مستنصر حسین تارڑ صاحب نے اپنے شمالی علاقوں کے ایک سفرنامے میں واقعہ لکھا کہ لاہور سے ایک صاحب ان کے ساتھ روانہ ہوئے، سفر سے پہلے انہوں نے اصرار کیا کہ ساتھ ایک کڑھائی رکھنی چاہیے، اگر قسمت سے مارخور کا گوشت مل گیا تو پھر مزے دار کڑھائی گوشت بنانا ممکن ہوگا، باقی ہمسفروں نے مخالفت کی کہ کہاں کڑھائی اٹھاتے پھریں گے، یوں یہ تجویز رد ہوگئی، سفر کے دوران ہفتہ دس دن بعد ایک جگہ پر انہیں مارخور کا گوشت تحفے میں ملا، یہ سوال پیدا ہوا کہ اسے پکایا کس طرح جائے، بقول تارڑ صاحب، ان حضرت نے تو لگتا ہے پورا سفر ہی اس طعنے کے لیے طے کیا تھا، اگلے ہی لمحے انہوں نے طعنہ دیا، دیکھا! میں نے کہا نہیں تھا کہ کڑھائی لیتے چلو۔
وطن عزیز دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، دہشت گردوں کی بہت سی کارروائیاں ناکام بنائی جاتی ہیں، مگر جیسے ہی کہیں پر دہشت گرد وار کرنے میں کامیاب ہوئے، ہمارے ہاں ایک حلقہ تو لگتا ہے اسی انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کب دہشت گرد کچھ کر دکھائیں، وہ فوراً پنجے نکال کر حکومت اور سکیورٹی اداروں پر حملہ آور ہوجائیں اور دکھ و صدمے کے عالم میں ایک نیا طوفان اٹھا دیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ فوج اور حکومتوں کو کچا چپا جائیں۔ یوں لگتا ہے جیسے یا تو ان کی آنکھوں پر بھارتی عینک لگی ہے یا پھر پاکستانی فوج انہیں بھارتی فوج لگتی ہے۔ ہم کسی پر غداری کا لیبل لگانا چاہتے ہیں نہ ہی حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا کوئی ارادہ ہے، مگر بہرحال جب ملک حالت جنگ میں ہو تو سکیورٹی اداروں پر تنقید احتیاط سے کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اس نزاکت کا خیال رکھا جاتا ہے، ہمارے ہاں ایک حلقہ ایسا ہے جس کے دلوںمیں فوج کے خلاف شاید بغض اور نفرت اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ ان سے سنبھالے نہیں سنبھلتی، کسی بھی موضوع پر کلام کرنا ہو، یہ نفرت اور زہر ابل ابل کر باہر آ جاتا ہے۔
سکیورٹی اداروں کی مجبوری یہ ہے کہ نو سو ننانوے کارروائیاں وہ ناکام بنا دیں، ایک کامیاب ہوجائے تو سارا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔ لیکن بے رحمانہ تنقید سے پہلے اتنا تو سوچنا چاہیے کہ یہ جو سینکڑوں کارروئیاں ناکام ہو رہی ہیں، آئے روز دہشت گرد پکڑے جا رہے ہیں، محرم کا عشرہ جو حساس ترین سمجھا جاتا ہے، الحمداللہ پرامن ، پرسکون گزرا، یہ سب آخر کس کی کوششوں سے ممکن ہو پایا؟
دو غلطیاں ہمارے اداروں سے بھی ہو رہی ہیں۔ ایک تو کریڈٹ لینے کی کوشش کسی ایک کو نہیںلینی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی سب کی کامیابی ہے اور ناکامی سب کی ناکامی۔ یہ دراصل ریاست کی فتح یا ناکامی ہوتی ہے۔ جب سکیورٹی ادارے کامیابیوں کا یوںکریڈٹ لیں گے جس سے یہ لگے کہ صرف انہی کا کمال تھا تو پھر جب ناکامی ہوگی، خدانخواستہ کوئی بڑا سانحہ ہوگا تو اس کی ناکامی کا تمام تر بوجھ بھی انہی کو اٹھانا پڑے گا۔ اس لیے یہ روش ہر حالت میں بدلی جائے ۔
دوسرا یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور لڑائی ابھی جاری ہے۔ ہماری تو جنگ بھی ایک سے زائد محاذوں پر چل رہی ہے، اس لیے اگر معرکہ جیتا جائے، جوابی کارروائیوں میں کچھ وقفہ آ جائے تو اس پر پرجوش ہو کر نعرے بازی اور کامیابی کے دعوے نہیں کرنے چاہییں۔ ایسا کرنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہیں، نتائج آپ کی کامیابی کا اعلان خود کرتے رہیں گے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ سکیورٹی لیپس کے باعث ہوا۔ یہ حملہ اور اس قدر بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا ہونا ہماری کمزوری اور ناکامی کی وجہ سے ہوا۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پولیس ٹریننگ کالج کی سکیورٹی انتہائی کمزور اور نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسا ہونا حیران کن ہے۔ کوئٹہ بہت حساس شہر ہے، جہاں دہشت گردی کا بہت زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ اس حوالے سے متعدد الرٹس جاری ہوچکے تھے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ جہاں اس قدر ہائی لیول تھریٹ موجود ہوں، وہاں معمول سے بھی کم درجے کی سکیورٹی کیوں رکھی گئی ؟پشاور سکول اور بعد میں چارسدہ یونیورسٹی کے بعد توتعلیمی اداروں اور سول عمارات کی بھی ٹھیک ٹھاک سکیورٹی کا انتظام کیا جا چکا ہے۔ یہ تو پولیس کا ٹریننگ کالج تھا، اس قسم کی بلڈنگز پر کئی شہروں میں حملے ہوچکے ہیں، خود کوئٹہ میں کئی اہم حکومتی بلڈنگز کو نشانہ بنایا گیا ۔ ایسے میں پولیس کی جانب سے مناسب سکیورٹی انتظامات نہ کرنا بدترین غفلت اور نااہلی ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہییں اور جو کوئی ذمہ دار ہو،ا س کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ بلوچستان اور خاص کر کوئٹہ میں سکیورٹی فورسز کو غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا زیرو پوائنٹ اب بلوچستان ہے۔ کوئٹہ میں خاص کر اس کا خطرہ زیادہ ہے۔ وہاں تو ہر وقت ریڈ الرٹ کی سی کیفیت رکھنا ہوگی۔
بلوچستان میں اس خطرے کی دو تین وجوہات ہیں۔ ایک تو بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کا ایک خاصا بڑا حلقہ موجود رہا ہے جو ہزارہ آبادی کو نشانہ بناتا رہتا تھا۔ اب ان کے اہداف تبدیل ہوگئے ہیں اور وہ پشتونوں اور حکومتی اداروں کو نشانہ بنا کر انتشار پھیلانا چاہ رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کوئٹہ کے وکلا کو دانستہ نشانہ بنایا گیا، جن میں اکثریت پشتونوں کی تھی۔حالیہ حملے میں پولیس ٹریننگ کالج کو نشانہ بنایا، مقصد سکیورٹی اداروں کے مورال کو ڈاؤن کرنا اور ان کے خلاف جذبات پیدا کرنا ہی ہے۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کی فالٹ لائنز پہلے سے موجود ہیں، معمولی سی غفلت سے وہاں سے شاکس آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بلوچ شدت پسند تنظیموں میں سب سے نمایاں بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی)ہے، اطلاعات آ رہی ہیں کہ لشکر جھنگوی کے مقامی دہشت گردوں اور بی ایل اے کے لوگوں میں تعاون بڑھ رہا ہے۔ مذہبی حوالوں سے ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہونے کے باوجود مختلف اہداف کے لیے یہ ایک دوسرے کے لیے سہولت کار کا کام کر رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق بی ایل اے کے ایک معروف مقامی کمانڈر اور لشکر جھنگوی کے نمایاں کمانڈر کا قبیلہ ایک ہے، ریاست دشمنی کے علاوہ یہ ایک اور مشترک نکتہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف ٹی ٹی پی کے باقی ماندہ عناصر بھی بلوچستان کے پشتون علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف سکیورٹی اداروں کے آپریشن چل رہے ہیں، مگر اس پورے علاقے میں افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پراس قدر زیادہ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں کہ ہر ایک کو مارک کرنا آسان نہیں۔ چوتھا فیکٹر سی پیک ہے، جس پر خاصی تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ گوادرپورٹ کو فنکشنل بنایا جا رہا ہے، اس سال کے اواخر تک شپمنٹس آنے اور بھیجنے کا پروگرام ہے۔ کئی مقامی اور غیر ملکی قوتیں اس پراسیس کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ اس میں ہم بھارتی ایجنسی را کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ کوئی احمق ہی اس خوش فہمی کا شکار ہوسکتا ہے کہ را اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھائے گی۔ بلوچستان میں موجود فالٹ لائنز کا ہمارے دشمن ضرور استعمال کریں گے، انہیں ہم اپنی اچھی منصوبہ بندی، مستعدی اور جزئیات کی حد تک جا کر اپنی کمزوریوں کو دور کر کے ہی ناکام بنا سکتے ہیں۔
سانحہ کوئٹہ، غلطی کہاں ہو رہی ہے ؟ عامر خاکوانی

تبصرہ لکھیے