ہوم << بول کا پھر سے آغاز - محمود شفیع بھٹی

بول کا پھر سے آغاز - محمود شفیع بھٹی

محمود شفیع ”بول نیوز“ جو ایشیائی برقی صحافت میں ایک انقلاب کا نام رکھتا ہے۔ دنیا کے جدید ترین سٹوڈیوز، قابل اینکرز، سہولیات اور سب سے بڑھ کر پرکشش تنخواہیں۔ بول نے جب بولنے کی کوشش کی تو اس کی بولتی بند کردی گئی۔ پاکستان کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کو فراڈ ثابت کرکے اس سے منسلک تمام اداروں کو بند کردیا گیا۔ شعیب شیخ جیل چلے گئے۔ اس دوران بول کی ٹیم میں شگاف پڑے اور کئی اینکرز دوسرے چینلز کو پیارے ہوگئے، جس سے بول کی ساکھ ختم ہو کر رہ گئی اور ساتھ ہی بول پر پابندی لگا دی گئی جس سے اس ادارے کے سینکڑوں ملازمین کا معاشی استحصال ہوئی، اور ان کے چولہے تھنڈے پڑ گئے۔
بول کی بندش کے کئی محرکات تھے، نجی میڈیا گروپس کا اس میں بنیادی کردار تھا۔ دوسرے چینلز کے اندر ایک عجیب خوف تھا کہ کہیں وہ ناکام نہ ہو جائیں کیونکہ بول کی تنخواہیں، سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی دوسرے ادروں سے بہت آگے تھی، جس کی وجہ سے ایک منظم منصوبے کے تحت بول کو منظر عام سے ہٹایا گیا۔ دوسرے چینلز کو ڈر تھا کہ بول کی اعلی کوالٹی ٹرانسمیشن اور غیر جانبداری سے ان کی ریٹنگ خراب ہوگی، کاروباری نقصان ہوگا، جس سے چینلز بند ہوسکتے ہیں۔ ایک منظم پلان کے تحت اس معاملے کو میڈیا پر اچھالا گیا اور بول و ایگزٹ کو بدنام کیا گیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد اب بول کو دوبارہ ٹرانسمیشن کی اجازت دے دی گئی ہے جس کے بعد کئی نامور اینکرز اور پرڈیوسرز اس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، بول کی چکا چوند سے ہر بندے کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں، اس کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بول اور دوسرے چینل ملازمین کے درمیان ایک معاشی خلیج حائل ہو رہی ہے۔ دونوں کی آمدنی میں کافی فرق ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں کارپوریٹ برقی صحافت نے کافی ترقی کی ہے اور ترقی ان ملازمین کے طفیل ہے۔ ان ملازمین کی شبانہ روز محنت سے مالکان کو اربوں روپے کا منافع ہوا لیکن ملازمین کا حصہ کم رہا، اس آمدنی سے ان کی گزر اوقات ممکن نہیں ہے۔ بول کو ان ملازمین کی معاشی آسودگی کی سزا دی گئی تھی کیونکہ اس نے ملازمین کی محنت کو بجائے بینکوں میں بھرنے کے ان تک حق پہنچایا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس معاشی خلیج کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا دوسرے ملازمین اپنے چینل مالکان سے بول جتنی تنخواہوں کا مطالبہ کریں یا پھر ایسے ہی کسمپرسی کی زندگی بسر کریں۔ اس سارے معاملے میں ایک ایسی تنظیم کا وجود ناگزیر ہے جو میڈیا ورکرز کے حقوق کی آواز بلند کرے اور اعلی پائے کی سہولیات کا مطالبہ کرے لیکن سوال یہ ہے کہ کون کرے گا؟ میڈیا ملازمین پر مشتمل ایک ایسی تنظیم ہونی چاہیے جو ان کے حقوق کی آواز بلند کرے اور مالکان سے حق دلوائے۔ روایتی صحافتی تنظیمیں اب تک ناکام رہی ہیں. برقی میڈیا سے منسلک حضرات اس معاملے پر ایک ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں لائیں تاکہ اس معاشی خلیج کو ختم کیا جاسکے. نہیں تو میڈیا میں ورکرز کی معاشی انارکی اور زرد صحافت کے امکانات روشن ہیں۔ جن کے آنے والے وقتوں میں بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جو پاکستانی میڈیا کی بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment