جب بلوچستان کی محرومیوں کی بات کی جائے تو پنجابی اہل دانش ایسے شمشیر بکف ہو کر جواب دیتے ہیں گویا کسی حریف کا تذکرہ ہے. اس رویے کو بدلیے. بلوچستان کا پاکستان میں رقبے کے لحاظ ہی سے نہیں نام کے اعتبار سے بھی زیادہ حصہ ہے. پ ا ک س ت ا ن کے سات حروف میں سے چار حروف یعنی ”ستان“، اس صوبے کے نام سے آئے ہیں. اس لیے اس حوالے سے ہونے والی بحث پر حریفانہ انداز میں پوزیشن لینے کی ضرورت نہیں. یہ پاکستان بمقابلہ بھارت نہیں ہے. یہ دو بھائیوں کا معاملہ ہے. ایک کے لہجے میں کچھ تلخی بھی آ جائے تو حریفانہ کشمکش نہیں بلکہ خیر خواہانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے.
بلوچستان کی محرومیوں پر پنجاب میں ایک روایتی فکر پائی جاتی ہے جس کے دو پہلو ہیں. ایک یہ کہ بلوچستان کے مسائل کے ذمہ دار وہاں کے نواب اور سردار ہیں جو کرپٹ ہیں. دوم پنجاب کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں. یہ دونوں مؤقف درست نہیں.
بلوچستان کے تمام علاقے نوابوں کے کنٹرول میں نہیں. وہاں دوسری جماعتیں بھی ہیں. قومی اسمبلی میں ان کی نشستوں کا تناسب دیکھ کر معاملہ سمجھا جا سکتا ہے. وہاں جے یو آئی کے مڈل کلاس کے لوگ بھی ہیں جو جیت کر آتے ہیں اور ڈاکٹر عبد المالک کی پارٹی بھی ہے جو نوابوں اور وڈیروں پر مشتمل نہیں ہے اور ان کو ووٹ ملتے ہیں. اب جہاں نواب نہیں ہیں وہاں کیا ترقی ہوئی ہے؟
یہ کہنا کہ نواب اور وڈیرے کرپٹ ہیں یہ ایک خلط مبحث ہے. اگر بلوچستان میں ترقی اس لیے نہیں ہوسکی کہ وہاں کے نواب اور سردار کرپٹ ہیں تو پنجاب میں کون سے عمر بن عبد العزیز کے عمال حکومت بیٹھے ہیں. لاہور والوں کے کارناموں کا تو شور مچا ہے اور پانامہ پانامہ ہو رہی ہے. اگر کرپشن ہی ترقی میں واحد رکاوٹ ہے تو لاہور میں ستے خیراں کیوں ہیں؟
پھر یہ کہ اگر وہاں کے نواب کر پٹ ہیں تو کیا اس بنیاد پر وہاں کے عام آدمی کی بات ہی اب نہ کی جائے. کیا ان کرپٹ سرداروں کے چنگل سے نکال کر عوام کو بنیادی سہولیات دینا وفاق کی ذمہ داری نہیں. اب اگر کوتاہی وفاق کی ہے تو کیا وفاق میں اکثریت پنجاب کی نہیں؟ تو جناب گلہ تو ہو گا اور گاہے تلخ بھی. تاؤ کھانے کی ضرور ت نہیں. صوبائیت کی لعنت سے بلند ہو کر سوچنا ہوگا کہ بلوچستان کے پاکستانی تک زندگی کے لوازمات کیسے پہنچائے جائیں.
تبصرہ لکھیے