ہوم << کوئٹہ میں دہشت گردی اور عسکریت کا پیچیدہ کھیل - فیض اللہ خان

کوئٹہ میں دہشت گردی اور عسکریت کا پیچیدہ کھیل - فیض اللہ خان

فیض اللہ خان پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر دہشت گرد حملے کو ناکام بنانا سیکیورٹی اداروں کی ذمہ واری ہے اس لیے کٹہرے میں پہلے وہ اور بعد میں سول ادارے آتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ صرف مار دھاڑ اور آپریشنز سے جہادیوں نے ختم ہونا ہوتا تو امریکہ انہیں ختم کرچکا ہوتا۔
جہادیوں کی اصل طاقت وہ نظریہ ہے جو انہیں مذہب فراہم کرتا ہے، اسی وجہ سے انہیں ایسے لوگ بآسانی میسر آتے ہیں جو زندگی سے زیادہ موت سے محبت کرتے ہیں۔ مختلف آپریشنز اور پولیس مقابلوں کے دوران بسا اوقات جو بےگناہ مارے جاتے ہیں، اس کی وجہ سے ردعمل کے طور پہ دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں کو نیا خون ملتا رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے گروہوں کو مختلف ممالک ایک دوسرے کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، جو کہ اصلا اسلام کے خلاف ہے، میں ہونے والی ناانصافی نے ایک پوری ایسی نسل تیار کردی ہے جو عالمی و علاقائی سطح پر چھوٹے لیکن خوفناک حملوں کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کا اظہار وقفے وقفے سے ہوتا رہتا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے جہادی آپس میں کارروائیوں کی شرعی تشریح کے حوالے سے بہت سے اختلافات کے باوجود ساتھ ہی رہتے ہیں، ان میں دشمنی کم کم ہی رہتی ہے، البتہ دولت اسلامیہ کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔
کوئٹہ حملے میں لشکر جھنگوی العالمی کا نام سامنے آیا ہے، اور گروپ کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ یہ حملہ دولت اسلامیہ کے اشتراک سے کیا گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے لشکر جھنگوی اور دولت اسلامیہ نظریاتی اعتبار سے الگ ہیں لیکن یہاں ہدف کے حصول کے لیے وہ ایک پیج پر نظر آئے، پھر اہل تشیع کو دشمن سمجھنا دونوں کے درمیان مشترک مفاد ہے۔
اس معاملے کا ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ لشکر جھنگوی العالمی کا ہیڈکوارٹر افغانستان میں ہے، اور تنظیم کا ماسٹر مائنڈ کابل سرکار کی پناہ میں نہیں بلکہ جنوبی افغانستان کے ان علاقوں میں موجود ہے جو نہ صرف پاکستانی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ یہاں افغان طالبان کا اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے، اور انہی علاقوں میں القاعدہ بھی موجود ہے۔ یعنی کہ افغان طالبان یہ سب جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسے گروپس کو پاکستان کے سیکیورٹی اداروں سے مذاکرات کے دوران اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ لشکر جھنگوی کی اعلی قیادت ملاعمر کے دور میں افغانستان میں موجود رہی اور اپنے تربیتی مراکز چلاتی رہی، حکومت پاکستان کے تمام مطالبات کے باوجود انہیں حوالے نہیں کیا گیا، یہی معاملہ لشکر جھنگوی العالمی کا لگتا ہے کہ افغان طالبان انہیں کارروائی بند کرنے کا تو کہہ سکتے ہیں لیکن حوالگی کا امکان نظر نہیں آتا، اس کے بدلے میں یقیناً وہ پاکستان سے اپنے کچھ مطالبات تسلیم کرانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد افغان طالبان نے اہل تشیع کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے۔
عسکریت ایک پیچیدہ کھیل ہے جس کا ہر کھلاڑی ہر چال حالات کے مطابق چلتا ہے۔ پاکستانی اداروں پر حملوں سے افغان و ہند سرکار کو اطمینان ملتا ہے اور بہت سے گروہ ایسے بھی ہیں جو پیسوں، نفرت اور ردعمل کے طور پہ ان کے آلہ کار بنتے ہیں، اس میں قوم پرست یا مذہبی عسکریت پسند کی تفریق نہیں۔
سکیورٹی اداروں پہ تنقید اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو کمزور کیا جاچکا ہے، اس کی حملوں کی صلاحیت میں ٹھیک ٹھاک کمی آچکی ہے، البتہ مکمل خاتمہ جب تک نہ ہو تب تک کمر توڑنے کے دعوے سے گریز بہتر ہے۔

Comments

Click here to post a comment