ذلیل ہو رہے ہیں اور یہ اِدھر بھی خاک چاٹ رہے ہیں چنانچہ پھر فرق کہاں ہے؟
آپ کسی دن کوئی اخبار اٹھائیے اور تینوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے بیانات کی سرخیوں میں نام تبدیل کر دیجیے‘ عمران خان کے بیان کے اوپر بلاول بھٹو کا نام لکھ دیجیے‘ بلاول بھٹو کے بیان پر عمران خان کا نام لگا دیجیے اور آپ میاں نواز شریف کے بیان پر آصف علی زرداری لکھ دیجیے‘ آپ کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا‘ یہ کیا ہے؟
یہ وہ مقام افسوس ہے جس کا ماتم پوری قوم کر رہی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو تبدیلی کا شاندار موقع دیا تھا لیکن ان کی جلد بازی نے یہ موقع ضایع کر دیا‘ رہی سہی کسر دھرنے کی ناکامی پر پوری ہو جائے گی‘ آپ بدقسمتی دیکھئے عمران خان کی غلطیوں نے سیاست کو خربوزہ بنا دیا ہے‘ یہ اب چھری کے اوپر ہو یا نیچے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ قوم نے بس یہ تخمینہ لگانا ہے ملک کو دھرنے کی کامیابی سے زیادہ نقصان ہو گا یا ناکامی سے! نقصان بہرحال اب ہمارا مقدر ہے۔

اگر دھرنا کامیاب ہوگیا، پہلی قسط ملاحظہ فرمائیں

Comments

Click here to post a comment